بھارت کی ریاست مغربی بنگال کی وشو بھارتی یونیورسٹی کے ایک سکول میں پانچویں جماعت میں پڑھنے والی ایک بچی کو اپنا ہی پیشاب پینے کی سزا دی گئی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس لڑکی کے والدین نے بتایا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس معاملے کو اٹھانے کی پاداش میں انھیں بھی لاک اپ میں رہنا پڑا۔
واضح رہے کہ والدین کی پولیس میں شکایت کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے ان پر ہاسٹل میں زبردستی گھسنے کی شکایت کردی تھی۔
عدالت سے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد پیر کو اس دس سالہ بچی کے والد منوج مستری نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اس واقعے کا علم اس وقت ہوا جب ان کی اہلیہ نے اپنی بچی کی خیریت جاننے کے لیے وارڈن کو فون کیا۔
انھوں نے بتایا: ’مجھے اس واقعے سے کافی صدمہ پہنچا ہے کہ یہ ربندرناتھ ٹیگور کے قائم کیے ہوئے ادارے میں ہوا ہے۔ میں اپنی بچی کے ساتھ کھڑا ہوں۔ یہاں اب اپنی بچی کو رکھوں گا یا نہیں اس کا فیصلہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد ہی کروں گا۔‘
پولیس کو اپنی شکایت میں لڑکی کے والدین نے بتایا کہ یہ واقعہ سنیچر کی رات کا ہے جب ان کی بچی نے بستر گیلا کردیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ اس سکول کی وارڈن نے خود ہی انھیں بتایا کہ ’اس خراب عادت کو چھڑانے کے لیے انھوں نے بچی کو پیشاب پلایا۔‘
مبینہ طور پر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس کے گیلے بستر پر نمک چھرک کر لڑکی سے اسے چاٹنے کی سزا دی گئی۔
لڑکی کے والد نے یہ بھی بتایا کہ اس واقعے کے بہت سارے گواہ ہیں۔
شانتی نکیتن وشوبھارتی کی انتظامیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس معاملے کی جانچ کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہےلیکن وہ اس بابت مزید کچھ کہنے سے گریز کررہے ہیں۔
قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کی چیئر پرسن شانتا سنہا نے کہا کہ اس واقعے سے پورے ملک میں غصہ پایا جاتا ہے اور ان کے کمیشن نے سکول سے جواب طلب کیا ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن لوگوں میں بیداری اور میڈیا کی مدد سے یہ باتیں سامنے آرہی ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’افسوس کی بات یہ ہے کہ شانتی نکیتن جیسے ادارے میں جسے رابندر ناتھ جیسے عظیم شخص نے تعمیر کیا تھا وہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوں۔‘
بچی کو پیشاب پینے کی سزا
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس لڑکی کے والدین نے بتایا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس معاملے کو اٹھانے کی پاداش میں انھیں بھی لاک اپ میں رہنا پڑا۔
واضح رہے کہ والدین کی پولیس میں شکایت کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے ان پر ہاسٹل میں زبردستی گھسنے کی شکایت کردی تھی۔
عدالت سے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد پیر کو اس دس سالہ بچی کے والد منوج مستری نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اس واقعے کا علم اس وقت ہوا جب ان کی اہلیہ نے اپنی بچی کی خیریت جاننے کے لیے وارڈن کو فون کیا۔
انھوں نے بتایا: ’مجھے اس واقعے سے کافی صدمہ پہنچا ہے کہ یہ ربندرناتھ ٹیگور کے قائم کیے ہوئے ادارے میں ہوا ہے۔ میں اپنی بچی کے ساتھ کھڑا ہوں۔ یہاں اب اپنی بچی کو رکھوں گا یا نہیں اس کا فیصلہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد ہی کروں گا۔‘
پولیس کو اپنی شکایت میں لڑکی کے والدین نے بتایا کہ یہ واقعہ سنیچر کی رات کا ہے جب ان کی بچی نے بستر گیلا کردیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ اس سکول کی وارڈن نے خود ہی انھیں بتایا کہ ’اس خراب عادت کو چھڑانے کے لیے انھوں نے بچی کو پیشاب پلایا۔‘
مبینہ طور پر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس کے گیلے بستر پر نمک چھرک کر لڑکی سے اسے چاٹنے کی سزا دی گئی۔
لڑکی کے والد نے یہ بھی بتایا کہ اس واقعے کے بہت سارے گواہ ہیں۔
شانتی نکیتن وشوبھارتی کی انتظامیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس معاملے کی جانچ کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہےلیکن وہ اس بابت مزید کچھ کہنے سے گریز کررہے ہیں۔
قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کی چیئر پرسن شانتا سنہا نے کہا کہ اس واقعے سے پورے ملک میں غصہ پایا جاتا ہے اور ان کے کمیشن نے سکول سے جواب طلب کیا ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن لوگوں میں بیداری اور میڈیا کی مدد سے یہ باتیں سامنے آرہی ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’افسوس کی بات یہ ہے کہ شانتی نکیتن جیسے ادارے میں جسے رابندر ناتھ جیسے عظیم شخص نے تعمیر کیا تھا وہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوں۔‘
بچی کو پیشاب پینے کی سزا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