تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے
تمہارے بس میں اگر ہو تو بھول جاؤ ہمیں
تمہیں بھلانے میں شاید مجھے زمانہ لگے
ہمارے پیار سے جلنے لگی ہے اک دنیا
دعا کرو کسی دشمن کی بددعا نہ لگے
نہ جانے کیا ہے اس کی بیباک آنکھوں میں
وہ منہ چھپا کے جائے بھی تو بےوفا نہ لگے
جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو
کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتا نہ لگے
ہو جس ادا سے میرے ساتھ بےوفائی کر کہ
تیرے بعد مجھے کوئی بےوفا نہ لگے
وہ پھول جو میرے دامن سے ہوگیا منسوب
خدا کرے انہیں بازار کی ہوا نہ لگے
تم آنکھ موند کے پی جاؤ زندگی قیصر
کہ ایک گھونٹ میں شاید یہ بدمزا نہ لگے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