مانسہرہ کے سیاحتی مقام ناران کی پہاڑیوں اور بابو سر ٹاپ پر موسم سرما کی دوسری برف باری سے شدید سردی کے باعث بابو سر ٹاپ سڑک ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کردی گئی ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ اور موسم کی شدت کے باعث بابو سرٹاپ سے ناران سڑک مکمل بند ہوگئی ہے، راستہ کی بندش اور موسم کی شدت کے باعث گڈی داس اور بیسز کے مقام پر سیاحوں اور مسافروں کی سکیورٹی کے لئے قائم دو پولیس چوکیاں ختم کردی گئی ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛ جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں نازل فرماتا ہے
جمعہ, نومبر 09, 2012
پاکستان میں امریکی ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے: روس
روس کے محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ پر جاری کردہ وزیر خارجہ سرگئی لاوروو کے اعلان نامہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں امریکی ڈرون طیاروں کے حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ لاوروو نے کہا کہ روس اور پاکستان نے پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے سے پہلے دو طرفہ معاشی تعاون کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا اور یہ کہ پاکستان کے ساتھ روس کے تعلقات مستحکم ہیں۔ وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ روس پاکستان سے روابط کو ترقی دیتے ہوئے امریکہ کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔ ”ہم پاکستان کو انتہائی اہم ملک سمجھتے ہیں جس کے بغیر مسئلہ افغانستان کو حل نہیں کیا جا سکتا، اس لیے ہم پاکستان اور افغاستان کے درمیان مکالمے کا خیرمقدم کرتے ہیں“، روس کے وزیر خارجہ نے کہا۔
پاکستان میں امریکی ڈرون طیاروں کے حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے: روس
پاکستان میں امریکی ڈرون طیاروں کے حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے: روس
الفاظ کے چناؤ پر کافی کے اثرات
ہر روز کافی کی دو تین پیالیاں پینے سے دماغ مثبت الفاظ کے چناؤ کے سلسلے میں مستعد ہوجاتا ہے لیکن کافی کا منفی یا بلا معانی الفاظ کے چناؤ کا انتخاب کرنے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ تحقیق جرمنی کے سائنسدانوں نے کی ہے۔ روہر یونیورسٹی جرمنی کے سائنس دانوں نے پہلی بار ثابت کیا ہے کہ 30 منٹ میں 200 ملی گرام کافی پینے سے امتحان کے دوران دماغ عقل پر مبنی الفاظ کے چناؤ کو تیز تر کردیتا ہے تاہم جذبات سے وابستہ یا بے مقصد الفاظ کے چناؤ پر اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔
کافی کا الفاظ کے چناؤ پہ اثرات
کافی کا الفاظ کے چناؤ پہ اثرات
امریکی ڈرون پر ایران کی فائرنگ
امریکہ کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ خلیج پر پرواز کرنے والے ڈرون پر ایرانی جیٹ فائٹرز سے فائرنگ کی ہے۔ وزارت دفاع کے ترجمان جارج لٹل نے کہا کہ فائرنگ سے ڈرون کو کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی جیٹ فائٹرز نے بین الاقوامی فضائی حدود میں ڈرون پر فائرنگ کی۔ وزارت دفاع کا مزید کہنا ہے کہ یہ واقعہ یکم نومبر کو پیش آیا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ امریکی صدر کو اس واقعے کے بارے میں مطلع کردیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ پچھلے سال ایران نے ایرانی فضائی حدود میں پرواز کرنے والا ڈرون مار گرایا تھا اور امریکہ کو واپس کرنے سے انکار کیا تھا۔ تاہم امریکہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈرون فنی خرابی کے باعث گرا تھا۔
یاد رہے کہ پچھلے سال ایران نے ایرانی فضائی حدود میں پرواز کرنے والا ڈرون مار گرایا تھا اور امریکہ کو واپس کرنے سے انکار کیا تھا۔ تاہم امریکہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈرون فنی خرابی کے باعث گرا تھا۔
جارج لٹل کا کہنا ہے کہ یکم نومبر کے واقعے کے بعد امریکہ ڈرون کے ذریعے خلیج کی نگرانی کے لیے پروازیں جاری رکھے گا۔ ’امریکہ نے ایران کو مطلع کر دیا ہے کہ امریکہ خلیج میں بین الاقوامی فضائی حدود میں نگرانی کے لیے پروازیں جاری رکھے گا۔‘ وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ ڈرون ایران کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہوا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کے مطابق ’ایران کے دو ایس یو 25 لڑاکا طیاروں نے ڈرون پر فائر کیا۔ یہ فائر ڈرون کو نہیں لگے اور ڈرون کو واپس اڈے پر بلا لیا گیا۔‘ جارج لٹل نے مزید کہا ’ہمارے پاس اپنے فوجی اثاثے اور سکیورٹی فورسز کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت سی آپشنز ہیں جن میں سفارتی بھی ہیں اور فوجی بھی۔ جو بھی ضروری ہوگا وہ ہم کریں گے۔‘ امریکی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ پالیسی کے تحت عام طور پر نگرانی کے مشن کی معلومات منظرِ عام پر نہیں لائی جاتیں لیکن اس بار وہ یہ معلومات عام کریں گے کیونکہ میڈیا کے کئی سوالات ہیں۔
امریکی وزارت دفاع کے مطابق ایران کے دو جنگی طیارے ایس یو 25 فروگ فٹ نے یکم نومبر کو آٹھ بج کر پچاس منٹ پر (جی ایم ٹی) امریکلی ڈرون طیارے پر فائرنگ کی۔ امریکی ڈرون معمول کی نگرانی کی پرواز پر ایران کے ساحل سے سولہ ناٹاکل میل دور تھا۔ جارج لٹل نے بتایا کہ بین الاقوامی فضائی حدود بارہ ناٹیکل میل کے بعد سے شروع ہوتی ہے اور ڈرون ایرانی حدود میں کسی وقت بھی داخل نہیں ہوا تھا۔ ’اس سے پہلے کبھی بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جہاں ایرانی جنگی طیاروں نے ڈرون پر فائر کیا ہو۔‘ جارج لٹل نے کہا کہ ہمارے خیال میں ایرانی جیٹ طیاروں نے دو بار فائر کیا۔ ’پہلی بار فائر کرنے کے بعد یہ طیارے گھوم کر واپس آئے اور فائر کیا۔ اس کے بعد بھی ایرانی جیٹ طیاروں نے ڈرون کا پیچھا کیا لیکن فائر نہیں کیا۔‘ دوسری جانب امریکی وزارت خارجہ نے ایران پر مزید پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ نئی پابندیوں میں ایران کے وزیر مواصلات اور وزارت ثقافت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ وزیر مواصلات پر پابندیاں اس لیے عائد کی گئی ہیں کہ انہوں نے انٹرنیشنل سیٹیلائٹ ٹی وی چینلز کی نشریات کو جیم کرنے اور انٹرنیٹ کی رسائی محدود کرنے کا حکم دیا ہے۔
امریکی ڈرون پر ایرانی جیٹ طیاروں کی فائرنگ
امریکی وزارت دفاع کے مطابق ایران کے دو جنگی طیارے ایس یو 25 فروگ فٹ نے یکم نومبر کو آٹھ بج کر پچاس منٹ پر (جی ایم ٹی) امریکلی ڈرون طیارے پر فائرنگ کی۔ امریکی ڈرون معمول کی نگرانی کی پرواز پر ایران کے ساحل سے سولہ ناٹاکل میل دور تھا۔ جارج لٹل نے بتایا کہ بین الاقوامی فضائی حدود بارہ ناٹیکل میل کے بعد سے شروع ہوتی ہے اور ڈرون ایرانی حدود میں کسی وقت بھی داخل نہیں ہوا تھا۔ ’اس سے پہلے کبھی بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جہاں ایرانی جنگی طیاروں نے ڈرون پر فائر کیا ہو۔‘ جارج لٹل نے کہا کہ ہمارے خیال میں ایرانی جیٹ طیاروں نے دو بار فائر کیا۔ ’پہلی بار فائر کرنے کے بعد یہ طیارے گھوم کر واپس آئے اور فائر کیا۔ اس کے بعد بھی ایرانی جیٹ طیاروں نے ڈرون کا پیچھا کیا لیکن فائر نہیں کیا۔‘ دوسری جانب امریکی وزارت خارجہ نے ایران پر مزید پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ نئی پابندیوں میں ایران کے وزیر مواصلات اور وزارت ثقافت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ وزیر مواصلات پر پابندیاں اس لیے عائد کی گئی ہیں کہ انہوں نے انٹرنیشنل سیٹیلائٹ ٹی وی چینلز کی نشریات کو جیم کرنے اور انٹرنیٹ کی رسائی محدود کرنے کا حکم دیا ہے۔
امریکی ڈرون پر ایرانی جیٹ طیاروں کی فائرنگ
ٹیپو سلطان کی جاسوس پڑپوتی
دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کے لیے جاسوسی کرنے والی ٹیپو سلطان کی پڑپوتی نور عنایت خان کے مجسمے کی نقاب کشائی لندن کے معروف گورڈن سکوائر میں ہونے والی ہے۔ میسور کے سابق حکمراں ٹیپو سلطان کی پڑ پوتی نور عنایت خان نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ انہوں نے زبردست بہادری اور جرات مندی کا ثبوت دیا جس پر ان کی سوانح نگار شربانی باسو نے انہیں ’جاسوس شہزادی‘ کا خطاب دیا ہے۔ نور عنایت روس میں پیدا ہوئیں لیکن ان کی تربیت برطانیہ اور فرانس میں ہوئی۔ ان کا تعلق بھارت کے بہت ہی مشہور شاہی خاندان سے تھا۔ نور خان کو فرنچ زبان میں بھی عبور تھا اور سنہ 1942 میں انہیں برطانیہ کے ’سپیشل آپریشنز ایگزیکیٹیو‘ ( ایس او ای) نے پیرس میں کام کرنے کے لیے بطور ریڈیو آپریٹر بھرتی کیا تھا۔
