اسلامی آداب زندگی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اسلامی آداب زندگی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ, جولائی 11, 2012

کھیل اور مذہبی جذبات

لندن میں ہونے والے اولمپک کھیلوں میں مسلمان کھلاڑی خواتین حجاب کا استعمال کرسکیں گی۔ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے بھی فیفا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لڑکیوں کو یہ رعائت دے دی ہے تاہم فرانس کی قومی فٹ بال ایسوسی ایشن اب بھی پہلے کی طرح اڑی ہوئی ہے کہ فرانسیسی مسلمان خواتین حجاب نہیں کرسکتیں۔ فیفا نے مسلمان خواتین سے حجاب استعمال نہ کرنے کی پابندی گذشتہ ہفتے ہی اٹھائی ہے۔ اس سے پہلے وہ اسے پنوں کے باعث خطرناک تصور کرتی تھی لیکن بغیر پن کے حجاب کھلاڑیوں کے کھیل کے بالکل آڑے نہیں آتا۔ اب بہت سے ایشیائی ملکوں کی لڑکیوں کو اولمپک کھیلوں سمیت عالمی سطح کے کھیلوں میں شامل ہونے کا موقع ملتا ہے۔ ممکن ہے کہ لندن میں ہونے والے اولمپک کھیلوں میں ہمیں باحجاب خواتین کو کھیلتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملے۔

بیجنگ میں ہوئی اولمپک میں بھی مذہبی لباس پر پابندی نہیں تھی لیکن اس اجازت کا اطلاق صرف لائٹ اتھلیٹکس پر ہوتا تھا۔ بحرین کی دوڑ کی کھلاڑی رقیہ القصرٰی نے ایک مخصوص مرکب لباس اور حجاب میں دوڑ کر کھیل جیت لیا تھا۔ یہ ایک مثال تھی اور اب اس نوع کے مرکّب لباس میں سعودی عرب کی لڑکیاں اولمپک کھیلوں میں شریک ہونگی۔

اس تبدیلی کے باوجود فرانس بہر حال اڑا ہوا ہے کہ کھیل میں اسلامی لباس نہیں چلے گا۔ یہ فرانس کے قانون کے خلاف ہے، ماسکو کے سرکاری انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر یوگینی ابیچکن بتاتے ہیں، ”فرانس میں نقل مکانی کرکے آنے والوں کا ماحول میں ڈھل جانے کا مسئلہ بہت شدید ہے۔ اس ملک میں ہر ساتواں شخص تارکین وطن کی اولاد ہے۔ ملک میں مسلمان مذہب کے حوالے سے دوسرے مقام پر آتے ہین جن کی تعداد ستّر لاکھ ہے۔ ملک میں کیتھولک عقیدے کے حامل عیسائیوں کے بعد مسمان آتے ہیں، پروٹسٹنٹ عیسائی فرقہ تعداد میں ان سے کم ہوچکا ہے۔ اس وجہ سے انہیں فرانس کے ماحول میں جذب کرنے کا پروگرام تیار کیا گیا تھا، جس کے سلسلے میں سابق صدر فرانس نکولیا سارکوزی بہت فعال تھے تاکہ مسلمانوں کو فرانس کی تمام رسموں کا پابند بنائیں۔ اس کے لیے ہی عام مقامات پر مذہب کے حوالے سے زیب تن کی جانے والی ہر شےکو ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ صرف حجاب ہی نہیں، عیسائیوں کو صلیب پہننے سے اور یہودیوں کو مخصوص ٹوپی پہننے سے روک دیا گیا تھا“۔
 
بہرحال عمومی رجحان یہ ہے کہ کھیل قومی ثقاقت سے ہم آہنگ رہیں۔ حجاب پہننے کی اجازت ملنے سے ان لڑکیوں کے لیے نئے امکانات کھلیں گے جن کی سرگرمیاں مذہبی لباس کی وجہ سے محدودو تھیں۔ لباس یا بظاہر نظر آنے کو کھلاڑیوں کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہیے، کھیلوں کے مبصر گریگوری توالتوادزے نے کہا، ”یہ کہنا مشکل ہے کہ حجاب پہن کر کھیلا جانا کتنا اہم ہے۔ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی حجاب پہن کر غوطہ لگائے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا، اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کھیل سیاست کی نظر ہونے لگے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ کھیل کھیل ہوتا ہے، جس کا اولین حصہ انسان کی جسمانی خوبصورتی ہوتا ہے“۔

بلاشبہ کھیلوں کا ایک ڈریس کوڈ ہوتا ہے۔ شطرنج کی کھلاڑی لڑکیوں کے لیے گھٹنوں سے اوپر سکرٹ پہننا ممنوع ہے، لازماً بند جوتی استعمال کریں گی اور گریبان زیادہ کھلا نہیں رکھیں گی۔

