عورت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عورت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ, نومبر 17, 2012

پاکستان: چھاتی کا سرطان ہزاروں خواتین کی موت کا سبب

اسلام آباد — پاکستان میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں ہر سال 40 ہزار خواتین چھاتی کے سرطان کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں اور ہر نو میں سے ایک اس مرض کا شکار ہو سکتی ہے جو انتہائی تشویش کا باعث ہے۔

سرطان سے بچاؤ اور اس مرض کے بارے میں آگاہی پھیلانے والی تنظیم پنک ربن سوسائٹی پاکستان کی ایک عہدیدار سونیا قیصر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملک میں مختلف تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال 90 ہزار خواتین چھاتی کے سرطان کا شکار ہوتی ہیں۔

’’چھاتی کا سرطان کی شرح براعظم ایشیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں ہی ہے، اور ملک میں کینسر کی مختلف اقسام میں سب سے زیادہ مریض چھاتی سرطان ہی کے ہیں۔ اس کے اعداد و شمار بھی بہت چونکا دینے والے ہیں کیوں کہ ہر سال 40 ہزار خواتین پاکستان میں اس بیماری کی وجہ سے موت کی نیند سو جاتی ہیں۔‘‘

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اکثر خواتین چھاتی کے سرطان کی بیماری کے بارے میں معلومات کے فقدان کا شکار ہیں اس لیے زیادہ تر واقعات میں مریضوں میں بیماری کی تشخیص ایسے مرحلے پر ہوتی ہے جب اس مرض کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بروقت بیماری کی تشخیص سے مریض کی صحتیابی کے امکانات نوے فیصد تک ہوتے ہیں۔

سونیا قیصر کہتی ہیں عموماً درمیانی عمر کی خواتین میں چھاتی کے سرطان کی شرح زیادہ ہوتی ہے لیکن پاکستان میں اکثریت میں دیکھا جا رہا ہے کہ نوجوان خواتین اور 16 سے 17 سال کی لڑکیاں بھی چھاتی کے سرطان کا شکار ہورہی ہیں۔‘‘

چھاتی کے سرطان کی یوں تو بہت سی وجوہات ہیں جن میں موٹاپا، معمولات زندگی میں ورزش کا نہ ہونا، عورتوں کا بچوں کو دودھ نہ پلانا اور موروثی اثرات نمایاں ہیں لیکن ہر عورت کو اس سے متاثر ہونے کا خطرہ بہرحال لاحق رہتا ہے۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ خواتین کو وقتاً فوقتاً اپنی چھاتی کا خود معائنہ کرتے رہنا چاہیئے اور اگر انھیں کسی بھی مرحلے پر کوئی گلٹی محسوس ہو تو وہ فوری طور پر طبی ماہر سے رجوع کریں تاکہ ممکنہ بیماری کا بر وقت علاج ہو سکے۔

پاکستان: چھاتی کا سرطان ہزاروں خواتین کی موت کا سبب

جمعہ, نومبر 16, 2012

ایشیائی خواتین میں بریسٹ کینسر میں اضافہ

برطانیہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ملک میں رہائش پذیر ایشیائی نسل کی خواتین میں چھاتی کے کینسر کے مرض میں دیگر نسلی گروپوں کی خواتین کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے سفید فام خواتین کے مقابلے میں ایشیائی خواتین میں چھاتی کے کینسر کی بیماری کم پائی جاتی تھی۔ یہ نئی تحقیق کینسر ریسرچ یو کے نامی تنظیم کی مدد سے کی گئی ہے۔

برطانیہ میں رہائش پذیر مدھو کو 43 برس کی عمر میں پتہ چلا کہ انہیں چھاتی کا کینسر ہے۔ وہ کہتی ہیں ’میری چھاتی کا سائز تبدیل ہو رہا تھا اور عام طور پر پستان چھونے پر نرم ہوتے ہیں لیکن مجھے وہ سخت لگے۔ اس کے بعد میں نے ڈاکٹر کو دکھانے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر نے مجھے براہ راست ہسپتال جانے کو کہا‘۔

مدھو کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر رہنے والی رجنا بھی چھاتی کے کینسر کی مریض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب مجھے اپنے بائیں پستان سے کچھ رساؤ ہوتا ہوا دکھائی دیا تو میں نے ڈاکٹر کے پاس جانے کا سوچا۔ انہوں نے مجھے فوری طور پر ہسپتال جانے کو کہا جہاں مجھے بتایا گیا کہ مجھے کینسر ہے‘۔

برطانیہ میں چھاتی کا کینسر ایک عام بیماری کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر تین میں سے ایک خاتون اس سے متاثر ہے لیکن پہلے برطانیہ میں رہنے والی ایشیائی خواتین میں اس کے مریضوں کی تعداد کم پائی جاتی تھی۔ لیکن ایک نئی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں ایشیائی خواتین میں چھاتی کے کینسر کے مزید کیس سامنے آ رہے ہیں۔

اس تحقیق میں شریک ڈاکٹر پونم مگتاني کا کہنا ہے،’چھاتی کے کینسر کی وجہ سے خواتین کی اموات میں اضافے کے اعداد و شمار تو سامنے نہیں آئے ہیں لیکن جس طرح سے مریض سامنے آ رہے ہیں اس سے یہ ضرور معلوم ہوا ہے کہ پہلے کے مقابلے خواتین میں چھاتی کے کینسر میں اضافہ ہوا ہے‘۔


رجنا کے مطابق وہ وقت دور نہیں ہے جب زیادہ ایشیائی خواتین کو یہ پتہ چلے گا کہ انہیں چھاتی کینسر ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’میں اپنے خاندان میں پہلی عورت ہوں جسے چھاتی کا کینسر ہوا ہے اس لیے تعجب کی بات نہیں ہے کہ چھاتی کے کینسر کے معاملات کی تعداد بڑھ رہی ہے‘۔

مدھو کہتی ہیں۔’اپنے آس پاس میں جن لوگوں کو جانتی ہوں، میں نے محسوس کیا ہے کہ یہاں رہنے والی ایشیائی خواتین میں چھاتی کا کینسر ہے اور یہ دیکھ کر مجھے فکر ہوتی ہے۔ مجھے یہ پتہ نہیں ہے کہ یہ بیماری کہاں سے آ رہی ہے‘۔ 

اس تحقیق کی بنیاد سنہ 1991 اور 2001 میں کی گئی مردم شماری ہے۔ اس تحقیق میں الگ الگ نسلی گروپوں کی خواتین میں کینسر کے حوالے سے مطالعہ کیا گیا لیکن ڈاکٹر مگتاني کا کہنا ہے کہ اس کے نتائج ابھی بھی حتمی نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں،’یہ تحقیق چھاتی کے کینسر کے بارے میں ایک الگ طرح کا رجحان سامنے لائی ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے کام کرنے کے ساتھ ساتھ سكریننگ ہو اور یہ یقین ہونا چاہیے کہ سب کو سكریننگ کی سہولت ملے‘۔

روایتی طور پر دیکھیں تو ایشیائی خواتین ابھی بھی چھاتی کینسر پر بات کرنا پسند نہیں کرتی ہیں. لیکن اب لوگوں کا نظریہ بدل رہا ہے اور کینسر پر کام کرنے والے اس گروپ میں فی الحال 50 خواتین شامل ہیں۔ حالانکہ یہ گروپ چھاتی کے کینسر سے متاثرہ خواتین کی مدد کر رہا ہے لیکن ڈاکٹر مگتاني کا کہنا ہے کہ ایشیائی خواتین کو اس مہلک مرض کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے۔