برطانوی آثار قدیمہ کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ وائر لیس آپریٹ کرنے والے پہلی خاتون تھیں اور دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں نے فرانس کے جس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا وہاں انہیں کام کے لیے بھیجا گیا تھا۔ نور خان کو لکھنے کا بھی شوق تھا اور انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں۔ انہیں موسیقی میں بھی دلچسپی تھی لیکن میدان جنگ میں وہ ایک شیرنی تھیں۔ جاسوس کی حیثیت سے وہ تین ماہ تک تو قید سے بچتی رہیں لیکن پھر وہ قید ہوئیں اور ان پر تشدد کیاگیا ۔ 1944 میں جرمن فوجیوں نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ آخری لمحات میں جب جرمن فوجیوں نے ان پر بندوق تانی تو شہزادی نور خان نے’ آزادی‘ کا نعرہ لگایا تھا۔
ان کی سوانخ نگار شربینا باسو کا کہنا ہے کہ آزادی ان کے لیے بہت اہم تھی جس سے انہیں زندگي بھر لگاؤ رہا۔ اسی بہادری کے سبب انہیں ’جارج کراس‘ کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ فرانس میں انہیں ’ کروسکس ڈی گوئرا‘ کا اعزاز بخشا گیا۔ بعد میں ان کی برسی کے یاد میں بھی دو یادگاریں قائم کی گئیں اور ایک سالانہ تقریب کا اہتمام بھی کیا گيا۔ کہتے ہیں کہ جنگ میں اس طرح کی شجاعت کا مظاہرہ اس لیے نہیں کیا کہ انہیں برطانیہ سے بہت پیار تھا بلکہ اس لیے کہ انہیں فسطائیت اور آمریت سے سخت نفرت تھی۔ ان کے والد ایک موسیقی کار اور صوفی موسیقی کے استاد تھے۔ نور خان کو زندگی کے بہترین آداب سکھائے گئے۔ سبرینا باسو کہتی ہیں کہ ’ وہ کسی ملک پر دوسرے کا قبضہ برداشت نہیں کر پاتی تھیں اور یہ ایک ایسا خیال تھا جو انہیں خاندانی طور پر ورثے میں ملا تھا۔
ان کے پڑدادا ٹیپو سلطان، جو اس وقت کی بھارتی ریاست میسور کے حکمراں تھے، انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے انگریزوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا اور ان کے ساتھ لڑتے ہوئے سنہ 1799 میں جنگ میں مارے گئے۔ نور خان یکم جنوری 1914میں روس میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد بھارتی اور ماں امریکی نژاد تھیں۔ ان کی دوشیزگی کا وقت لندن میں گزرا تھا۔ لیکن بچپن میں ان کا خاندان چونکہ فرانس منتقل ہوگیا تھا اس لیے بچپن وہیں گزرا جہاں انہوں دوران تعلیم فرینچ زبان سیکھی۔ انہوں نے طب اور موسیقی دونوں کی تعلیم لی تھی۔ 1939 میں بچوں کے لیے کہانیوں پر مبنی ان کی ایک کتاب ’ ٹوئنٹی چٹکا ٹیلز‘ شائع ہوئی تھی۔ جب سنہ انتالیس میں عالمی جنگ شروع ہوئی تو نور عنایت خان نے فرینچ ریڈ کراس کے ساتھ بطور نرس تربیت پائی۔ نومبر سنہ چالیس میں جرمن فوجیوں کے سامنے حکومت کے ہتھیار ڈالنے سے پہلے ہی وہ ملک چھوڑ کر ایک کشتی میں سوار ہوکر اپنی ماں اور بہن کے ساتھ لندن پہنچ گئیں۔ برطانیہ آنے کے فوراً بعد انہوں نے ’وومنز آکزیلری ایئر فورس‘ میں وائر لیس آپریٹر کے طور پر شمولیت اختیار کر لی۔ تبھی ان پر ایس او ای کی نظر پڑی۔ اس وقت وہ نورا بیکر کے نام سے معروف ہوئی اور انہوں نے سنہ 1942 میں برطانوی خفیہ سروس جوائن کیا۔ اسی خفیہ سروس کے تحت بعد میں انہیں فرانس میں تعینات کیا گیا لیکن ایک رپورٹ کے بعد انہیں واپس بھیجنے کو بھی کہا گیا۔ اس بات کا شک ہوا کہ شاید نیٹ ورک میں جرمن نے دراندازی کر لی ہے اور انہیں جرمن گرفتار کرسکتے ہیں لیکن وہ اس کے باوجود برطانیہ واپس نہیں آئیں۔
محترمہ باسو نے ان کی زندگی پر آٹھ برس ریسرچ کے بعد کتاب لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ نور خان بچوں کی کہانیوں کی نفیس لکھاری اور موسیقی کار تھیں لیکن ان میں تبدیلی آئی۔ وہ میدان جنگ میں ایک شیرنی کی طرح تھیں‘۔ ان کی ٹیم کے بہت سے لوگ جرمنوں کے ہاتوں قید ہوتے رہے لیکن نور عنایت خان جب تک ممکن ہوا ان کے ریڈیو پیغامات کو درمیان میں سن سن کر برطانیہ کو بھیجتی رہیں۔ ان کے کمانڈر انہیں انگلینڈ واپس جانے پو زور دیتے رہے لیکن وہ تن تنہا بھیس اور مقامات بدل بدل کر جاسوسوں کی ایک خفیہ مہم تین ماہ تک چلاتی رہیں۔ کہتے ہیں جرمن فوجیوں نے انہیں دس ماہ تک قید کر کے تشدد کیا لیکن انہوں نے جرمن فوج کو کوئی معلومات فراہم نہیں۔بالآحر انہیں سنہ چوالیس میں تیرہ ستمبر کو قتل کر دیا گیا۔
بھارتی شہزادی نور کی شجاعت مندی پر اعزاز
برطانوی آثار قدیمہ کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ وائر لیس آپریٹ کرنے والے پہلی خاتون تھیں اور دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں نے فرانس کے جس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا وہاں انہیں کام کے لیے بھیجا گیا تھا۔ نور خان کو لکھنے کا بھی شوق تھا اور انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں۔ انہیں موسیقی میں بھی دلچسپی تھی لیکن میدان جنگ میں وہ ایک شیرنی تھیں۔ جاسوس کی حیثیت سے وہ تین ماہ تک تو قید سے بچتی رہیں لیکن پھر وہ قید ہوئیں اور ان پر تشدد کیاگیا ۔ 1944 میں جرمن فوجیوں نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ آخری لمحات میں جب جرمن فوجیوں نے ان پر بندوق تانی تو شہزادی نور خان نے’ آزادی‘ کا نعرہ لگایا تھا۔
ان کی سوانخ نگار شربینا باسو کا کہنا ہے کہ آزادی ان کے لیے بہت اہم تھی جس سے انہیں زندگي بھر لگاؤ رہا۔ اسی بہادری کے سبب انہیں ’جارج کراس‘ کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ فرانس میں انہیں ’ کروسکس ڈی گوئرا‘ کا اعزاز بخشا گیا۔ بعد میں ان کی برسی کے یاد میں بھی دو یادگاریں قائم کی گئیں اور ایک سالانہ تقریب کا اہتمام بھی کیا گيا۔ کہتے ہیں کہ جنگ میں اس طرح کی شجاعت کا مظاہرہ اس لیے نہیں کیا کہ انہیں برطانیہ سے بہت پیار تھا بلکہ اس لیے کہ انہیں فسطائیت اور آمریت سے سخت نفرت تھی۔ ان کے والد ایک موسیقی کار اور صوفی موسیقی کے استاد تھے۔ نور خان کو زندگی کے بہترین آداب سکھائے گئے۔ سبرینا باسو کہتی ہیں کہ ’ وہ کسی ملک پر دوسرے کا قبضہ برداشت نہیں کر پاتی تھیں اور یہ ایک ایسا خیال تھا جو انہیں خاندانی طور پر ورثے میں ملا تھا۔
ان کے پڑدادا ٹیپو سلطان، جو اس وقت کی بھارتی ریاست میسور کے حکمراں تھے، انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے انگریزوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا اور ان کے ساتھ لڑتے ہوئے سنہ 1799 میں جنگ میں مارے گئے۔ نور خان یکم جنوری 1914میں روس میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد بھارتی اور ماں امریکی نژاد تھیں۔ ان کی دوشیزگی کا وقت لندن میں گزرا تھا۔ لیکن بچپن میں ان کا خاندان چونکہ فرانس منتقل ہوگیا تھا اس لیے بچپن وہیں گزرا جہاں انہوں دوران تعلیم فرینچ زبان سیکھی۔ انہوں نے طب اور موسیقی دونوں کی تعلیم لی تھی۔ 1939 میں بچوں کے لیے کہانیوں پر مبنی ان کی ایک کتاب ’ ٹوئنٹی چٹکا ٹیلز‘ شائع ہوئی تھی۔ جب سنہ انتالیس میں عالمی جنگ شروع ہوئی تو نور عنایت خان نے فرینچ ریڈ کراس کے ساتھ بطور نرس تربیت پائی۔ نومبر سنہ چالیس میں جرمن فوجیوں کے سامنے حکومت کے ہتھیار ڈالنے سے پہلے ہی وہ ملک چھوڑ کر ایک کشتی میں سوار ہوکر اپنی ماں اور بہن کے ساتھ لندن پہنچ گئیں۔ برطانیہ آنے کے فوراً بعد انہوں نے ’وومنز آکزیلری ایئر فورس‘ میں وائر لیس آپریٹر کے طور پر شمولیت اختیار کر لی۔ تبھی ان پر ایس او ای کی نظر پڑی۔ اس وقت وہ نورا بیکر کے نام سے معروف ہوئی اور انہوں نے سنہ 1942 میں برطانوی خفیہ سروس جوائن کیا۔ اسی خفیہ سروس کے تحت بعد میں انہیں فرانس میں تعینات کیا گیا لیکن ایک رپورٹ کے بعد انہیں واپس بھیجنے کو بھی کہا گیا۔ اس بات کا شک ہوا کہ شاید نیٹ ورک میں جرمن نے دراندازی کر لی ہے اور انہیں جرمن گرفتار کرسکتے ہیں لیکن وہ اس کے باوجود برطانیہ واپس نہیں آئیں۔
محترمہ باسو نے ان کی زندگی پر آٹھ برس ریسرچ کے بعد کتاب لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ نور خان بچوں کی کہانیوں کی نفیس لکھاری اور موسیقی کار تھیں لیکن ان میں تبدیلی آئی۔ وہ میدان جنگ میں ایک شیرنی کی طرح تھیں‘۔ ان کی ٹیم کے بہت سے لوگ جرمنوں کے ہاتوں قید ہوتے رہے لیکن نور عنایت خان جب تک ممکن ہوا ان کے ریڈیو پیغامات کو درمیان میں سن سن کر برطانیہ کو بھیجتی رہیں۔ ان کے کمانڈر انہیں انگلینڈ واپس جانے پو زور دیتے رہے لیکن وہ تن تنہا بھیس اور مقامات بدل بدل کر جاسوسوں کی ایک خفیہ مہم تین ماہ تک چلاتی رہیں۔ کہتے ہیں جرمن فوجیوں نے انہیں دس ماہ تک قید کر کے تشدد کیا لیکن انہوں نے جرمن فوج کو کوئی معلومات فراہم نہیں۔بالآحر انہیں سنہ چوالیس میں تیرہ ستمبر کو قتل کر دیا گیا۔
بھارتی شہزادی نور کی شجاعت مندی پر اعزاز
روہنگیا مسلمان ہجرت کر کے کشمیر پہنچ گئے
