اسلام آباد (عثمان منظور) انٹرنیٹ کے ذریعے آنے والا فحش مواد جو تیزی سے پھیلنے والی سماجی برائی اور معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کا باعث بن رہا ہے، کے خلاف کراچی کا 15 سالہ نوجوان عبداللہ غازی جدوجہد کی ایک علامت کے طور پر ابھرا ہے۔ عموماً اس عمر میں نوجوان کھیل کود اور لڑائی جھگڑوں میں حصہ لیتے ہیں تاہم اس نوجوان نے ایک انتہائی سنجیدہ لڑائی کا راستہ اختیار کیا۔ عبداللہ غازی نے اس کے خلاف لڑائی کا بیڑہ اٹھایا اور اس سلسلے میں پی ٹی اے، وزارت آئی ٹی اور چیف جسٹس پاکستان سے رابطہ کیا کہ وہ فحش اور قابل اعتراض مواد کو چیک کریں بظاہر یہ کام ناممکن نظر آتا ہے پر یہ نوجوان پہلے ہی 7 لاکھ 60 ہزار ویب لنکس جن پر قابل اعتراض مواد موجود ہے، کے متعلق پی ٹی اے کو آگاہ کر چکا ہے تاہم اس کے اس کام کو سراہنے کے بجائے مغربی خود پسندوں اور نام نہاد لبرلز نے اس کے خلاف مہم شروع کردی۔ گزشتہ برس عبداللہ غازی نے چیف جسٹس پاکستان کو میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے تفریح کے نام پر پھیلنے والے فحش اور قابل اعتراض مواد کا نوٹس لینے کیلئے خط لکھا۔ اعلیٰ عدلیہ کے انسانی حقوق سیل نے اس خط پر کام کا آغاز کیا اور پی ٹی اے اور وزارت آئی ٹی کو اس ضمن میں اپنے جواب داخل کرانے کا کہا۔ ابتداء میں پی ٹی اے اور وزارت آئی ٹی نے اس نوجوان کے خط کو اہمیت نہ دی اور نتیجتاً عبداللہ غازی نے چیف جسٹس پاکستان تک رسائی حاصل کی۔ عبداللہ کی ٹیم نے میڈیا سے رابطہ کیا اور روزنامہ جنگ میں کالم لکھے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے معاملے کا نوٹس لے لیا۔
روزنامہ جنگ
روزنامہ جنگ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