ایشیائی خواتین میں بریسٹ کینسر میں اضافہ

پیر, نومبر 12, 2012

پیٹریاس کو دو خواتین کی لڑائی لے ڈوبی

واشنگٹن : امريکا کی سينٹرل انٹيلی جنس ايجنسی کے حکام نے کہا ہے کہ سابق سربراہ ڈيوڈ پيٹریاس کے پاؤلا براڈ ويل سے تعلقات کا علم ايک دھمکی آميز ای ميل کے ذريعے ہوا۔ يہ ميل پاؤلا براڈ ويل نے ڈيوڈ پيٹریاس سے جُڑی دوسری عورت کو بھيجی تھيں۔

سی آئی اے کے سابق سربراہ ڈيوڈ پيٹریاس کے سکينڈل سے متعلق اب تک کی تحقيقات يہ بتاتی ہے کہ ڈيوڈ پيٹریاس اور ان کی بائيو گرافی لکھنے والی پاؤلا براڈ ويل کے درميان ناجائز تعلقات کا ايک نامعلوم عورت سے بھی ہے جسے چند ماہ قبل پاؤلا کی جانب سے دھمکی آميز خطوظ موصول ہوئے۔

يہ خطوط سی آئی اے حکام کے ہاتھ لگ گئے۔ اس طرح معاملہ کھلا اور ڈيوڈ پيٹریاس کو استعفٰی دينا پڑا۔ استعفیٰ کے دو روز بعد ڈيوڈ پيٹریاس کو سينيٹ اور ايوان نمائندگان ميں ليبيا ميں امريکی سفير کی ہلاکت سے متعلق سوالات کا سامنا کرنا تھا۔

دوسروں کو ڈوبونے والے پیٹریاس کو دو خواتین کی لڑائی لے ڈوبی

نیند کی کمی بیماریوں کی وجہ

لندن: برطانوی ماہرین نے کہا ہے کہ نیند کی کمی کے شکار لوگوں میں ذیابیطس، ڈپریشن، بلند فشار خون اور دل کی بیماریاں ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ برطانوی ماہرین کے اس حوالے سے کیے گئے سروے کے مطابق برطانیہ میں اکیاون فیصد لوگوں کو نیند کی کمی کی شکایت ہے۔ خواتین مردوں سے تین گنا زیادہ نیند کی کمی سے متاثر ہوتی ہیں۔ نیند کی کمی کا شکار لوگ توانائی میں کمی، طبیعت میں چڑ چڑا پن اور جسمانی کمزوری محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی بھی کام پر ٹھیک طرح توجہ نہیں دے پاتے اور کام کے اوقات کار میں طبیعت میں سستی بھی محسوس کرتے ہیں۔

ماہرین نے بتایا کہ لوگ نیند کی کمی کی شکایت دور کرنے کے لیے مختلف ادویات استعمال کرتے ہیں جن کے سائیڈ افیکٹ بھی ہوتے ہیں اور اس سے زیادہ عرصے تک افاقہ نہیں ہوتا۔ بیالیس فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ نیند کی گولیوں کے استعمال سے ان کی نیند میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔

اتوار, نومبر 11, 2012

ملالہ ڈے پر پاکستان بھر میں تقریبات


 ملالہ ڈے پر پاکستان بھر میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا جبکہ سوات کی بہادر بیٹی کی مکمل صحت یابی کی دعائیں مانگی گئیں۔ 

سندھ اسمبلی میں ملالہ ڈے کی مناسبت سے تقریب سجائی گئی جس میں سول سوسائٹی، میڈیا اور طلبہ و طالبات نے شرکت کی اور ملالہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے مختلف ٹیبلوز پیش کیے۔ 

سپیکر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ جو لوگ مذہب اور انسانیت کے دشمن ہیں وہ انسان کہلانے کے لائق نہیں۔ 

معروف مصنفہ فاطمہ ثریا بجیا نے اس موقعے پر ملالہ یوسفزئی کی درازی عمر کی دعائیں مانگیں۔ وادی سوات کے مخلتف سکولوں میں بھی ملالہ کی مکمل صحت یابی کےلیے دعائیں مانگی گئیں۔ 

اسلام آباد میں ملالہ زندہ باد کنونشن سے خطاب میں رکن قومی اسمبلی ممتاز عالم گیلانی کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان ملالہ کی لکھی ہوئی ڈائری کے متن کو قومی نصاب میں شامل کرے۔ 

کنونشن میں ملالہ کو نوبل انعام دینے اور ملالہ ایجوکیشن فائونڈیشن کے قیام کی قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔

ہفتہ, نومبر 10, 2012

اورِن بُرگ کی شالیں

سائبریا میں واقع روسی شہر اورِن بُرْگ میں بنائی جانے والی شالیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ تمام ہی روسی خواتین کو یہ شالیں اوڑھنے کا بے حد شوق ہے۔ دیگر ممالک میں لوگ ایسی شالوں سے کوئی دو سو سال پہلے شناسا ہوئے تھے۔ 

ہوا یہ کہ روسی یوُرال کے علاقے کے کچھ باشندوں نے ملکۂ روس کو ایک شال تحفے میں دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ شال بہت بڑی تھی، اس کا طول اور عرض ڈھائی ڈھائی میٹر تھا۔ لیکن یہ شال انگوٹھی کے حلقے میں سے گزاری جا سکتی تھی کیونکہ کپڑا بہت مہین تھا۔ ملکہ یہ شال دیکھ کر بہت حیران ہوئی تھیں۔ جب انہوں نے یہ ہلکی شال اوڑھی تو حاضرین دربار شال کے حسن سے انتہائی متاثر ہوئے تھے۔

یوں یورال کی دستکار خواتین کی بے مثال مہارت کی خبر روس بھر میں پھیل گئی۔ اور جب کاروباری افراد نے ایک صنعتی نمائش میں یہ شالیں پیش کیں تو وہ دوسرے ملکوں میں بھی مشہور ہو گئیں۔ غیرملکیوں کو بھی اورن برگ کی شالیں بہت پسند آئیں۔ ان شالوں کو لندن اور پیرس میں تمغے د‏یئے گئے۔

ایسی شال بننے کے لیے ایک خاص نسل کی بکریوں کی اون ضروری ہوتی ہے۔ اس اون سے بنے کپڑے کو پھاڑنا مشکل ہوتا ہے، پھر بھی کپڑا نرم بھی ہوتا ہے اس لیے اس اون کو بہترین مانا جاتا ہے۔ اس سے صحت کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔ یورال کے علاقے کے باشندے پرانے وقتوں سے زکام، نمونیا اور پشت میں درد کے علاج کے لیے یہ شالیں استعمال کرتے چلے آئے تھے۔

ایسی شالیں بننا آسان کام نہیں۔ اس میں بہت وقت لگتا ہے کیونکہ یہ سارا کام ہاتھوں سے کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے اون سے سخت حصے نکالے جاتے ہیں، پھر ایک خاص کنگھی کے ذریعے اون کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس کے بعد بنائی کا کام شروع ہوتا ہے۔ ہر دستکار عورت یہ کام اپنے طریقے سے کرتی ہے۔ شالوں پر مختلف قسم کے نمونے بنائے جاتے ہیں جن میں ایک جیسے دو نمونے نہیں ہوتے۔