کھیل اور مذہبی جذبات

جمعہ, جون 29, 2012

پانی ضائع کرنے کے چند مواقع


پانی ضائع کرنے کے چند مواقع
------------------------------------------------------------
وضو سے پہلے مسواک کرتے وقت پانی کا نل :: ٹوٹی :: کھلی رکھنا
:: ہاتھ، منہ، بازو، پاؤں :: دھوتے وقت پانی ضرورت سے زیادہ بہانا۔
صابن سے ہاتھ اور منہ دھونے کے لئے صابن لگاتے وقت پانی کھُلا رکھنا۔
غسل کرتے وقت جب صابن لگایا جاتا ہے تو نَل کھُلا رکھنا۔
گھروں میں خواتین کے پانی ضائع کرنے کے مواقع
------------------------------------------------------------
برتن دھوتے وقت پانی کا اسراف کرنا۔
کپڑے دھوتے وقت پانی کا بلاوجہ اسراف کرنا۔
گھر کی صفائی کے وقت پانی بے تحاشہ استعمال کرنا۔
پانی احتیاط سے استعمال کرنے کی تدابیر:
------------------------------------------------------------
پانی لوٹے میں یا کسی اور برتن میں ڈال کر وضو کیا جائے تو پانی ضائع نہیں ہوتا۔
اگر نَل پر ہی وضو کرنا ہے تو نَل اُسی وقت کھولیں جب کسی عضو کو دھونا ہو اور جب دھل جائے تو نَل بند کر دیں۔
مسواک اور سر کا مسح کرتے وقت نَل بند رکھیں۔
وضو کرتے ہوئے اگر صابن لگانا ہے تو صابن لگاتے وقت نَل بند رکھیں۔
گھر کی صفائی ہمیشہ بالٹی میں پانی ڈال کر کریں نَل کے ساتھ پائپ لگا کر صفائی کرنے سے پانی بہت زیادہ ضائع جاتا ہے۔
برتنوں کو صابن لگاتے اور برتن مانجھتے وقت نَل بند رکھیں۔
اور یہی اصول کپڑے دھوتے وقت بھی اپنایا جائے تو پانی کے اسراف سے بچا جاسکتا ہے۔

وضو اور پانی کا ضیاں

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
ترجمہ: وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کر دیا بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے۔
الفرقان: آیت: ۵۴

مگر افسوس کہ ہم آج اس پیاری نعمت کی قدر نہیں کرتے اور اس کو ضائع کرتے رہتے ہیں اگر پانی ہمیں خریدنا پڑے تو یقیناً ہم اس کا اسراف کرنا برداشت نہ کریں جس طرح‌ منرل واٹر کو ضائع نہیں کرتے، آخر ایسا کیوں ہے کہ جو چیز ہمیں بغیر محنت اور پیسہ خرچ کئے مل جائے ہم اس کی قدر نہیں کرتے؟؟؟؟

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے؛
ترجمہ: پھر تم سے ضرور بالضرور پوچھ ہونی ہے اس دن ان نعمتوں کے بارے میں۔ (التکاثر: ۸)

اس آیت کی تفسیر احادیث میں بھی وارد ہوئی ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس دو ہی تو چیزیں ہیں پانی اور کھجور۔ پھر ہم سے کن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ دشمن حاضر ہے اور تلواریں ہمارے کاندھوں پر ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ نعمتیں عنقریب تمہیں ملیں گی۔

جامع ترمذی: جلد دوم: باب: سورۃ تکاثر کی تفسیر

پانی کے اسراف کی ممانعت میں احادیث موجود ہیں مثلاً
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ راوی ہیں کہ
(ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضو میں اسراف بھی کررہے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا ’’اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟‘‘ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ)

مشکوۃ شریف: جلد اول: باب: وضو کی سنتوں کا بیان
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو۔

سنن ابن ماجہ: جلد اول: باب: وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت

ان احادیث سے واضح ہوا کہ وضو کرتے وقت بھی پانی کے اسراف سے بچنا لازم ہے اور بےشک وضو دریا کے کنارے کیا جائے مگر افسوس صد افسوس کہ ہم وضو کرتے وقت بھی بہت زیادہ پانی ضائع کرتے ہیں۔

سادگی کے لئے ابوبکر اور عمر کے نام پیش کرتا ہوں، گاندھی



غیرمسلموں کے رہنما اپنے حکمرانوں کو حکومت کرنے کے لئے ابتدائی مسلم خلفائے راشدین کی پیروی کی ہدایت کرتے ہیں، تو کیا وجہ ہے موجودہ ہمارے مسلم حکمران اپنے اسلاف کے طرز حکمرانی کی پیروی نہیں کرتے؟ حالاں کہ آج اس بات کی شدت سے ضرورت ہے۔ کیا یہ بہت مشکل ہے؟؟ یا اُس دور کے حالات اور موجودہ حالات میں فرق ہے؟