میانمار میں مسلمانوں کے خلاف پر تشدد حملوں کے بعد وہاں سے ہجرت کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی بڑی تعداد نے بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں پناہ لے لی ہے۔ جنوب مشرقی ایشا کے بودھ اکثریتی ملک میانمار میں مسلم کش آپریشن کے دوران پینتیس سالہ سید الاسلام بیوی اور آٹھ بچوں کو لے کر بنگلہ دیش سرحد کی طرف بھاگ نکلے۔ راستے میں بودھ نوجوانوں نے ان کا سامان لوٹ لیا اور ان پر خنجروں سے وار کیے۔ وہ کسی طرح جان بچا کر نکلے اور بنگلہ دیش ہوتے ہوئے بھارت کے کولکتہ شہر پہنچے۔ وہاں سے وہ سات دن کا سفر کرکے کشمیر کے جنوبی ضلع جموں پہنچے۔
جموں کے کئی علاقوں میں روہنگیا مسلمانوں نے جھگیوں میں پناہ لے لی ہے۔ سید الاسلام سو سے زائد روہنگیا مسلم خاندانوں کے ساتھ نروال قصبہ کے کرانی تلاب کے پاس رہتے ہیں۔ یہاں منشاد بیگم نے اپنی چار کنال زمین روہنگیا مسلمانوں کی رہائش کے لئے وقف کی ہے۔ زمین کے اس رقبہ میں یہ مہاجر خاندان بازار سے جمع کی گئی شیشے کی پیکنگ اور گتے سے بنائی گئی جھگیوں میں رہتے ہیں۔ اسی طرح کی عارضی مسجد اور ایک سکول بھی ہے۔
سید الاسلام میانمار کی فوجی حکومت کے مظالم بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’پیدائش پر ٹیکس لگتا ہے، کوئی مر جائے اور اس کے رشتہ داروں سے ہرجانہ وصول کیا جاتا ہے، کوئی نہ دے تو اس پر قتل کا مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جانور کا بچھڑا ہوجائے تو اس پر ہزاروں روپے کا ٹیکس لیا جاتا ہے۔‘ لیکن نروال کے اس عارضی رفیوجی کیمپ میں روہنگیا مسلمانوں کے نوزائدہ بچوں کا اندراج سرکاری طور پر ہوتا ہے۔ تاہم انہیں قبرستان کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس کے لیے فی الوقت ایک پہاڑی پر عارضی انتظام ہے۔
جموں کے کئی علاقوں میں روہنگیا مسلمانوں نے جھگیوں میں پناہ لے لی ہے۔ سید الاسلام سو سے زائد روہنگیا مسلم خاندانوں کے ساتھ نروال قصبہ کے کرانی تلاب کے پاس رہتے ہیں۔ یہاں منشاد بیگم نے اپنی چار کنال زمین روہنگیا مسلمانوں کی رہائش کے لئے وقف کی ہے۔ زمین کے اس رقبہ میں یہ مہاجر خاندان بازار سے جمع کی گئی شیشے کی پیکنگ اور گتے سے بنائی گئی جھگیوں میں رہتے ہیں۔ اسی طرح کی عارضی مسجد اور ایک سکول بھی ہے۔
سید الاسلام میانمار کی فوجی حکومت کے مظالم بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’پیدائش پر ٹیکس لگتا ہے، کوئی مر جائے اور اس کے رشتہ داروں سے ہرجانہ وصول کیا جاتا ہے، کوئی نہ دے تو اس پر قتل کا مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جانور کا بچھڑا ہوجائے تو اس پر ہزاروں روپے کا ٹیکس لیا جاتا ہے۔‘ لیکن نروال کے اس عارضی رفیوجی کیمپ میں روہنگیا مسلمانوں کے نوزائدہ بچوں کا اندراج سرکاری طور پر ہوتا ہے۔ تاہم انہیں قبرستان کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس کے لیے فی الوقت ایک پہاڑی پر عارضی انتظام ہے۔
سیدالاسلام کے ایک پڑوسی عبداللہ کہتے ہیں میانمار کی فوجی حکومت روہنگیا مسلمانوں کی بستیوں پر باقاعدہ چڑھائی کرتی ہے۔ ’رات کے دوران بستی خالی کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور بستی میں آگ لگا دی جاتی ہے۔‘ ایک اور مہاجر ضیاء الدین کہتے ہیں: ’جوان لڑکیوں کو تھانے طلب کیا جاتا ہے۔ مردوں اور عمر رسیدہ عورتوں کو فوجی بارکوں میں بغیر اُجرت کے کام کروایا جاتا ہے۔‘ نروال کے کیمپ میں رہائش پذیر روہنگیا مسلمانوں کے رہنما زاہد حسین خان کہتے ہیں کہ جن مسلمانوں نے فوجی حکومت کے ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی تھی انہیں دہشت گردی کے الزام میں قید کرلیا گیا اور بیشتر کو قتل کیا گیا۔ زاہد حسین کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں شہریت نہیں دی جاتی، انہیں ایک شناختی کارڈ ملتا ہے جس پر انہیں ’مہمان‘ بتایا جاتا ہے۔ زاہد حسین نے بھارت میں باقاعدہ پناہ کے لیے حکومت ہند کے بعض نمائندوں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’بھارت میں افغانستان، ایران یہاں تک کہ میانمار کے غیرمسلم شہری بھی رہتے ہیں۔ انہیں رفیوجیوں کے حقوق حاصل ہیں۔ ہم چاہتے ہیں میانمار میں جمہوریت کی بحالی تک ہمارے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا جائے۔‘
واضح رہے میانمار میں کئی دہائیوں سے فوجی حکومت ہے اور وہاں کی مسلم اقلیتوں کے خلاف فوج نے آپریشن شروع کیا ہے۔
میانمار: روہنگیا مسلمان ہجرت کر کے کشمیر پہنچ گئے
میانمار: روہنگیا مسلمان ہجرت کر کے کشمیر پہنچ گئے
جمعرات, نومبر 08, 2012
شیخ سعدی کی حکایات
ایک دانا آدمی اپنے بیٹوں کو نصیحت کر رہا تھا کہ پیارے بیٹو! ھنر سیکھو کیوں کہ دنیا کے مال و دولت پر اعتماد کرنا نامناسب ہے۔ مال و دولت کو سفر کے دوران خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ یا چور ایک ہی بار لے جاتا ہے یا مالدار آدمی اسے تھوڑا تھوڑا کر کے کھا جاتا ہے لیکن ھنر خود بخود بڑھنے والا چشمہ اور ہمیشہ پاس رہنے والی دولت ہے، اگر ہنرمند دولت سے محروم ہوجائے تو بھی کوئی غم نہیں کیونکہ ھنر بذات خود دولت ہے وہ جہاں بھی ہوجائے عزّت پاتا ہے اور اسے اونچا مقام حاصل ہوتا ہے۔ بےھنر بھیک مانگتا ہے اور تکلیف اٹھاتا ہے۔
٭ حکمرانی کے بعد ( دوسروں کی ) فرماں برداری کرنا اور ناز پروری کے عادی شخص کا لوگوں کے ظلم برداشت کرنا مشکل ہے۔
٭ جب شام میں فتنہ برپا ہوا تو ہر کوئی ایک گوشے سے فرار ہوگیا۔
٭ دیہات میں پیدا ہونے والے عالم بادشاہ کے وزیر بن گۓ۔
٭ وزراء کے کم عقل بیٹے بھیک مانگنے کے لیۓ دیہات میں چلے گۓ۔
٭ حکمرانی کے بعد ( دوسروں کی ) فرماں برداری کرنا اور ناز پروری کے عادی شخص کا لوگوں کے ظلم برداشت کرنا مشکل ہے۔
٭ جب شام میں فتنہ برپا ہوا تو ہر کوئی ایک گوشے سے فرار ہوگیا۔
٭ دیہات میں پیدا ہونے والے عالم بادشاہ کے وزیر بن گۓ۔
٭ وزراء کے کم عقل بیٹے بھیک مانگنے کے لیۓ دیہات میں چلے گۓ۔
سبز چائے کینسر کے خطرات کم کرنے میں مفید
کینیڈا میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق سبز چائے پینے والی خواتین میں کینسر کے مرض کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق بڑھتی عمر کے ساتھ جو خواتین باقاعدگی سے سبز چائے کا استعمال کرتی ہیں وہ معدے، بڑی آنت اور گلے کے کینسر سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔
تحقیق کے مطابق بڑھتی عمر کے ساتھ جو خواتین باقاعدگی سے سبز چائے کا استعمال کرتی ہیں وہ معدے، بڑی آنت اور گلے کے کینسر سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔
باقاعدگی سے سبز چائے استعمال کرنے والی ستر ہزار چینی خواتین پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج کے مطابق دیگر خواتین کی نسبت ان میں معدے کے کینسر کا خطرہ چودہ فیصد کم پایا گیا۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کینسر سے محفوظ رہنے کے لیے مناسب غذا کا استعمال اور صحت مند طرز زندگی اپنانا بھی بے حد ضروری ہے۔
سبز چائے پینے سے کینسر کے خطرات کم ہو جاتے ہیں: تحقیق
سبز چائے پینے سے کینسر کے خطرات کم ہو جاتے ہیں: تحقیق
توہین آمیز فلم بنانے والے کو ایک سال قید
پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز فلم بنانے والے مشتبہ شخص نکولا باسولی نکولا کو پرول کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے پر ایک سال قید سنائی گئی ہے۔
نکولا کی پرول کا پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز فلم بنانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کو بینک فراڈ کے ایک کیس میں پرول پر رہا کیا گیا تھا۔
امریکی ریاست کیلفورنیا کے جج نے ایک سال قید کی سزا اس وقت سنائی جب نکولا نے اعتراف کیا کہ انہوں نے 2010 میں پرول پر رہائی کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے۔
توہین آمیز فلم بنانے والے کو ایک سال قید
نکولا کی پرول کا پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز فلم بنانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کو بینک فراڈ کے ایک کیس میں پرول پر رہا کیا گیا تھا۔
امریکی ریاست کیلفورنیا کے جج نے ایک سال قید کی سزا اس وقت سنائی جب نکولا نے اعتراف کیا کہ انہوں نے 2010 میں پرول پر رہائی کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے۔
توہین آمیز فلم بنانے والے کو ایک سال قید
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیںاس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے ہمائل ہے اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
ہفتہ, نومبر 03, 2012
سندھ: بیوی کو زخمی کرنے پر خاوند گرفتار