پھر شال کو احتیاط سے دھویا جاتا ہے، اس سے پانی نرمی سے نکالا جاتا ہے۔ پھر اسے ایک فریم پر تان دیتے ہیں۔ ایک شال بننے میں ڈیڑھ دو ماہ لگتے ہیں۔

بہر حال آج روس میں بہت کم عورتیں اورن برگ کی شالیں پہنتی ہیں۔ اب ان شالوں کو فرسودہ لباس سمجھا جاتا ہے جو آج کے فیشن کے مطابق نہیں رہا۔ لیکن ان شالوں کو آج بھی دستکاری کے شاہ کار سمجھا جاتا ہے۔ غیرممالک میں اورن برگ کی شالوں کی بہت مانگ برقرار ہے اور روس سے ایسی بہت زیادہ شالیں برآمد کی جاتی ہیں۔


جمعہ, نومبر 09, 2012

ٹیپو سلطان کی جاسوس پڑپوتی

دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کے لیے جاسوسی کرنے والی ٹیپو سلطان کی پڑپوتی نور عنایت خان کے مجسمے کی نقاب کشائی لندن کے معروف گورڈن سکوائر میں ہونے والی ہے۔ میسور کے سابق حکمراں ٹیپو سلطان کی پڑ پوتی نور عنایت خان نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ انہوں نے زبردست بہادری اور جرات مندی کا ثبوت دیا جس پر ان کی سوانح نگار شربانی باسو نے انہیں ’جاسوس شہزادی‘ کا خطاب دیا ہے۔ نور عنایت روس میں پیدا ہوئیں لیکن ان کی تربیت برطانیہ اور فرانس میں ہوئی۔ ان کا تعلق بھارت کے بہت ہی مشہور شاہی خاندان سے تھا۔ نور خان کو فرنچ زبان میں بھی عبور تھا اور سنہ 1942 میں انہیں برطانیہ کے ’سپیشل آپریشنز ایگزیکیٹیو‘ ( ایس او ای) نے پیرس میں کام کرنے کے لیے بطور ریڈیو آپریٹر بھرتی کیا تھا۔

برطانوی آثار قدیمہ کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ وائر لیس آپریٹ کرنے والے پہلی خاتون تھیں اور دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں نے فرانس کے جس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا وہاں انہیں کام کے لیے بھیجا گیا تھا۔ نور خان کو لکھنے کا بھی شوق تھا اور انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں۔ انہیں موسیقی میں بھی دلچسپی تھی لیکن میدان جنگ میں وہ ایک شیرنی تھیں۔ جاسوس کی حیثیت سے وہ تین ماہ تک تو قید سے بچتی رہیں لیکن پھر وہ قید ہوئیں اور ان پر تشدد کیاگیا ۔ 1944 میں جرمن فوجیوں نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ آخری لمحات میں جب جرمن فوجیوں نے ان پر بندوق تانی تو شہزادی نور خان نے’ آزادی‘ کا نعرہ لگایا تھا۔

ان کی سوانخ نگار شربینا باسو کا کہنا ہے کہ آزادی ان کے لیے بہت اہم تھی جس سے انہیں زندگي بھر لگاؤ رہا۔ اسی بہادری کے سبب انہیں ’جارج کراس‘ کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ فرانس میں انہیں ’ کروسکس ڈی گوئرا‘ کا اعزاز بخشا گیا۔ بعد میں ان کی برسی کے یاد میں بھی دو یادگاریں قائم کی گئیں اور ایک سالانہ تقریب کا اہتمام بھی کیا گيا۔ کہتے ہیں کہ جنگ میں اس طرح کی شجاعت کا مظاہرہ اس لیے نہیں کیا کہ انہیں برطانیہ سے بہت پیار تھا بلکہ اس لیے کہ انہیں فسطائیت اور آمریت سے سخت نفرت تھی۔ ان کے والد ایک موسیقی کار اور صوفی موسیقی کے استاد تھے۔ نور خان کو زندگی کے بہترین آداب سکھائے گئے۔ سبرینا باسو کہتی ہیں کہ ’ وہ کسی ملک پر دوسرے کا قبضہ برداشت نہیں کر پاتی تھیں اور یہ ایک ایسا خیال تھا جو انہیں خاندانی طور پر ورثے میں ملا تھا۔

ان کے پڑدادا ٹیپو سلطان، جو اس وقت کی بھارتی ریاست میسور کے حکمراں تھے، انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے انگریزوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا اور ان کے ساتھ لڑتے ہوئے سنہ 1799 میں جنگ میں مارے گئے۔ نور خان یکم جنوری 1914میں روس میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد بھارتی اور ماں امریکی نژاد تھیں۔ ان کی دوشیزگی کا وقت لندن میں گزرا تھا۔ لیکن بچپن میں ان کا خاندان چونکہ فرانس منتقل ہوگیا تھا اس لیے بچپن وہیں گزرا جہاں انہوں دوران تعلیم فرینچ زبان سیکھی۔ انہوں نے طب اور موسیقی دونوں کی تعلیم لی تھی۔ 1939 میں بچوں کے لیے کہانیوں پر مبنی ان کی ایک کتاب ’ ٹوئنٹی چٹکا ٹیلز‘ شائع ہوئی تھی۔ جب سنہ انتالیس میں عالمی جنگ شروع ہوئی تو نور عنایت خان نے فرینچ ریڈ کراس کے ساتھ بطور نرس تربیت پائی۔ نومبر سنہ چالیس میں جرمن فوجیوں کے سامنے حکومت کے ہتھیار ڈالنے سے پہلے ہی وہ ملک چھوڑ کر ایک کشتی میں سوار ہوکر اپنی ماں اور بہن کے ساتھ لندن پہنچ گئیں۔ برطانیہ آنے کے فوراً بعد انہوں نے ’وومنز آکزیلری ایئر فورس‘ میں وائر لیس آپریٹر کے طور پر شمولیت اختیار کر لی۔ تبھی ان پر ایس او ای کی نظر پڑی۔ اس وقت وہ نورا بیکر کے نام سے معروف ہوئی اور انہوں نے سنہ 1942 میں برطانوی خفیہ سروس جوائن کیا۔ اسی خفیہ سروس کے تحت بعد میں انہیں فرانس میں تعینات کیا گیا لیکن ایک رپورٹ کے بعد انہیں واپس بھیجنے کو بھی کہا گیا۔ اس بات کا شک ہوا کہ شاید نیٹ ورک میں جرمن نے دراندازی کر لی ہے اور انہیں جرمن گرفتار کرسکتے ہیں لیکن وہ اس کے باوجود برطانیہ واپس نہیں آئیں۔

محترمہ باسو نے ان کی زندگی پر آٹھ برس ریسرچ کے بعد کتاب لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ نور خان بچوں کی کہانیوں کی نفیس لکھاری اور موسیقی کار تھیں لیکن ان میں تبدیلی آئی۔ وہ میدان جنگ میں ایک شیرنی کی طرح تھیں‘۔ ان کی ٹیم کے بہت سے لوگ جرمنوں کے ہاتوں قید ہوتے رہے لیکن نور عنایت خان جب تک ممکن ہوا ان کے ریڈیو پیغامات کو درمیان میں سن سن کر برطانیہ کو بھیجتی رہیں۔ ان کے کمانڈر انہیں انگلینڈ واپس جانے پو زور دیتے رہے لیکن وہ تن تنہا بھیس اور مقامات بدل بدل کر جاسوسوں کی ایک خفیہ مہم تین ماہ تک چلاتی رہیں۔ کہتے ہیں جرمن فوجیوں نے انہیں دس ماہ تک قید کر کے تشدد کیا لیکن انہوں نے جرمن فوج کو کوئی معلومات فراہم نہیں۔بالآحر انہیں سنہ چوالیس میں تیرہ ستمبر کو قتل کر دیا گیا۔

بھارتی شہزادی نور کی شجاعت مندی پر اعزاز

جمعرات, نومبر 08, 2012

سبز چائے کینسر کے خطرات کم کرنے میں مفید

کینیڈا میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق سبز چائے پینے والی خواتین میں کینسر کے مرض کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق بڑھتی عمر کے ساتھ جو خواتین باقاعدگی سے سبز چائے کا استعمال کرتی ہیں وہ معدے، بڑی آنت اور گلے کے کینسر سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ 

باقاعدگی سے سبز چائے استعمال کرنے والی ستر ہزار چینی خواتین پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج کے مطابق دیگر خواتین کی نسبت ان میں معدے کے کینسر کا خطرہ چودہ فیصد کم پایا گیا۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کینسر سے محفوظ رہنے کے لیے مناسب غذا کا استعمال اور صحت مند طرز زندگی اپنانا بھی بے حد ضروری ہے۔

سبز چائے پینے سے کینسر کے خطرات کم ہو جاتے ہیں: تحقیق

ہفتہ, نومبر 03, 2012

سندھ: بیوی کو زخمی کرنے پر خاوند گرفتار

پاکستان کے صوبہ سندھ میں پولیس نے ایک شخص کو اپنی بیوی کی ناک، کان اور چھاتی کو بلیڈ سے زخمی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ یہ واقعہ گزشتہ ہفتے وسطی سندھ کے ضلع سانگھڑ میں پیش آیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بھٹ شاہ میں چھاپہ مار کر ملزم مارو بھیل کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 

کراچی سے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق ملزم مارو بھیل نے صحافیوں کو بتایا کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کے بھائی اور والد گرفتار ہیں تو انہوں نے گرفتاری دینے کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس سے پہلے ہی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ ملزم مارو بھیل نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنی بیوی لالی بھیل پر بد کرداری کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ’انہوں نے کئی بار لالی کو روکا مگر لالی نے ان کی بات نہیں مانی۔‘ ملزم کا کہنا تھا کہ ’وہ تنگ آ کر بیوی کو اپنے بھائی کے گھر سانگھڑ شہر لے آئے مگر وہاں بھی لالی کے رشتے دار پہنچ گئے، ایک روز جب اس کا بھائی بیوی بچوں کے ساتھ گیا ہوا تھا تو انہوں نے لالی کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔‘ مارو بھیل نے بتایا کہ’وہ لالی کے منہ پر کپڑا باندھ کر اسے قریبی فصل میں لے گئے، جہاں لالی کے ہاتھ پاؤں رسی سے باندھ کر بلیڈ کی مدد سے کان، ناک اور چھاتی کو زخمی کر دیا۔‘

  ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ لالی بھیل کے ناک، کان اور چھاتی کی پلاسٹک سرجری کی ضرورت پڑے گی، صوبائی وزیر اقلیت امور موہن کوہستانی نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی ہے اور انہیں ایک لاکھ روپے دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

مارو بھیل مزدوری کرتے ہیں اور ان کے تین بچے ہیں، اس واقعے میں ایک نومولود بچہ ہلاک بھی ہوگیا تھا۔ مارو بھیل کا کہنا ہے کہ بچہ پیروں تلے دب کر ہلاک ہوا۔ زخمی لالی بھیل کو کراچی کے جناح ہپستال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہسپتال میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لالی بھیل نے ملزم کی گرفتاری پر خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق’مارو بھیل انہیں جنگل میں لے گیا جہاں رسی سے باندھ کر ناک، دونوں کان اور چھاتی کو زخمی کیا اور اس کے بعد وہاں ہی چھوڑ کر فرار ہوگیا۔‘ مسمات لالی کا دعویٰ ہے کہ ان کے نومولود بیٹے کو مبینہ طور پر گلہ گھونٹ کر ہلاک کیا گیا ہے، کیونکہ ان کے شوہر کا الزام تھا کہ یہ بچہ اس کا نہیں کیونکہ اس کی شکل مختلف ہے۔

لالی بھیل اور ان کے شوہر مارو بھیل دونوں کا تعلق ضلع سانگھڑ سے ہے اور دونوں کی شادی کو چھ سال ہو چکے ہیں۔ اپنی بیٹی لالی کو علاج کے لیے کراچی لانے والے آچر بھیل نے بتایا کہ میاں بیوی میں رنجش تو گزشتہ چار سالوں سے تھی مگر ایک سال قبل مارو کی بہن کے بیوہ ہونے کے بعد اس میں شدت آگئی۔ آچر بھیل نے بتایا کہ مارو نے انہیں شکایت کی تھی کہ اسے لالی کے کردار پر شک ہے، جس کے بعد وہ اپنی بیٹی کو اپنے پیر باقر شاہ کی مزار پر لے گئے تھے جہاں اس نے قسم لی تھی کہ اس پر جھوٹے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

سندھ: بیوی کو زخمی کرنے پر خاوند گرفتار

جمعہ, نومبر 02, 2012

عورتوں کے شادی کے روایتی رجحان میں تبدیلی

حال ہی میں جاری ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدیوں سے جاری شادی کے روایتی رجحان میں تبدیلی ہونے لگی ہے۔ پہلے خواتین شادی کے لئے اعلیٰ سماجی حیثیت کے حامل شخص کو جیون ساتھی بنانا پسند کرتی تھیں لیکن اب اس کے برعکس ہورہا ہے۔ اب خواتین خود سے کم تعلیم یافتہ اور کم کمانے والے شخص سے شادی کرنے کو ترجیح دینے لگی ہیں۔ 

سپین میں یونیورسٹی کی سطح پر کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ زیادہ تر پڑھی لکھی خواتین مردوں کی انا کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ لیکن اب اس صورت حال کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ محقق البرٹ ایسٹیو کا کہنا ہے کہ خواتین میں تعلیم کی شرح میں اضافے سے سنگل وومن کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم یافتہ خاتون خود کو خود مختار سمجھتی ہے اور شادی کرکے پابندیوں میں جکڑنا نہیں چاہتی، اس لیے وہ ایسا جیون ساتھی ڈھونڈتی ہے جو اس سے کم تعلیم یافتہ اور کم کمانے والا ہو تاکہ وہ بیوی کی عزت کرے۔ 

فرانس، سلووینیا اور منگولیا جیسے 21 ممالک میں خواتین خود سے اعلیٰ مرتبے کے بجائے کم تعلیم یافتہ اور کم وسائل کے مالک مرد سے شادی کو ترجیح دیتی ہیں۔ 1960 کی دہائی سے جاری 56 ممالک میں کی گئی تحقیق کے بعد کہا گیا کہ اب خواتین میں شادی کے انتخاب میں روایتی جمود ٹوٹ چکا ہے۔