پاکستان کے صوبہ سندھ میں پولیس نے ایک شخص کو اپنی بیوی کی ناک، کان اور چھاتی کو بلیڈ سے زخمی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ یہ واقعہ گزشتہ ہفتے وسطی سندھ کے ضلع سانگھڑ میں پیش آیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بھٹ شاہ میں چھاپہ مار کر ملزم مارو بھیل کو گرفتار کیا گیا ہے۔
کراچی سے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق ملزم مارو بھیل نے صحافیوں کو بتایا کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کے بھائی اور والد گرفتار ہیں تو انہوں نے گرفتاری دینے کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس سے پہلے ہی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ ملزم مارو بھیل نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنی بیوی لالی بھیل پر بد کرداری کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ’انہوں نے کئی بار لالی کو روکا مگر لالی نے ان کی بات نہیں مانی۔‘ ملزم کا کہنا تھا کہ ’وہ تنگ آ کر بیوی کو اپنے بھائی کے گھر سانگھڑ شہر لے آئے مگر وہاں بھی لالی کے رشتے دار پہنچ گئے، ایک روز جب اس کا بھائی بیوی بچوں کے ساتھ گیا ہوا تھا تو انہوں نے لالی کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔‘ مارو بھیل نے بتایا کہ’وہ لالی کے منہ پر کپڑا باندھ کر اسے قریبی فصل میں لے گئے، جہاں لالی کے ہاتھ پاؤں رسی سے باندھ کر بلیڈ کی مدد سے کان، ناک اور چھاتی کو زخمی کر دیا۔‘
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ لالی بھیل کے ناک، کان اور چھاتی کی پلاسٹک سرجری کی ضرورت پڑے گی، صوبائی وزیر اقلیت امور موہن کوہستانی نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی ہے اور انہیں ایک لاکھ روپے دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
مارو بھیل مزدوری کرتے ہیں اور ان کے تین بچے ہیں، اس واقعے میں ایک نومولود بچہ ہلاک بھی ہوگیا تھا۔ مارو بھیل کا کہنا ہے کہ بچہ پیروں تلے دب کر ہلاک ہوا۔ زخمی لالی بھیل کو کراچی کے جناح ہپستال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہسپتال میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لالی بھیل نے ملزم کی گرفتاری پر خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق’مارو بھیل انہیں جنگل میں لے گیا جہاں رسی سے باندھ کر ناک، دونوں کان اور چھاتی کو زخمی کیا اور اس کے بعد وہاں ہی چھوڑ کر فرار ہوگیا۔‘ مسمات لالی کا دعویٰ ہے کہ ان کے نومولود بیٹے کو مبینہ طور پر گلہ گھونٹ کر ہلاک کیا گیا ہے، کیونکہ ان کے شوہر کا الزام تھا کہ یہ بچہ اس کا نہیں کیونکہ اس کی شکل مختلف ہے۔
لالی بھیل اور ان کے شوہر مارو بھیل دونوں کا تعلق ضلع سانگھڑ سے ہے اور دونوں کی شادی کو چھ سال ہو چکے ہیں۔ اپنی بیٹی لالی کو علاج کے لیے کراچی لانے والے آچر بھیل نے بتایا کہ میاں بیوی میں رنجش تو گزشتہ چار سالوں سے تھی مگر ایک سال قبل مارو کی بہن کے بیوہ ہونے کے بعد اس میں شدت آگئی۔ آچر بھیل نے بتایا کہ مارو نے انہیں شکایت کی تھی کہ اسے لالی کے کردار پر شک ہے، جس کے بعد وہ اپنی بیٹی کو اپنے پیر باقر شاہ کی مزار پر لے گئے تھے جہاں اس نے قسم لی تھی کہ اس پر جھوٹے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
سندھ: بیوی کو زخمی کرنے پر خاوند گرفتار
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ لالی بھیل کے ناک، کان اور چھاتی کی پلاسٹک سرجری کی ضرورت پڑے گی، صوبائی وزیر اقلیت امور موہن کوہستانی نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی ہے اور انہیں ایک لاکھ روپے دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
مارو بھیل مزدوری کرتے ہیں اور ان کے تین بچے ہیں، اس واقعے میں ایک نومولود بچہ ہلاک بھی ہوگیا تھا۔ مارو بھیل کا کہنا ہے کہ بچہ پیروں تلے دب کر ہلاک ہوا۔ زخمی لالی بھیل کو کراچی کے جناح ہپستال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہسپتال میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لالی بھیل نے ملزم کی گرفتاری پر خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق’مارو بھیل انہیں جنگل میں لے گیا جہاں رسی سے باندھ کر ناک، دونوں کان اور چھاتی کو زخمی کیا اور اس کے بعد وہاں ہی چھوڑ کر فرار ہوگیا۔‘ مسمات لالی کا دعویٰ ہے کہ ان کے نومولود بیٹے کو مبینہ طور پر گلہ گھونٹ کر ہلاک کیا گیا ہے، کیونکہ ان کے شوہر کا الزام تھا کہ یہ بچہ اس کا نہیں کیونکہ اس کی شکل مختلف ہے۔
لالی بھیل اور ان کے شوہر مارو بھیل دونوں کا تعلق ضلع سانگھڑ سے ہے اور دونوں کی شادی کو چھ سال ہو چکے ہیں۔ اپنی بیٹی لالی کو علاج کے لیے کراچی لانے والے آچر بھیل نے بتایا کہ میاں بیوی میں رنجش تو گزشتہ چار سالوں سے تھی مگر ایک سال قبل مارو کی بہن کے بیوہ ہونے کے بعد اس میں شدت آگئی۔ آچر بھیل نے بتایا کہ مارو نے انہیں شکایت کی تھی کہ اسے لالی کے کردار پر شک ہے، جس کے بعد وہ اپنی بیٹی کو اپنے پیر باقر شاہ کی مزار پر لے گئے تھے جہاں اس نے قسم لی تھی کہ اس پر جھوٹے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
سندھ: بیوی کو زخمی کرنے پر خاوند گرفتار
پاکستان میں مسافر پرندوں کے ڈیرے
کراچی کے ساحلوں اور اندرون سندھ کی جھیلوں پر مسافر پرندوں کے ڈیرے لگ گئے ہیں۔ کلفٹن ، ہاکس بے، پیراڈائز پوائنٹ اور سینڈز پٹ کی سنہری ریت میں جھنڈ در جھنڈ کھیلتے اور بھانت بھانت کی سریلی آوازیں نکالتے ہزاروں پرندے ان ساحلوں کی خوب صورتی کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ ان پرندوں کی آمد کے ساتھ ہی ساحل پر ان کا نظارہ کرنے والوں کا بھی رش بڑھ گیا ہے۔
یہ پرندے سائبیریا، وسط ایشیائی ریاستوں، منگولیا، روس، مشرقی یورپ، چین اور دیگر ممالک سے براستہ افغانستان اور ایران، پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ میدانی علاقوں کے آبی مقامات پر ڈیرہ ڈالتے ہیں۔
ان پرندوں کی آمد کی بنیادی وجہ وہ سخت موسم ہوتا ہے جس میں نہ صرف شدید برف باری ہوتی ہے بلکہ اس قدر یخ بستہ ہوائیں چلتی ہیں کہ انسان تک پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ ان دنوں برفیلے علاقوں کا درجہ حرارت منفی 30 ڈگری سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ پرندے قدرت سے سدھائے ہوئے طریقے پر چلتے ہوئے معتدل موسم کے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔
ستمبر کے آخر سے ان پروندوں کی آمد کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو اپریل تک رہتا ہے۔ ان پرندوں کی آمد کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ویٹ لینڈ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر بابر حسین نے کہا ’سائبریا سے ہرسال تقریباً ایک سو دس اقسام کے پرندے پاکستان آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بطخیں اور بگلے ہوتے ہیں۔ ان پرندوں کے نظارے کا بہترین وقت جنوری کا مہینہ ہوتا ہے جب یہ پرندے اپنے پورے جوبن پر ہوتے ہیں۔‘
بابر حسین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر پرندے ’سینڈزپٹ ‘ پر اترتے ہیں جبکہ اندرون سندھ رن آف کچھ اور ہالیجی جھیل بھی ان پرندون کی قیام گاہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ سینڈزپٹ پر مینگروز کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے یہاں پرندوں کو آسانی سے خوراک مل جاتی ہے۔ سندھ کی آبی قیام گاہوں میں گھاس کی ایک خاص قسم بھی پائی جاتی ہے جس کے چھوٹے چھوٹے پتے اور بیج و چھوٹی مچھلیاں ان کی پسندیدہ خوراک ہے۔ یہ پرندے اپنی افزائش نسل کے بعد اپریل کے وسط تک واپسی کا سفر شروع کردیتے ہیں۔‘
کراچی کے علاوہ اندرون سندھ کے جنگلوں، دمکتی جھیلوں اور تالابوں میں بھی سینکڑوں مہاجر پرندے ہر سال اپنا عارضی بسیرا بناتے ہیں۔ ان پرندوں میں تلور، کونج، بھگوش، چارو، چیکلو، لال سر، بنارو اور دیگر چھوٹی بطخیں اور دوسرے بے شمار پرندے شامل ہیں۔ یہ پرندے زیادہ تر رن کچھ کے ساحلی علاقے اور تھر کے ریگستانوں میں اُترتے ہیں۔ اس کے علاوہ منچھر، کلری اور ہالیجی جھیلیں بھی ان پروندوں کے ٹھہرنے کی پسندیدہ جگہیں ہیں۔
ڈپٹی کنزویٹو سندھ وائلڈ لائف ڈاکٹر فہمیدہ اور دیگر ماہرین کے مطابق کئی سال پہلے تک پاکستان میں تقریباً 10لاکھ پرندے آتے تھے لیکن اب ہر سال ان پرندوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ اس کی سب سے پہلی اور بنیادی وجہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ ہے۔ قدرت نے ان پرندوں کو بہت حساس ناک دی ہے جس کی مدد سے یہ بارود اور خطرے کی بو بہت دور سے ہی پہچان لیتے ہیں لہذا افغانستان کے راستے آنے والے پرندوں نے آمد بند کردی ہے۔
ادھر سندھ کی جن جھیلوں اور تالابوں پر یہ بسیرا کرتے تھے وہ صنعتی فضلے، کوڑا کرکٹ اور دیگر زہریلے مادے سے بھر گئے ہیں لہذا ان پرندوں نے اس وجہ سے بھی آنا کم کردیا ہے۔ شوگر ملوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے دھویں اور مواد نے دریا میں چھپی ان کی خوراک کو بھی زہریلا بنا دیا ہے۔ اس وجہ سے اب یہ پرندے پاکستان کا رخ کرنے کے بجائے بھارت جانے لگے ہیں۔ بھارتی ریاست راجستھان اور گجرات میں ان کا پرجوش استقبال کیا جاتا ہے۔ یہاں ان کے تحفظ کے لئے بھی کئی تظیمیں سرگرم عمل ہیں۔
ان پرندوں کی آمد میں کمی کی ایک بڑی وجہ غیر قانونی شکار بھی ہے۔ موسم بدلتا نہیں کہ شکاریوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ یہ شکاری با اثر ہونے کے سبب قانون سے کھیلتے اور محض اپنے شوق میں ہزاروں پرندے مار دیتے ہیں۔
کراچی سمیت سندھ کے ساحلوں پر مسافر پرندوں کے ڈیرے
یہ پرندے سائبیریا، وسط ایشیائی ریاستوں، منگولیا، روس، مشرقی یورپ، چین اور دیگر ممالک سے براستہ افغانستان اور ایران، پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ میدانی علاقوں کے آبی مقامات پر ڈیرہ ڈالتے ہیں۔
ان پرندوں کی آمد کی بنیادی وجہ وہ سخت موسم ہوتا ہے جس میں نہ صرف شدید برف باری ہوتی ہے بلکہ اس قدر یخ بستہ ہوائیں چلتی ہیں کہ انسان تک پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ ان دنوں برفیلے علاقوں کا درجہ حرارت منفی 30 ڈگری سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ پرندے قدرت سے سدھائے ہوئے طریقے پر چلتے ہوئے معتدل موسم کے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔
ستمبر کے آخر سے ان پروندوں کی آمد کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو اپریل تک رہتا ہے۔ ان پرندوں کی آمد کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ویٹ لینڈ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر بابر حسین نے کہا ’سائبریا سے ہرسال تقریباً ایک سو دس اقسام کے پرندے پاکستان آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بطخیں اور بگلے ہوتے ہیں۔ ان پرندوں کے نظارے کا بہترین وقت جنوری کا مہینہ ہوتا ہے جب یہ پرندے اپنے پورے جوبن پر ہوتے ہیں۔‘
بابر حسین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر پرندے ’سینڈزپٹ ‘ پر اترتے ہیں جبکہ اندرون سندھ رن آف کچھ اور ہالیجی جھیل بھی ان پرندون کی قیام گاہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ سینڈزپٹ پر مینگروز کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے یہاں پرندوں کو آسانی سے خوراک مل جاتی ہے۔ سندھ کی آبی قیام گاہوں میں گھاس کی ایک خاص قسم بھی پائی جاتی ہے جس کے چھوٹے چھوٹے پتے اور بیج و چھوٹی مچھلیاں ان کی پسندیدہ خوراک ہے۔ یہ پرندے اپنی افزائش نسل کے بعد اپریل کے وسط تک واپسی کا سفر شروع کردیتے ہیں۔‘
کراچی کے علاوہ اندرون سندھ کے جنگلوں، دمکتی جھیلوں اور تالابوں میں بھی سینکڑوں مہاجر پرندے ہر سال اپنا عارضی بسیرا بناتے ہیں۔ ان پرندوں میں تلور، کونج، بھگوش، چارو، چیکلو، لال سر، بنارو اور دیگر چھوٹی بطخیں اور دوسرے بے شمار پرندے شامل ہیں۔ یہ پرندے زیادہ تر رن کچھ کے ساحلی علاقے اور تھر کے ریگستانوں میں اُترتے ہیں۔ اس کے علاوہ منچھر، کلری اور ہالیجی جھیلیں بھی ان پروندوں کے ٹھہرنے کی پسندیدہ جگہیں ہیں۔
ڈپٹی کنزویٹو سندھ وائلڈ لائف ڈاکٹر فہمیدہ اور دیگر ماہرین کے مطابق کئی سال پہلے تک پاکستان میں تقریباً 10لاکھ پرندے آتے تھے لیکن اب ہر سال ان پرندوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ اس کی سب سے پہلی اور بنیادی وجہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ ہے۔ قدرت نے ان پرندوں کو بہت حساس ناک دی ہے جس کی مدد سے یہ بارود اور خطرے کی بو بہت دور سے ہی پہچان لیتے ہیں لہذا افغانستان کے راستے آنے والے پرندوں نے آمد بند کردی ہے۔
ادھر سندھ کی جن جھیلوں اور تالابوں پر یہ بسیرا کرتے تھے وہ صنعتی فضلے، کوڑا کرکٹ اور دیگر زہریلے مادے سے بھر گئے ہیں لہذا ان پرندوں نے اس وجہ سے بھی آنا کم کردیا ہے۔ شوگر ملوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے دھویں اور مواد نے دریا میں چھپی ان کی خوراک کو بھی زہریلا بنا دیا ہے۔ اس وجہ سے اب یہ پرندے پاکستان کا رخ کرنے کے بجائے بھارت جانے لگے ہیں۔ بھارتی ریاست راجستھان اور گجرات میں ان کا پرجوش استقبال کیا جاتا ہے۔ یہاں ان کے تحفظ کے لئے بھی کئی تظیمیں سرگرم عمل ہیں۔
ان پرندوں کی آمد میں کمی کی ایک بڑی وجہ غیر قانونی شکار بھی ہے۔ موسم بدلتا نہیں کہ شکاریوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ یہ شکاری با اثر ہونے کے سبب قانون سے کھیلتے اور محض اپنے شوق میں ہزاروں پرندے مار دیتے ہیں۔
کراچی سمیت سندھ کے ساحلوں پر مسافر پرندوں کے ڈیرے
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
ڈاکٹر صفدر محمود
safdar.mehmood@janggroup.com.pk
safdar.mehmood@janggroup.com.pk
خیال آیا کہ عید ابھی کل ہی گزری ہے۔ تمام تر مسائل کے باوجود لوگ تین دن تک عید مناتے رہے ہیں اس لئے عید کے تناظر میں کوئی ہنستی مسکراتی تحریر لکھنی چاہئے۔ دل نے کہا جہاں ہر روز نا اہلی، کرپشن اور بے حسی کے زخم کھلتے ہوں وہاں ہنستے مسکراتے الفاظ تخلیق کرنا نہایت کٹھن کام ہوتا ہے۔ زخم کھا کر مسکرانا ہم جیسے کمزور لوگوں کے بس کا روگ نہیں۔ ہم تو کرپشن اور نا اہلی کا ماتم کرتے رہیں گے اور بے حسی پر آنسو بہاتے رہیں گے کوئی ہماری فریاد سنے یا نہ سنے، سچی بات یہ ہے کہ ہم مسکرانا بھی چاہیں تو ایسی خبریں مسکرانے نہیں دیتیں۔
عید کے دن کے اخبارات میرے سامنے رکھے تھے اور میں دو خبریں پڑھ کر اداسی کے سمندر میں ڈبکیاں کھا رہا تھا۔ ہاں یاد رکھیئے کہ یہ دو خبریں تو دیگ کے محض دو دانے ہیں ورنہ کوئی دن نہیں گزرتا کہ اربوں کی کرپشن اور نا اہلی کی داستانیں پڑھنے اور سننے کو نہ ملتی ہوں۔ کرپشن کے پہاڑوں کے سامنے یہ خبر تو محض رائی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن نہ جانے کیوں میں اسے پڑھ کر مغموم ہو گیا اور حکومتی نا اہلی کا دل ہی دل میں ماتم کرنے لگا۔ پھر سوچنے لگا کہ جہاں قومی وسائل کو اس بے دردی سے ضائع کیا جا رہا ہو، وہاں معاشی امراض کا علاج ناممکن ہے۔ اصل مسئلہ وسائل کی قلت نہیں بلکہ وسائل کا زیاں ہے۔ میں آپ سے کوئی خفیہ بات شیئر نہیں کر رہا، چھپی ہوئی خبروں کا نوحہ لکھ رہا ہوں۔
ہماری نوجوان نسل کو علم نہیں کیونکہ انہوں نے پاکستان کو بدحالی کا شکار ہی دیکھا ہے لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے دہائی دو دہائیاں قبل ہمارا ریلوے کا نظام ہر لحاظ سے نہایت معیاری ہوا کرتا تھا۔ دولت مند طبقے تو ہوائی سفر اور ذاتی کاروں کی سہولیات کا فائدہ اٹھاتے تھے لیکن عوام کے لئے ریلوے کا سفر آرام دہ ہوا کرتا تھا۔ پھر اسے ہماری نااہلی اور بدنیتی کی نظر لگ گئی جبکہ دنیا کا ہر ترقی یافتہ ملک اپنے ریلوے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے میں مصروف ہے۔ موجودہ ریلوے کی کارکردگی پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر شخص ریلوے کے ہاتھوں پریشان ہے۔ چنانچہ حکومت نے چین سے 75 ڈیزل انجن درآمد کرنے کا منصوبہ بنایا جو دوسرے منصوبوں کی مانند کرپشن کی نذر ہو گیا۔ مجھے اس ناکامی میں کرپشن سے زیادہ نا اہلی کا پہلو نظر آتا ہے۔ ہماری حکومت نے 2009 میں چین کی حکومت سے 75 انجن خریدنے کا معاہدہ کیا اور اس مقصد کے لئے ایک چینی بینک سے ایک سو ملین یعنی دس کروڑ ڈالر کا قرضہ منظور کروایا۔ معاہدے کے مطابق حکومت پاکستان نے پندرہ ملین ڈالر بینک میں جمع کروا دیئے۔ رینٹل پاور ہاﺅسز کی مانند یہاں بھی کرشن ہوئی۔ اصولی طور پر انجنوں کی خریداری کے لئے عالمی سطح پر ٹینڈر ہونے چاہئیں تھے لیکن یہاں قانونی تقاضوں سے انحراف کیا گیا۔ بدعنوانی کے سبب خریداری نہ ہو سکی اور پاکستان قرضہ استعمال نہ کر سکا۔ معاہدے کے مطابق قرضہ استعمال نہ کرنے کی پاداش میں چینی بینک گزشتہ دو سال سے ہر روز پاکستان کو ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ کرتا رہا ہے۔ اس طرح وہ پندرہ ملین ڈالر جو پاکستان نے جمع کروائے تھے وہ جرمانے کی مد میں ادا ہو گئے ہیں اور انجن بھی نہ منگوائے جا سکے۔ تین سال تک انجن نہ منگوانے پر حکومت چین بھی ناخوش ہے اور چینی بینک بھی ناراض۔ اب اگر عالمی سطح پر ٹینڈر دیئے جاتے ہیں تو حکومت چین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اور جو انجن 2009 میں چودہ لاکھ ڈالر کا مل رہا تھا اب کم سے کم 20 لاکھ ڈالر میں ملے گا۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ مقصد کرپشن اور نااہلی کی دیگ میں سے فقط نمونے کا ایک دانہ دکھانا تھا۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اس طرح کے حالات میں انسان کس طرح خوش رہ سکتا ہے اور کیونکر مسکرا سکتا ہے۔