مشرقی عورت کے مغربی مسائل

رابعہ کی شادی اپنے برطانوی نژاد پاکستانی کزن سے ہوئی۔ پاکستان میں اپنے گھر والوں سے بچھڑتے وقت اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کا شریکِ سفر پہلے ہی کسی اور لڑکی کی محبت میں گرفتارہے، جس نے شادی ماں باپ کے مجبور کرنے پر محض اُن کی خوشی کی خاطر کی ہے؟ اتنا ہی نہیں۔ سسرال میں اُس کی حیثیت ایک ملازمہ سے زیادہ نہیں؟ پردیس میں اِس حقیقت کا سامنا اُس نے بڑی ہمت سے کیا۔ مگر، اِس قربانی کا صلہ اسے طلاق کی صورت میں ملا۔ آج رابعہ برطانیہ کے علاقے شیفیلڈ میں تنہا دو بچوں کےکونسل کےگھر میں رہتی ہے۔ وہ غیر تعلیم یافتہ ہے اور انگریزی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے روزمرہ کے معاملات کی انجام دہی میں اسےکافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رابعہ نے ’وی او اے‘ سے اپنی کہانی اِس طرح بیان کی: میری شادی سنہ 2004 میں آصف سےمیر پور میں ہوئی۔ شادی کے چار ماہ بعد وہ برطانیہ بریڈ فورڈ آئی۔ اُن کا سسرال ساس، سسر، تین نندوں؛ ایک دیورانی اُس کی تین بچیوں، نند کے شوہر اور ایک بچے پر مشتمل تھا۔ ایک اچھی بہو کا فرض نبھاتے ہوئے سسرال کے ہر کام میں حصہ لیا مگر کچھ ہی دنوں بعد تمام کاموں کی ذمہ داری مجھے دے دی گئی اور گھر والوں کا سلوک بھی بدل سا گیا۔ ساس کا کہنا تھا کہ آصف شادی کے بعد گھر میں خرچے کے پیسے نہیں دے رہا ہے۔ لہذا، اسے سب گھر والوں کے کھانا کھانے کے بعد بچا ہوا کھانا ملے گا۔ کئی دفعہ کھانا نہیں بچتا تھا اور اکثر اسے بھوکا رہنا پڑتا۔ 2005ء میں میری بیٹی پیدا ہوئی، مگر آصف نے باپ بننے کا بھی فرض پورا نہیں کیا۔ اپنی بچی کی ضرورتوں کے لیے بھی محتاج تھی۔ روز روز کی لڑائی اور پھر نوبت مار پیٹائی تک جا پہنچی۔ سسرال والوں نے بھی کبھی اُس کا ساتھ نہیں دیا۔ بلکہ، کہا جاتا کے جتنی ذلت ہم تمہاری کرتے ہیں اگر ایک کتے کی بھی کریں تو وہ گھر سے چلا جائے۔

رابعہ نے آنکھوں سے نمی صاف کرتے ہوئے کہا، میری زندگی دن بدں دشوار ہوتی جا رہی تھی۔ سنہ 2009 میں جب دوسری بار آٹھ ماہ کی حاملہ تھی تو اپنی نند کو ویکیوم کرنے کے لیے کہنے پر ایسی سزا دی گئی کہ پانچ دن اور رات اسے ایک ہی جگہ پر بٹھا کر رکھا گیا، ساس نے طنزیہ کہا آج سےسب گھر والے اس کی خدمت کریں گے۔ اس دوران کھانا اس طرح لا کر دیا جاتا جیسے کسی جانور کے آگے رکھا جاتا ہے، مگرایک ایسی بات بھی ہوئی کہ جو میں بتانا نہیں چاہتی، جس نے مجھے گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ صبح جب سب سو رہے تھےتو میں نے گھر چھوڑ دیا اور اپنی بچی کے سکول جا پہنچی۔ سکول والوں نے میری روداد سننے کے بعد مجھے فلاحی ادارے کے سپرد کردیا۔ سسرال سے میری کوئی خبر نہیں لی گئی۔ میں نے بریڈ فورڈ سے کہیں اور منتقل کرنے کی درخواست ادارے کو دی جس پر مجھے شیفیلڈ کے رفیوجی کیمپ میں منتقل کردیا گیا۔ یہں میرا بیٹا پیدا ہوا۔ اس بات کی اطلاع آصف کو دی گئی مگر اس نے سنگدلی کی انتہا کرتے ہوئے فون بند کردیا۔

دو سال کچھ ہمسائیوں کی مدد سے اپنی زندگی کی جنگ لڑی۔ تاہم، اکیلے پن سے گھبرا کر ایک دن آصف کو فون کیا۔ آصف بھی مجھ سے ملاقات کے لیےتیار ہوگیا، جبکہ اس کے دل میں اس ملاقات کے پیچھے کوئی اور ہی مقصد تھا، نا کہ میری اور میرے بچوں کی محبت۔ اُس نے شیفیلڈ کے معزز افراد کے سامنے قرآن پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ وہ میرا اور اپنے بچوں کا خیال رکھے گا۔ اس وعدے کے ساتھ وہ ہمیں گھر واپس لے آیا۔ رابعہ نے بتایا کہ اس نے یہ فیصلہ پاکستان میں اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف کیا تھا جس کی وجہ سے وہ ابھی تک اس سے ناراض ہیں۔ تاہم، ان کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ آصف کچھ عرصہ ہی اپنی بات نبھا سکا اور پھر اپنی پرانی روش پر آگیا۔ ایک دن اچانک آصف نے بتایا کہ اس کی ایک گرل فرینڈ ہے جو ماں بنے والی ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تا کہ سوسائٹی میں بچے کو اپنا نام دے سکے۔ مجھے ایک بار پھر نئی آزمائش کا سامنا تھا۔ اس کی نظر میری چوڑیوں پر تھی میں نے اسے وہ چوڑیاں اتار کردیں تو وہ میرا شکریہ ادا کرنے لگا۔ شادی کے کچھ عرصے تک آصف حسب وعدہ بچوں سے ملنے آتا اور ان کے لیے کچھ رقم بھی دینے لگا۔ ایک دن آصف نے کہا کہ وہ ایک اچھی گاڑی خریدنا چاہتا ہے اور اس کے پاس تھوڑے ہی پیسے کم ہیں۔ کیا میں اس کی مدد کر سکتی ہوں۔ مجھے اس بار بھی اندازا نہیں ہوا کہ اب اس کی نظر میرے ان پیسوں پر ہے جو میں نے پچھلے دو سالوں میں اکیلے رہتے ہوئے بچائے تھے۔ اس دفعہ میں ایک مرتبہ پھر اس کے لہجے سے دھوکا کھا گئی، اور اپنی آخری جمع پو نجی بھی اس کے حوالے کر بیٹھی۔ مگر اس کی گاڑی میں بیٹھنا ہمارا مقدر نہیں تھا۔ اگلے ہی دن آصف سے جھگڑا ہوا کہ وہ وعدے کے مطابق ہمیں زیادہ وقت نہیں دیتا، جس پر وہ مشتعل ہوگیا۔ پہلے اُس نے مجھے دھکا دیا پھرمارا پیٹا۔ اُسی غصے میں اس نے مجھے تیں طلاقیں دیں۔ اور ہمیشہ کے لیے رشتہ ختم کردیا۔ مجھے اس مقام پر لا کر چھوڑا جہاں نہ تو میرے پاس پیسے تھے اور نہ ہی ٹھکانہ۔ ایک طرح سے میں سڑک پر آگئی تھی۔