دوسری خبر ہماری قومی بے حسی، ناشکری اور سرد مہری کی داستان تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ یونیسکو اقوام متحدہ کا ایک موثر اور متحرک ادارہ ہے جس کا دائرہ کار عالمی سطح پر تعلیم، ثقافت اور سائنس کے شعبوں پر محیط ہے۔ کوئی 193 ممالک اس کے رکن ہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا تین سال منتخب رکن رہا ہوں اور یونیسکو کے ایجوکیشن کمیشن کا منتخب وائس چیئرمین رہا ہوں۔ درجن بھر اراکین پر مشتمل ایگزیکٹو بو رڈ یونیسکو کی سرگرمیوں اور کارکردگی کی نگرانی کرتا ہے، منصوبوں اور حکمت عملی کی منظوری دیتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں 1998 کے دوران یونیسکو کی ایک میٹنگ کے سلسلے میں پیرس میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک روز دعوت نامہ ملا آج شام ہال میں ایک تقریب منعقد کی جائے گی جس میں تعلیم، سائنس اور ثقافت کے شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت دینے والے ماہرین کو انعامات دیئے جائیں گے۔ میں اس تقریب میں اس تاثر کے ساتھ شریک ہوا کہ 193 ممالک میں پاکستان کہاں کسی انعام کا حق دار ٹھہرے گا جبکہ ان ممالک میں فرانس برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، چین جیسے ترقی یافتہ ممالک موجود ہیں۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور بے حد خوشی بھی جب ایک پاکستانی سائنس دان کو انعام لینے کے لئے پکارا گیا۔ وہ انعام لے کر لوٹا تو میں نے اسے سینے سے لگا لیا، مبارک باد دی اور کہا کہ میں تمہارا ممنون ہوں تم نے عالمی سطح پر میرے ملک کا نام روشن کیا۔ اس سائنس دان کا نام تھا ڈاکٹر ریاض الدین اور وہ لاہور میں ایک سائنسی ادارے کا سربراہ تھا۔ وطن واپس لوٹا تو میں گورنر پنجاب کو ساتھ لے کر ڈاکٹر ریاض الدین کے ادارے میں پہنچا اور اس کی عزت افزائی کی۔
ہمیں یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ وہ ادارہ جینز اور ڈی این اے کے حوالے سے ریسرچ کر رہا تھا اور ان کی تحقیق سے نہ صرف مجرموں کو پکڑا جا سکتا تھا بلکہ اس سے زرعی پیداوار میں بھی خاصا اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ یہ ادارہ براہ راست وفاقی حکومت وزارت تعلیم کا حصہ تھا۔ وزارت تعلیم کا سیکرٹری ہونے کی حیثیت سے مجھے علم ہوا کہ ڈاکٹر ریاض الدین کو سنگا پور اور کئی دوسرے ممالک سے نہایت پُر کشش آفرز آ رہی تھیں لیکن وہ وطن کی خدمت پر مصر تھا۔ 27 اکتوبر کے دی نیوز میں ایک خبر پڑھ کر میں پریشان ہو گیا۔ میں 1999 کے بعد ڈاکٹر ریاض سے کبھی نہیں ملا۔
خبر یہ تھی کہ ڈاکٹر ریاض الدین نے ہیپاٹائٹس کے مرض کے لئے ایک دوا ایجاد کی جس کی قیمت 70 روپے ہے جبکہ ہمارے ملک میں اس مرض کے لئے دستیاب دواﺅں کی قیمت 900 روپے ہے۔ میری اطلاع کے مطابق تجارت کے نام پر خون چوسنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں ڈاکٹر ریاض کے پیچھے پڑ گئیں۔ اس خبر کے مطابق یہ انجکشن ہمارے دو سائنس دانوں کی ریسرچ کا پھل تھا۔ چنانچہ انہیں خوف و ہراس میں مبتلا کیا گیا اور وزارت سائنس نے ان کے خلاف فنڈز میں بے ضابطگی پر انکوائری ایف آئی اے کے حوالے کر دی۔ مجھے دوران ملازمت بہت سے سائنس دانوں سے پالا پڑا ہے۔ مان لیا کہ انہیں حکومتی ضابطوں کا کلرکوں کی مانند علم نہیں ہوتا اور وہ بعض اوقات ضابطوں کی خلاف ورزی کر جاتے ہیں لیکن اسے بے ایمانی نہیں کہا جا سکتا۔ اللہ بھلا کرے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا کہ جس نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور سپریم کورٹ کو مجرموں کے خلاف اقدام کرنے کے لئے خط لکھا۔ ایف آئی اے کی انکوائری نے ان سائنس دانوں کو کلین چٹ دے دی لیکن اس دوران ملک میں ہیپاٹائٹس کے لئے جو سستے انجکشن بنائے گئے تھے ان کی معیاد گزر گئی اور ایک لاکھ ٹیکے بے کار ہو گئے۔ خبر کے مطابق بیرون ملک سے مہنگے ٹیکے منگوا کر قومی خزانے کو 70 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ ہم نے ان سائنس دانوں کی یوں قدر و منزلت کی کہ ان کی تنخواہیں دو سال بند کئے رکھیں اور ان کے نام مجرموں کی مانند ای سی ایل پر ڈال دیئے۔ یہی ڈاکٹر ریاض سنگا پور یا کسی اور ترقی یافتہ ملک میں چلا گیا ہوتا تو بے پناہ تحقیقی کام کرتا، کروڑوں کماتا اور عزت پاتا۔ ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ نہ ہمارے ہاں تحقیق کے لئے ماحول، وسائل اور سامان موجود ہے اور نہ ہم اپنے سائنس دانوں کی قدر کرتے ہیں۔ ہمارے بہترین دماغ امریکہ برطانیہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں جا رہے ہیں اور ہم خالی ہاتھ سائنسی ترقی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ دنیا جہان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں سائنسی تحقیق پر بے پناہ خرچ کرتی ہیں اور سائنسی ایجادات سے بے حساب کماتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی یہ شعور ہی پیدا نہیں ہوا اور ہم غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں رہی حکومت تو حکومت کے پاس سائنسی ریسرچ کے لئے نہ وسائل ہیں نہ ویژن اور نہ اہلیت.... سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں ہم کیسے ترقی کریں گے اور کیسے آگے بڑھیں گے؟ جو قوم علم کی قدر و منزلت سے آشنا نہیں وہ علم کی روشنی سے کیسے منور ہو گی؟
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا
(نوٹ) (منگل والے کالم میں میں نے لکھا تھا ”دل کو پوری طرح فتح کر لینا گویا دنیا کو فتح کرنے کے مترادف ہے۔“ کمپوزنگ کی غلطیاں معمول کی بات ہے لیکن اس فقرے کو ”دل کو پوری طرح فتح نہیں“ لکھ کر بے معنی بنا دیا گیا۔ قا رئین نوٹ کر لیں)
روزنامہ جنگ، جمعرات 15 ذوالحجہ 1433ھ یکم نومبر 2012ء
روزنامہ جنگ، جمعرات 15 ذوالحجہ 1433ھ یکم نومبر 2012ء
اقبال، قائد اعظم اور غازی علم دین
حامد میر
hamid.mir@janggroup.com.pk
hamid.mir@janggroup.com.pk
بہت سے نوجوان پوچھتے ہیں کہ شاعر مشرق علامہ محمداقبال نے برطانیہ اور جرمنی کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی پھر اُن کے دل میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت قائم کرنے کا خیال کیوں پیدا ہوا؟ ایک طالب علم نے ای میل کے ذریعہ پوچھا ہے کہ کچھ دانشوروں کے خیال میں قائد اعظم محمد علی جناح ایک سیکولر پاکستان کے حامی تھے اگر پاکستان کو سیکولر بنانا تھا تو پھر ہندوستان تقسیم کیوں کیا گیا کیونکہ انڈین نیشنل کانگریس بھی تو سیکولر جماعت تھی؟ یہ دُرست ہے کہ اقبال اور قائد اعظم نے یورپ میں تعلیم حاصل کی، دونوں ابتداء میں متحدہ ہندوستان کے حامی تھے لیکن یہ دونوں انڈین نیشنل کانگریس سے مایوس ہو گئے تھے۔ پاکستان کیوں بنایا گیا اور کیسے بنایا گیا؟ اس موضوع پر ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن قیام پاکستان کے نظریاتی پس منظر پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ بہت کم محققین نے 31 اکتوبر 1929ء کو پیش آنے والے ایک اہم واقعے پر توجہ دی ہے جس نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کی شخصیت اور نظریات پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ یہ واقعہ تھا غازی علم دین کی پھانسی۔ تھوڑا سا غور کیا جائے تو سمجھ آ جاتی ہے کہ علامہ اقبال نے غازی علم دین کی شہادت کے تقریباً ایک سال کے بعد 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد کے ذریعہ مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کا خیال کیوں پیش کیا؟
غازی علم دین 4 دسمبر 1908ء کو کوچہ چابک سواراں رنگ محل لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُن کا خاندان فرنیچر سازی سے منسلک تھا۔ اُن کے والد طالع مند لاہور کے علاوہ کوہاٹ میں بھی فرنیچر سازی کرتے رہے۔ غازی علم دین اپنے والد کے ساتھ کام کیا کرتے تھے۔ وہ بالکل غیرسیاسی اور سادہ سے نوجوان تھے۔ 1927ء میں لاہور کے ایک ہندو پبلشر راج پال نے قرآن پاک کے خلاف ایک کتاب ستیارتھ پرکاش شائع کی۔ مسلمانوں نے اس کتاب کی اشاعت پر بہت احتجاج کیا لیکن راج پال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی بلکہ کچھ عرصے کے بعد راج پال نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ایک کتاب شائع کر دی جس میں امہات المومنین کے بارے میں نازیبا باتیں لکھی گئی تھیں۔ مسلمانوں نے راج پال کے خلاف قانونی کارروائی کی بہت کوششیں کیں لیکن برطانوی سرکار یہ کہہ کر معاملہ ٹالتی رہی کہ قانون میں گستاخ رسول کے خلاف کارروائی کی کوئی گنجائش نہیں۔ 24 ستمبر 1927ء کو یکی دروازہ لاہور کے ایک کشمیری نوجوان خدا بخش نے گستاخ رسول پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن راج پال بچ نکلا۔ 19 اکتوبر 1927ء کو غزنی کا ایک نوجوان عبدالعزیز لاہور آیا اور اُس نے راج پال پر حملہ کیا لیکن ہندو پبلشر پھر بچ گیا۔ اُسے پولیس کا ایک حفاظتی دستہ مہیا کر دیا گیا اور اب وہ سرکاری سرپرستی میں اپنا مذموم کاروبار کرنے لگا۔ اس نے اپنی کتابوں کی قیمتیں کم کر دیں کیونکہ کئی سرمایہ دار ہندو اُس کی حوصلہ افزائی کرنے لگے تھے۔ غازی علم دین کو راج پال کی گستاخیوں کا علم ہوا تو انہوں نے خاموشی سے اُسے جہنم واصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 6 اپریل 1929ء کو غازی علم دین نے راج پال کو ہسپتال روڈ لاہور پر واقع اُس کی دکان میں گھس کر خنجر سے قتل کر دیا۔ غازی علم دین نے فوراً اقرار جرم کر لیا اور اپنے خاندان سے کہا کہ اُن کے مقدمے کی پیروی نہ کی جائے کیونکہ وہ شہادت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لاہور کے ایک نامور وکیل فرخ حسین نے رضاکارانہ طور پر غازی علم دین کی وکالت شروع کر دی لیکن سیشن کورٹ نے 22 مئی 1929ء کو غازی علم دین کے لئے سزائے موت سنا دی۔ یہ وہ موقع تھا جب قائد اعظم نے غازی علم دین کی سزائے موت کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی اور عدالت میں مو¿قف اختیار کیا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر رکیک حملے کرنا اور عوام میں نفرت پھیلانا زیر دفعہ 135 الف جرم ہے لیکن راج پال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی اُس نے غازی علم دین کو اشتعال دلایا لہٰذا غازی علم دین کے خلاف زیردفعہ 302 قتل عمد کی بجائے زیر دفعہ 308 قتل بوجہ اشتعال کارروائی کی جائے جس کی سزا زیادہ سے زیادہ سات سال قید ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شادی لال نے اپیل مسترد کر دی اور غازی علم دین کو پھانسی کے لئے میانوالی جیل بھجوا دیا گیا۔ 31 اکتوبر 1929ء کو غازی علم دین کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور لاش اُن کے خاندان کے حوالے نہیں کی گئی۔ اس موقع پر علامہ محمد اقبال اور مولانا ظفر علی خان نے بہت اہم کردار ادا کیا اور غازی علم دین کے جسد خاکی کو لاہور لانے کے لئے باقاعدہ مہم چلائی۔ آخرکار غازی علم دین کا جسد خاکی بذریعہ ٹرین لاہور لایا گیا۔ مستند روایات کے مطابق غازی علم دین کے جنازے میں چھ لاکھ سے زائد مسلمان شریک تھے۔ بھاٹی چوک لاہور سے لے کر سمن آباد تک لوگ ہی لوگ تھے۔ غازی علم دین کے جسد خاکی کو علامہ اقبال اور سیّد دیدار علی شاہ جیسے بزرگوں نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ جب غازی علم دین کو لحد میں اُتار دیا گیا تو مولانا ظفر علی خان نے چیخ کر کہا کہ کاش! یہ مقام آج مجھے نصیب ہوتا۔ یہی وہ موقع تھا جب اقبال کے منہ سے بھی نکلا کہ ہم تو دیکھتے ہی رہ گئے اور ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا۔
غازی علم دین کی پھانسی اور پھر اُن کے عظیم الشان جنازے نے برصغیر کے مسلمانوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ہندو اخبار ”پرتاپ“ نے قائد اعظم اور علامہ اقبال کو غازی علم دین کی حمایت کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے کے کچھ عرصے کے بعد علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا۔ 1933ء میں آریہ سماج نامی تنظیم کے سیکرٹری نتھو رام نے بھی اسلام کے بارے میں ایک گستاخانہ کتاب کراچی سے شائع کر دی۔ اس مرتبہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کی بے چینی روکنے کیلئے نتھو رام کی کتاب ضبط کر لی اور اسے ایک سال قید کی سزا دی۔ نتھو رام نے عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی اور رہا ہو گیا۔ ہزارہ کا ایک نوجوان عبدالقیوم کراچی میں وکٹوریہ گاڑی چلایا کرتا تھا۔ اس نے 1934ء میں نتھو رام کا پیچھا شروع کیا۔ ایک دن نتھو رام اپنی ضمانت کنفرم کرانے عدالت میں آیا تو عبدالقیوم نے بھری عدالت میں اُس پر خنجر کے وار کئے اور اُسے قتل کر دیا۔ عبدالقیوم گرفتار ہو گیا اور اُس نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے رسول کی شان میں گستاخی کرنے والے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ عبدالقیوم کو بھی پھانسی کی سزا ہوئی۔ کراچی کے مسلمانوں کا ایک وفد لاہور آیا اور علامہ اقبال سے درخواست کی کہ عبدالقیوم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرایا جائے۔ علامہ اقبال نے کچھ سوچا اور پھر کہا کہ اگر عبدالقیوم خود کہتا ہے کہ اُس نے شہادت خریدی ہے تو میں اُس کے اجر و ثواب کی راہ میں رکاوٹ کیوں بنوں؟ اسی تناظر میں علامہ اقبال نے یہ اشعار بھی کہے
نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے؟ فقط عالم معنی کا سفر
ان شہیدوں کی دیت اہلِ کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں۔ کیا قیام پاکستان کے نظریاتی پس منظر میں عشق رسول سب سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں؟ علامہ اقبال اور قائد اعظم دونوں کو کانگریس کے حامی مسلمان علماءکی مخالفت اور فتووں کا سامنا تھا لیکن حرمت رسول کےلئے جو کردار غازی علم دین شہید سے لے کر علامہ اقبال نے ادا کیا وہ کئی علماء کے حصے میں نہ آیا۔ آج جو لوگ اقبال اور قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ بتائیں کہ کیا اُن کے سیکولرازم میں غازی علم دین کی حمایت کی گنجائش موجود ہے؟ پاکستان اسی لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو تحفظ حاصل ہو اور اسی لئے پارلیمنٹ نے عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ بھی کیا اور توہین رسالت کا قانون بھی منظور کیا۔ یہ بھی طے ہے توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال قطعاً نہیں ہونا چاہئے اور ہمیں سیرت رسول کی پیروی کرنی چاہئے۔ اقبال نے کہا تھا
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اِسم محمد سے اُجالا کر دے
روزنامہ جنگ، جمعرات 15 ذوالحجہ 1433ھ یکم نومبر 2012ء
امریکی طوفان سینڈی ہارپ کی کارستانی
نصرت مرزا
راقم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے روزنامہ ”جنگ“ میں دو مرتبہ ہارپ ٹیکنالوجی کی تباہ کاریوں کے بارے میں لکھا، پہلی مرتبہ 28 اگست 2010ء کو جب پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا اور دوسری مرتبہ جب جاپان میں 11 مارچ کو تباہی پھیلی تو 23 مارچ 2011ء کو ”جنگ“ میں کالم چھپا۔ اس سونامی نے جاپان کے ایٹمی ری ایکٹر کو بھی متاثر کیا۔ دونوں مرتبہ ہم نے لکھا تھا کہ ہارپ کی ٹیکنالوجی امریکہ نے حاصل کرلی ہے اور وہ دنیا بھر میں زلزلہ، سیلاب، طوفان اور سونامی لاسکتا ہے۔ ہم نے ان دونوں مضامین میں ساری تفصیلات لکھ دی تھیں کہ ہارپ کی مشین الاسکا میں واقع ہے اور وہاں 180 مائیکرویو انٹیناز کے ذریعے 3 گیگا واٹ کی انرجی حاصل کرکے اس کو Innosphere کے نظام میں ڈال کر مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
ہم نے برملا لکھا تھا کہ پاکستان کا 2005ء کا زلزلہ اور 2010ء کا سیلاب ہارپ کی کارستانی ہے اور جاپان کا سونامی اس کا نتیجہ تھا۔ اگرچہ ہم نے ہیٹی، ایران، چین اور روس کے نقصانات کا ان مضامین میں احاطہ نہیں کیا تھا مگر وہ بھی ہارپ کے مرہون منت تھے۔ ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ قدرت کے نظام کو چھیڑ دیا گیا ہے۔ اب نہ جانے نقصانات کہاں پر جاکر رکیں گے اور کیا خود امریکہ اس کی زد میں آجائے گا، سو اب امریکہ کو اس کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔
سینڈی نامی طوفان امریکہ کے مشرقی ساحلوں سے ٹکڑنے سے 6 کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ نیویارک سُونا ہوگیا اور اس کی تمام ٹرینوں کی آمدورفت رک گئی ہے۔ واشنگٹن کا شہر بند کردیا گیا، دکانیں اور ڈیڑھ لاکھ گھروں کو بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی، ورجینیا اور نیوجرسی میں پانی داخل ہوگیا، ایٹمی ری ایکٹر، آئل ریفائنری بند کردی گئی، خوراک کے حصول کے لئے متاثرین کی طویل قطاریں لگ گئیں۔ طوفان کے باعث پہلی بار اقوام متحدہ کے دفاتر، سٹاک مارکیٹس بند کرنا پڑی ہیں۔