ایک بار پھر مجھے سٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ سنہ 2012 میں دوبارہ شیفیلڈ واپس آگئی۔ یہاں سٹی کونسل کی جانب سے گھر دیا گیا ہے اور ماہانہ اخراجات کے لیے رقم بھی دی جاتی ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ برطانیہ میں عورتوں کے لیے بہت سی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ روشنی نام کی ایسی ہی ایک تنظیم نے اس کی ہر طرح سے مدد کی ہے۔ وہ اپنے گھر سے خالی ہاتھ آئی تھی، کونسل کے ذریعے سامان کا تقاضا آصف سے کیا تو تنگ کرنے کی غرض سے ٹی وی کا ریموٹ، کمپیوٹر کا چارجر، حتٰی کہ بچے کی گاڑی کے ریموٹ جیسی چیزیں بھی واپس نہیں کیں اور کہا کہ میں تمھیں اتنی ذہنی اذیت دوں گا کہ تم اپنا دماغی توازن کھو دو گی۔ تب میں آسانی سے اپنے بچے حاصل کرلوں گا۔ وہ تحریری طلاق دینے پر بھی آمادہ نہیں اور چاہتا ہے کہ طلاق میری طرف سے دائر کی جائے۔ میرے دونوں بچے، ماہین 7 سال اور بیٹا حسن 3 سال اپنے باپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ طلاق کا کیا مطلب ہے اور ضد کرتے ہیں کے انھیں واپس اپنے گھر جانا ہے۔ مجھے قدم قدم پر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بس کا سفر، سکول، بینک، شاپنگ، بلوں کی ادائیگی غرض باہر کی دنیا کا سامنا کرنا میرے لیے کسی امتحان سے کم نہیں۔ فون پر بات کرنا ہو توکسی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں آج کل انگریزی سیکھ رہی ہوں جس میں میری بیٹی میری کافی مدد کررہی ہے۔ اس کے بعد ڈرائیونگ سیکھنا چاہتی ہوں، تاکہ جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہوکرمیں بھی برطانوی معاشرے کے ساتھ چل سکوں۔ اپنے بچوں کا بہتر مستقبل میری اولین ترجیح ہے۔ میں اپنی بیٹی کو ڈاکٹر اور بیٹے کو وکیل بنانا چاہتی ہوں۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب مغرب میں بسنے والی ایشیائی اور بالخصوص پاکستانی گھرانے اپنے بچوں کی شادی کرنا چاہتے ہیں تو وہ پاکستان سے داماد ا ور بہو لانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اِس کی وجوہات کئی ہیں جن میں اپنے خاندان، ذات اور برادری سے لڑکی یا لڑکا لانا، تاکہ خاندان سے رشتہ جڑا رہے، کبھی کبھی مفت کی ملازمہ کا حصول یا پھر اپنےکسی سگے رشتہ دار کو باہر بلا کر سیٹ کرنا شامل ہے۔ اکثر اپنے بگڑے ہوئے بچوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے بھی ایسی شادیاں کی جاتی ہیں۔ اپنے اس فیصلے سے والدین اپنے بچوں کے ساتھ تو زیادتی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی، کسی بے گناہ کی زندگی بھی برباد کردیتے ہیں۔ برطانیہ کے بہت سےپاکستانی گھروں میں بچوں کو جبرٍاًٍ شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

رابعہ کی اِس کہانی میں قصور وار کون ہے؟

آپ خود ہی فیصلہ کریں۔

مشرقی عورت کے مغربی مسائل

بھارت: لڑکیوں کے موبائل فون اور حجاب پر پابندی

بھارتی ریاست راجستھان کے گاﺅں ڈوسا میں پنچائیت نے لڑکیوں کے موبائل فون استعمال کرنے اور حجاب کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گاﺅں کے کسی شخص نے جرگے کے اس فیصلے کے خلاف شکایت درج نہیں کرائی۔ پنچائیت میں شامل بزرگوں نے موقف اختیار کیا کہ جن لڑکیوں کے پاس موبائل فون ہیں وہ لڑکوں سے باآسانی رابطہ کرسکتی ہیں جس سے مختلف النوع مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ آگے چل کر ان کے اہل خانہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ 

پنچائیت میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ لڑکیوں کو حجاب پہنے سے بھی روکا جائے کیوں کہ حجاب کی آڑ میں وہ باآسانی اپنی شناخت چھپا لیتی ہیں اور باہر گھومنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے گاﺅں کی ایک لڑکی دوسرے گاﺅں کے لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی جس کے بعد یہ جرگہ منعقد کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پنچائیت کے اس فیصلے کے خلاف کسی نے شکایت درج نہیں کرائی۔

جمعرات, نومبر 01, 2012

کراچی لاڑکانہ میں ایڈز کے مریضوں میں اضافہ

کراچی: پاکستان میں ایڈز کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے، خصوصاً صوبہ سندھ کے دو شہروں کراچی اور لاڑکانہ میں ایچ آئی وی پوزیٹو اور ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حکومت سندھ کے ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق اس کی بنیادی وجہ منشیات، مرد و خواتین سیکس ورکرز اور تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے ہیں۔

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کےجون 2012ء تک کے اعداد وشمار کے مطابق کراچی میں ایچ آئی وی پوزیٹو مریضوں کی رجسٹرڈ تعداد سب سے زیادہ رہی جو 3 ہزار 5 سو 69 ہے جبکہ یہاں 57 افراد کو ایڈز کا مرض لاحق ہے۔ دوسرا نمبر لاڑکانہ کا ہے جہاں ایچ آئی وی پوزیٹو مریضوں کی تعداد 238 ہے جبکہ تین افراد ایڈز میں مبتلا ہیں۔ 

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے ڈاکٹر سلیمان اووڈھو نے وائس آف امریکہ کے نمائندے کو بتایا کہ سن 2010ء تک ایڈز کے سب سے زیادہ مریض لاڑکانہ میں تھے جبکہ دو سال بعد کراچی لاڑکانہ سے آگے نکل گیا ہے۔ ڈاکٹر اووڈھو کے مطابق ایچ آئی وی پوزیٹو اور ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کا سبب نوجوانوں میں بہت تیزی سے بڑھتا ہوا منشیات کا استعمال ہے۔ دوسری اہم وجہ غیر محفوظ جنسی تعلقات یا بے راہ روی ہے۔ مریضوں کی بیشتر تعداد اپنی شریک حیات تک محدود نہیں۔ اسی طرح جسم فروشی کرنے والی خواتین خود بھی ایڈز کا شکار ہوجاتی ہیں اور دوسروں کو بھی اس موذی مرض میں مبتلا کردیتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں کراچی میں تیسری جنس کے افراد میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اور جنس کے کاروبار میں ان کے ملوث ہونے کا نتیجہ ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کی صورت میں نکل رہا ہے۔ 

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کا ایڈز اور ایچ آئی وی پوزیٹو کے بارے میں شعور پہلے کے مقابلے میں بہتر ہوا ہے لیکن اب بھی لوگوں کو بڑے پیمانے پر آگاہی کی ضرورت ہے۔
 