اس کے نقصانات کا تخمینہ 20 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور نقصانات میں مزید اضافے کا اندیشہ بدستور موجود ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ اس طوفان کو معمولی نہ سمجھا جائے، دس ہزار کے قریب پروازیں معطل کی جاچکی ہیں، 9 ریاستوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، ساحلی علاقوں سے لاکھوں افراد کو نکال تو لیا ہے۔ اوباما اور رومنی کی انتخابی مہم معطل ہوگئی ہے اور وقت مقررہ پر امریکی صدارتی انتخابات کا انعقاد بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ عذاب الٰہی ہے اور اللہ کے نظام کو چھیڑنے کا نتیجہ ہے یا پھر ہارپ کی کارستانی ہے۔ امریکہ میں کئی ویب سائٹس اس کو ہارپ کا نتیجہ قرار دے رہی ہیں۔ ان کا 28 ہارپ Sensors جو پورے امریکہ میں لگے ہیں وہ تاریخ کے مضبوط ترین اور تباہ کن ہارپ کے حملہ کی اطلاع دے رہے ہیں اور 1-10 کے اسکیل میں کانٹا 10 پر پہنچ گیا ہے۔ اس کے آگے پیمائش کی اُن کے پاس گنجائش نہیں ہے۔ وہاں اس قدر سفید بادل اور لہریں ہیں جو قدرتی نظر نہیں آتی اور کئی سائنسدان اور کالم نگار جن میں ایک الیکس تھوس شامل ہے وہ کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ پر ہارپ سے حملہ ہوگیا ہے۔ ممکن ہے یہ حملہ کسی اور جگہ کرنا ہو اور غلطی سے امریکہ کا رُخ کر گیا ہے مگر یہ طوفان قدرتی نہیں، مصنوعی ہے اس پر سب کو اتفاق ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ہارپ کا حملہ اس لئے کیا گیا تاکہ انتخابات ملتوی ہوجائیں اور یہ کہ صدر بارک اوباما کو مزید حکمرانی کا موقع مل جائے کیونکہ اب یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ انتخابات وقت پر نہیں ہوسکتے مگر کئی تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان نقصانات کا نزلہ اوباما پر ہی پڑے گا اور عین ممکن ہے کہ جیسا کہ امریکی سیاسی پنڈت کہہ رہے تھے کہ امریکہ میں تاریخ میں پہلی مرتبہ مارشل لاء لگ جائے اور دنیا کو جنگ کی لپیٹ میں لے لے۔ امریکہ کے سیاسی پنڈت یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ امریکی انتظامیہ کا دعویٰ درست نہیں ہے کہ تباہ کاری مشرقی ساحل پر بھی ہوگی۔ اُن کا کہنا ہے کہ تباہی زیادہ آبادی کے علاقوں تک پھیلے گی۔ اب سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ امریکہ اپنے ہی ملک کے لوگوں پر ہی حملہ آور ہوگیا ہے۔
9/11 کے واقعے کے بعد 29 اکتوبر 2012ء کو امریکہ دوبارہ اپنے عوام کو تکلیف اور اذیت میں مبتلا کرکے عالمی جنگ چھڑوانے کا ارادہ رکھتا ہے یا پھر اُس کا کوئی اور منصوبہ ہے، آنے والے چند دن اس بات کو واضح کردیں گے۔ مگر دنیا کے لئے کوئی اچھی خبر منتظر نہیں ہے۔ اس طوفان کے بعد امریکہ کا کیا رویہ ہوگا وہ بھی دیکھنے کی بات ہے۔
روزنامہ جنگ، جمعہ 16 ذوالحجہ 1433ھ 2 نومبر 2012ء
روزنامہ جنگ، جمعہ 16 ذوالحجہ 1433ھ 2 نومبر 2012ء
جمعہ, نومبر 02, 2012
فلمی دنیا کے ’مسٹر پرفیکٹ‘ حاجی ہوگئے
بالی ووڈ ایکٹر عامر خان کے بارے میں ایک عام رائے یہ ہے کہ وہ جو کام بھی کرتے ہیں لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں۔ فلمی دنیا کے مسٹر پرفیکٹ ان دنوں حج کے ادائیگی کے لئے سعودی عرب گئے ہوئے ہیں۔۔۔ ابھی وہ وہاں پہنچے بھی نہیں تھے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں ان کے تذکرے زور شور سے شروع ہوگئے۔۔۔
یہاں تک کہ ممبئی ائیر پورٹ پر وہ اپنی والدہ کو لے کر کس طرح جہاز میں سوار ہوئے اور جہاز کی کش نشست پر کس انداز میں بیٹھے ہوئے تھے اس تک کی تصویریں انٹرنیٹ پر ساتھ ساتھ اپ لوڈ ہوتی اور دنیا بھر میں دیکھی جاتی رہیں۔
فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر پوسٹ ہونے والی ان کی تصویروں سے ہی یہ خبر عام ہوئی کہ انہوں نے مدینہ پہنچ کر پاکستانی کھلاڑی شاہد آفریدی اور ایک دینی مفکر مولانا طارق جمیل سے بھی ملاقات کی ۔
مسٹر پرفیکٹ۔۔ فلمی دنیا میں تو پرفیکٹ ہیں ہی ۔۔ حج کے دوران اپنی ماں کے روبرو بھی انہوں نے خود کو ”پرفیکٹ بیٹا“ ثابت کرنے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی۔۔۔۔ حج کی ادائیگی کے دوران انہوں نے اپنی والدہ کی خوب لگن اور محنت کے ساتھ ایسی خدمت کی کہ دیکھنے والے بھی کہہ اٹھے۔۔ ”بیٹا ہو تو عامر خان جیسا“۔
اس حوالے سے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی صحافی شاہد نعیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حج کے تمام مناسک کی ادائیگی کے دوران عامر خان ناصرف اپنی والدہ کی وہیل چیئرخود چلاتے رہے بلکہ انہوں نے مناسک کی ادائیگی میں والدہ کی سہولت اور آرام کا ہر طریقے سے خیال رکھا۔
حد تو یہ کہ عرفات سے منٰی کے دوران شدید ٹریفک جام ہونے کے سبب انہوں نے باقی تمام حاجیوں کی طرح سات کلومیٹر کا طویل سفر پیدل اور اپنی والدہ کی وہیل چیئر دھکیلتے ہوئے طے کیا۔
الخالد ٹورز کے نگراں یوسف خیرادہ کے مطابق تمام مناسک حج کی ادائیگی کے دوران عامر خان پرجوش اور خوشگوار موڈ میں نظر آئے۔ وہ اپنی والدہ کی خدمت پر پوری طرح مطمئن تھے۔ انہوں نے اپنی والدہ کے لئے مزدلفہ میں جمرات کے لئے خود کنکریاں جمع کیں۔ اپنے ہونہار بیٹے کی خدمات سے عامرخان کی والدہ بھی خوش تھیں۔
عامر خان نے حج انتظامات کے لئے سعودی حکومت کے اقدامات کو سراہا۔
عامر خان۔۔۔ فلمی دنیا کے ’مسٹر پرفیکٹ‘ حاجی ہوگئے
یہاں تک کہ ممبئی ائیر پورٹ پر وہ اپنی والدہ کو لے کر کس طرح جہاز میں سوار ہوئے اور جہاز کی کش نشست پر کس انداز میں بیٹھے ہوئے تھے اس تک کی تصویریں انٹرنیٹ پر ساتھ ساتھ اپ لوڈ ہوتی اور دنیا بھر میں دیکھی جاتی رہیں۔
فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر پوسٹ ہونے والی ان کی تصویروں سے ہی یہ خبر عام ہوئی کہ انہوں نے مدینہ پہنچ کر پاکستانی کھلاڑی شاہد آفریدی اور ایک دینی مفکر مولانا طارق جمیل سے بھی ملاقات کی ۔
مسٹر پرفیکٹ۔۔ فلمی دنیا میں تو پرفیکٹ ہیں ہی ۔۔ حج کے دوران اپنی ماں کے روبرو بھی انہوں نے خود کو ”پرفیکٹ بیٹا“ ثابت کرنے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی۔۔۔۔ حج کی ادائیگی کے دوران انہوں نے اپنی والدہ کی خوب لگن اور محنت کے ساتھ ایسی خدمت کی کہ دیکھنے والے بھی کہہ اٹھے۔۔ ”بیٹا ہو تو عامر خان جیسا“۔
اس حوالے سے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی صحافی شاہد نعیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حج کے تمام مناسک کی ادائیگی کے دوران عامر خان ناصرف اپنی والدہ کی وہیل چیئرخود چلاتے رہے بلکہ انہوں نے مناسک کی ادائیگی میں والدہ کی سہولت اور آرام کا ہر طریقے سے خیال رکھا۔
حد تو یہ کہ عرفات سے منٰی کے دوران شدید ٹریفک جام ہونے کے سبب انہوں نے باقی تمام حاجیوں کی طرح سات کلومیٹر کا طویل سفر پیدل اور اپنی والدہ کی وہیل چیئر دھکیلتے ہوئے طے کیا۔
الخالد ٹورز کے نگراں یوسف خیرادہ کے مطابق تمام مناسک حج کی ادائیگی کے دوران عامر خان پرجوش اور خوشگوار موڈ میں نظر آئے۔ وہ اپنی والدہ کی خدمت پر پوری طرح مطمئن تھے۔ انہوں نے اپنی والدہ کے لئے مزدلفہ میں جمرات کے لئے خود کنکریاں جمع کیں۔ اپنے ہونہار بیٹے کی خدمات سے عامرخان کی والدہ بھی خوش تھیں۔
عامر خان نے حج انتظامات کے لئے سعودی حکومت کے اقدامات کو سراہا۔
عامر خان۔۔۔ فلمی دنیا کے ’مسٹر پرفیکٹ‘ حاجی ہوگئے
عورتوں کے شادی کے روایتی رجحان میں تبدیلی
حال ہی میں جاری ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدیوں سے جاری شادی کے روایتی رجحان میں تبدیلی ہونے لگی ہے۔ پہلے خواتین شادی کے لئے اعلیٰ سماجی حیثیت کے حامل شخص کو جیون ساتھی بنانا پسند کرتی تھیں لیکن اب اس کے برعکس ہورہا ہے۔ اب خواتین خود سے کم تعلیم یافتہ اور کم کمانے والے شخص سے شادی کرنے کو ترجیح دینے لگی ہیں۔
سپین میں یونیورسٹی کی سطح پر کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ زیادہ تر پڑھی لکھی خواتین مردوں کی انا کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ لیکن اب اس صورت حال کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ محقق البرٹ ایسٹیو کا کہنا ہے کہ خواتین میں تعلیم کی شرح میں اضافے سے سنگل وومن کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم یافتہ خاتون خود کو خود مختار سمجھتی ہے اور شادی کرکے پابندیوں میں جکڑنا نہیں چاہتی، اس لیے وہ ایسا جیون ساتھی ڈھونڈتی ہے جو اس سے کم تعلیم یافتہ اور کم کمانے والا ہو تاکہ وہ بیوی کی عزت کرے۔
فرانس، سلووینیا اور منگولیا جیسے 21 ممالک میں خواتین خود سے اعلیٰ مرتبے کے بجائے کم تعلیم یافتہ اور کم وسائل کے مالک مرد سے شادی کو ترجیح دیتی ہیں۔ 1960 کی دہائی سے جاری 56 ممالک میں کی گئی تحقیق کے بعد کہا گیا کہ اب خواتین میں شادی کے انتخاب میں روایتی جمود ٹوٹ چکا ہے۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)