پیر, اکتوبر 22, 2012

بھارت میں عورتوں کی عصمت دری

ہریانہ میں گذشتہ سال عصمت دری کے 733 واقعات درج ہوئے لیکن بہت سے واقعات درج ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ بھارت کے دارالحکومت دلی سے متصل ریاست ہریانہ کا ایک روایتی گاؤں ڈبرا ہے جس کی گلیاں تنگ ہیں اور کھلی نالیاں ہیں وہاں کے مکانات اینٹ اور گارے کے بنے ہوئے ہیں۔ بچے دھول میں کھیلتے ہیں اور مرد کنارے بیٹھے بیڑی اور حقہ پیتے رہتے ہیں۔ حالانکہ اس غریب کسان قصبے میں زیادہ لوگ باہر سے نہیں آتے ہیں لیکن ایک مکان کے باہر دو پولیس والے پہرے پر کھڑے ہیں اور اندر ایک سولہ سالہ لڑکی بیٹھی ہے۔ اس کے گرد کئی دوسری خواتین موجود ہیں۔ اس لڑکی کے لیے ہی وہاں پولیس کے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ چھہ ہفتے قبل وہ گلیوں سے گزرتی ہوئی کام پر جا رہی تھی جب کچھ لوگوں نے اس کو اغواء کر لیا تھا۔

اس نے کسی قسم کے احساسات کا اظہار کیے بغیر سپاٹ لہجے میں کہا کہ ’وہ لوگ مجھے گھسیٹ کر کار میں لے گئے اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی او مجھے ندی کے کنار ے لے گئے اور سات لوگوں نے باری باری میری عصمت دری کی اور باقی دیکھتے رہے۔‘ اس کی مصیبت وہیں ختم نہیں ہوئی۔ ان لوگوں نے اس واقعے کو اپنے موبائل فون پر ویڈیو کی صورت میں ریکارڈ کیا اور اس سخت گیر سماج میں اسے پھیلا دیا۔ لڑکی کے چچازاد بھائی نے کہاکہ’ان کے والد نے شرم کے مارے زہر کھا لیا۔ ہم لوگ انہیں ہسپتال لے گئے لیکن اس وقت تک کافی دیر ہو چکی تھی اور ہم انہیں نہی بچا سکے۔‘ اب تک نو مبینہ حملہ آور اور اغوا کرنے والے گرفتار ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی کچھ لوگ فرار ہیں۔
خواتین کے خلاف پورے بھارت میں عصمت دری اور جنسی استحصال کے واقعات ہوتے ہیں لیکن ہریانہ ان میں الگ اس لیے ہے کہ وہاں سماج کا رویہ اس کے تئیں مختلف ہے۔ بھارت کے دارالحکومت دلی کے قریب اس علاقے میں ابھی بھی مردوں کی اجارہ داری ہے۔ دیہی ضلع جند میں ایک گاؤں کی ایک پنچایت جاری ہے۔ ایک بڑے سے ہال میں معمر حضرات چارپائی پر بیٹھے حقہ پی رہے ہیں اور ان میں کوئی بھی خاتون نہیں ہے۔ جیسا کہ صدیوں سے ہوتا آیا ہے وہ لوگ سماجی امور، خواتین اور حالیہ عصمت دری پر فیصلہ دیں گے۔ 

گاؤں کے ایک بزرگ سریش کوتھ نے کہاکہ’میں آپ کو عصمت دری کی اصل وجہ بتاتا ہوں۔ آپ دیکھیں اخباروں اور ٹیلی ویژن پر کیا دکھایا جا رہا ہے۔ نصف عریاں خواتین۔ یہ چیزیں ہیں جو ہمارے بچوں کو خراب کر رہی ہیں۔ آخر کار یہ بھارت ہے کوئی یورپ تو نہیں۔‘

ایسی تنقید بھی ہو رہی تھیں جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کھاپ برادری پنچایت ہے جس میں سارے مرد ہیں اور یہ سماجی اور سیاسی طور کافی مضبوط ہیں۔ 

عصمت دری کا شکار ڈبرا کی لڑکی نے کہا کہ لڑکیوں نے اس واقعے کے بعد ڈر سے سکول جانا چھوڑ دیا ہے اور وہ بہت زیادہ خوفزدہ ہیں۔



بھارت میں عصمت دری عام کیوں؟

جمعرات, اکتوبر 18, 2012

آسٹریلوی وزیراعظم گر پڑیں

آسٹریلوی وزیراعظم جولیا گیلارڈ بھارتی رہنما مہاتما گاندھی کی یادگار کے دورے کے دوران گر گئیں، انہیں چوٹ نہیں آئی۔

آسٹریلوی وزیراعظم بھارت کے تین روزہ دورے پر ہیں۔ انہوں نے دلی میں مہاتما گاندھی کی یادگار کا دورہ کیا وہ جیسے ہی پتھریلے فرش سے گھاس پر آئیں تو اپنا وزن برقرار نہ رکھ سکیں اور اوندھے منہ جا گریں۔ ان کے ہمراہ آنے والے اہلکاروں نے انہیں اٹھایا۔ ان کے کپڑے جھاڑے جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں چوٹ نہیں آئی۔
 

پیر, ستمبر 24, 2012

پاکستان کی پہلی نابینا پی ایچ ڈی: فرزانہ سلیمان پونا والا

بینائی سے محروم ہونے کےباوجود، ڈاکٹر فرزانہ سلیمان پونا والا فلسفے اور اسلامک سٹڈیز میں ڈبل ایم اے اور پی ایچ ڈی ہیں۔ اُنھیں گذشتہ سال ’تمغہ حسن کارکردگی‘ مل چکا ہے۔ وہ پچھلے بیس برسوں سےکراچی کے ’پی اِی سی ایچ ایس کالج‘ میں اسلامک سٹڈیز کی لیکچرر ہیں۔ وہ ایک باہمت اور رول ماڈل خاتون ہیں، جِنھیں قابلِ قدر خداداد صلاحیتوں کے باعث معاشرے میں ایک تعظیم و احترام کا درجہ حاصل ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اُنھوں نے بتایا کہ وہ پیدائشی طور پر نابینا نہیں تھیں، بلکہ جب وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں، اُنھیں ٹائفائڈ ہوا اور حادثاتی طور پرنظر جاتی رہی۔

فرزانہ پونا والا

اُنھوں نے کہا کہ شروع میں اُن کویہ مسئلہ درپیش تھا کہ اُن کے لیے کون اتنا وقت نکالے گا، وہ تعلیم کیسے جاری رکھ سکیں گی اور اُنھیں کون پڑھ کر سنائے گا؟ لیکن، اُنھوں نے اپنےگھر والوں سے لے کر دوست، احباب، طالب علموں اور اساتذہ سب کا شکریہ ادا کیا، جنھوں نے، اُن کے بقول، میرے لیے آسانیاں پیدا کیں، جس کے باعث یہ ممکن ہوا کہ میں تعلیم اور پھر ملازمت جاری رکھ سکوں۔ 

ڈاکٹر فرزانہ نےبتایا کہ وہ کراچی کے ناظم آباد علاقے میں رہتی تھیں اور اُن کی معلمہ تدریس کی غرض سے لانڈھی سے آیا کرتی تھیں۔

پاکستان کی پہلی نابینا پی ایچ ڈی: فرزانہ سلیمان پونا والا

جمعرات, ستمبر 20, 2012

فیس بک پر پولیس کے خلاف تبصرہ؛ بھارتی دوشیزہ گرفتار

کراچی… محمد رفیق مانگٹ… بھارت میں ٹریفک پولیس کے بارے اپنے فیس بک صفحہ پر قابل اعتراض تبصرہ پوسٹ کرنے والی قومی یوارڈ یافتہ دوشیزہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں قومی بہادری ایوارڈ کی فاتح 22 سالہ لڑکی کو فیس بک کے صفحہ پر مبینہ طور پر چندی گڑھ ٹریفک پولیس کے خلاف توہین آمیز تبصرے پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ گیتا چوپڑا بہادری ایوارڈ کے فاتح حنا بخشی پر الزام ہے کہ اس نے چندی گڑھ UT ٹریفک پولیس کے خلاف اپنے فیس بک صفحہ پر توہین آمیز زبان کا استعمال کیا۔ حنا نے دعوٰی کیا کہ اسے اس بات پر ہراساں کیا جارہا ہے کہ اس کی دوست کے گھر سے اس کا ملٹی یوٹیلٹی وہیکل چوری ہوگیا تھا جس پر اس نے گاڑی چوری کی ایف آئی آر درج کرائی، اس نے الزام عائد کیا کہ پولیس کی طرف سے اس معاملے میں پیش رفت کے حوالے سے رابطہ نہیں کیا گیا تھا اور جب اس نے اپنے کیس کے سلسلے میں پوچھ گچھ کی کوشش کی تو اسے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد چندی گڑھ پولیس کے متعلق فیس بک کا صفحہ پر اس نے تبصرہ کردیا۔ تاہم حنا نے اس کی تردید کی کہ اس نے فیس بک کے صفحہ پر کوئی قابل اعتراض تبصرہ پوسٹ کیا، اس کا کہنا تھا کہ اس نے ایک عام آدمی کو درپیش مشکلات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے اصرار کیا کہ اس کا تبصرہ عام نوعیت کا تھا کسی کو ہدف کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔

بھارت:فیس بک پر پولیس کے خلاف تبصرہ کرنے والی دوشیزہ گرفتار

کنٹیکٹ لینس نے دلہن کو عمر بھر کے لئے نابینا کردیا

جمعہ, ستمبر 07, 2012

بھارت اور چین میں لڑکیاں آخر کہاں گم ہوگئیں؟

بنگلہ دیش، افغانستان اور مشرقی یورپ کے ممالک جن میں البانیا، آرمینیا، آزر بائیجان، جارجیا اور مانٹی نیگرو شامل ہیں، جنس منتخب کرنے کا رواج بڑھ رہا ہے۔

یہ بات اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق فنڈ (UNPF) کی طرف سے جاری کی جانے والی ایک تازہ رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ یہ رپورٹ آبادی کی کانفرنس کے موقعے پر جاری کی گئی ہے اور جنس کے انتخاب کے نتیجے میں اِن ملکوں میں ہونے والی مردم شماری میں لڑکوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ الٹرا ساؤنڈ تیکنالوجی اور بچوں کی تعداد کو محدود کرنے کی حکومت کی پالیسیوں کے سبب مقامی ثقافت میں اس کا رجحان بڑھ گیا ہے۔

سنہ 2010 میں تحقیق کرنے والوں کے اندازے کے مطابق زیادہ تر چین اور بھارت میں عورتوں کی تعداد 11 کروڑ 70 لاکھ کم تھی۔ محققین کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ 2030ء تک اِن دو ملکوں میں عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی تعداد 50 فی صد زیادہ ہوگی۔

بھارت اور چین میں لڑکیاں آخر کہاں گم ہوگئیں؟

ہفتہ, اگست 04, 2012

مصر: مظاہروں ميں شريک عورتوں سے جنسی بدسلوکی

مصر ميں مظاہروں ميں مردوں کے ساتھ عورتيں بھی شريک ہوتی ہيں۔ وہاں، مردوں اور عورتوں کے اختلاط کی فضا ميں عورتيں مسلسل جنسی دست درازيوں کا نشانہ بن رہی ہيں۔

جون کے آخر ميں نحال سعد بھی اپنی دوستوں کے ساتھ قاہرہ کے تحرير چوک ميں مظاہرے کے ليے گئی تھی۔ ليکن يہ مظاہرہ اُس کے ليے ايک بھيانک خواب بن چکا ہے۔ وہ خواب ميں اپنے ساتھ زيادتی کے خوفناک منظر مسلسل ديکھتی رہتی ہے: ’’مجھے ميری دوستوں سے جدا کر ديا گيا اور مردوں نے ميرا حجاب کھينچنا اور مجھ پر دست درازی شروع کردی۔ يہ کوئی 15 مرد تھے۔ مجھے کبھی اتنا ڈر نہيں لگا‘‘۔

ليکن نحال خوش قسمت ہے کہ وہاں موجود دوسرے لوگوں نے اُسے اس مصیبت سے نجات دلا دی۔ مردوں کے ساتھ مظاہروں ميں شريک ہونے والی بعض دوسری عورتوں نے بتايا کہ اُن کے سارے کپڑے نوچ لیے گئے اوراُن کے ساتھ زیادتی کی گئی۔

اقوام متحدہ کے خواتين کے پروگرام کی سيلی زُہنی کے خيال ميں يہ خواتين کو مظاہروں سے باز رکھنے کی سياسی کوشش ہے۔ ليکن دست درازی کرنے والے سارے ہی مرد کسی منصوبے کا حصہ نہيں ہوتے۔ بہت سے، ايک بڑے مجمع ميں اپنے گمنام ہونے اورشناخت نہیں کيے جا سکنے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنسی زيادتياں کرتے ہيں۔

يہ حقيقت ہے کہ مصر ميں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے عورتوں اور مردوں ميں جو اختلاط بڑھا ہے اُس فضا ميں عورتوں سے چھيڑ چھاڑ اور اُن سے جنسی ریادتی کے واقعات بہت زيادہ بڑھ گئے ہيں۔ قاہرہ ميں پہلے ايسا نہيں تھا۔ اب تو يہ حال ہے کہ قاہرہ شہر کے اندرونی حصے ميں داخل ہونے والی شايد ہی کوئی عورت دست درازی سے بچتی ہو۔ مبارک حکومت کے خلاف انقلاب کے بعد سے سکيورٹی فورسز مصر کی سڑکوں سے غائب ہو گئی ہيں اور بد قماش افراد کو پکڑنے والا کوئی بھی نہيں رہا اور انہيں معلوم ہے کہ وہ سزا نہيں پائيں گے۔

اکثر خود عورتوں کو اپنے ساتھ ہونے والی زيادتيوں کا ذمہ دار ٹہرايا جاتا ہے کہ وہ کيوں مظاہروں جيسی عوامی سرگرميوں ميں حصہ ليتی ہيں۔ سابق صدر مبارک نے بھی خواتين سے کہا تھا کہ وہ نقاب پہنيں تاکہ دست درازيوں سے بچی رہيں۔

ليکن معاملہ صرف يہاں تک ہی نہيں ہے۔ مصری پارليمنٹ ميں اسلام پسند عورتوں کو طلاق کا حق نہيں دينا چاہتے اور لڑکيوں کی شادی کی عمر 18 سے کم کرکے 12 کر دينا چاہتے ہيں۔

مصر: مظاہروں ميں شريک عورتوں سے جنسی بدسلوکی