جنسی قوت بڑھانے والی دوا ویاگرا کے خریداروں کے لیے ہمالیہ کے علاقے میں پائی جانے والی پھپھوند کی ایک قسم ایک ارزاں متبادل کے طور پر سامنے آئی ہے۔
اس نایاب پھپھوند کو مقامی آبادی نے ’بھارتی ویاگرا‘ کا نام دے دیا ہے اور آج کل ہمالیہ کے بعض علاقوں کی مقامی معیشت میں آنے والی مثبت تبدیلی اسی جڑی بوٹی کی مرہونِ منت ہے۔
تاہم اب اس قیمتی فصل کے ساتھ اس کے بعض کاٹنے والوں کو اپنی حفاظت کے لیے ہتھیاروں سے لیس ہو کر اس جڑی بوٹی کی حفاظت کرنی پڑتی ہے۔
شمالی بھارت میں اس پھپھوند کو ’کیڑا جڑی‘ کہا جاتا ہے اور یہ بھارتی ہمالیہ میں پائی جانے والی سنڈیوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔
چین میں ’کیڑا جڑی‘ کا استعمال بطور شہوت انگیز دوا کے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایتھلیٹس اسے کارکردگی بڑھانے والی دوا کے طور پر بھی استعمال کرتے رہے ہیں لیکن ہندوستانی ہمالیہ کے رہائشیوں کے لیے یہ آمدن کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
گزشتہ پانچ برس میں ان علاقوں کے لوگوں نے یہ پھپھوند اکھٹی کر کے مقامی خریداروں کو فروخت کرنی شروع کی ہے جو بعد ازاں اسے دارالحکومت دلی میں فروخت کرتے ہیں جہاں سے یہ ہمسایہ ممالک نیپال اور چین جاتی ہے۔
گاؤں میں فروخت کے وقت پھپھوند کا ایک ٹکڑا ایک سو پچاس بھارتی روپے میں فروخت ہوتی ہے جو کہ ایک یومیہ اجرت پر کام کرنے والے کے معاوضہ سے زیادہ ہے اور کچھ لوگ روزانہ چالیس ٹکڑے تک اکھٹے کرلیتے ہیں۔
چوبیس سالہ پریم سنگھ بھی قسمت آزمائی کے لیے بلند پہاڑی علاقوں میں دو ہفتے گزار کر آئے ہیں۔ پریم اس سفر پر اکیلے گئے تھے اور صرف چاول، گندم اور دال کھانے کے طور پر ساتھ لے کر گئے تھے۔
اس نایاب پھپھوند کو مقامی آبادی نے ’بھارتی ویاگرا‘ کا نام دے دیا ہے اور آج کل ہمالیہ کے بعض علاقوں کی مقامی معیشت میں آنے والی مثبت تبدیلی اسی جڑی بوٹی کی مرہونِ منت ہے۔
تاہم اب اس قیمتی فصل کے ساتھ اس کے بعض کاٹنے والوں کو اپنی حفاظت کے لیے ہتھیاروں سے لیس ہو کر اس جڑی بوٹی کی حفاظت کرنی پڑتی ہے۔
شمالی بھارت میں اس پھپھوند کو ’کیڑا جڑی‘ کہا جاتا ہے اور یہ بھارتی ہمالیہ میں پائی جانے والی سنڈیوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔
چین میں ’کیڑا جڑی‘ کا استعمال بطور شہوت انگیز دوا کے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایتھلیٹس اسے کارکردگی بڑھانے والی دوا کے طور پر بھی استعمال کرتے رہے ہیں لیکن ہندوستانی ہمالیہ کے رہائشیوں کے لیے یہ آمدن کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
گزشتہ پانچ برس میں ان علاقوں کے لوگوں نے یہ پھپھوند اکھٹی کر کے مقامی خریداروں کو فروخت کرنی شروع کی ہے جو بعد ازاں اسے دارالحکومت دلی میں فروخت کرتے ہیں جہاں سے یہ ہمسایہ ممالک نیپال اور چین جاتی ہے۔
گاؤں میں فروخت کے وقت پھپھوند کا ایک ٹکڑا ایک سو پچاس بھارتی روپے میں فروخت ہوتی ہے جو کہ ایک یومیہ اجرت پر کام کرنے والے کے معاوضہ سے زیادہ ہے اور کچھ لوگ روزانہ چالیس ٹکڑے تک اکھٹے کرلیتے ہیں۔
چوبیس سالہ پریم سنگھ بھی قسمت آزمائی کے لیے بلند پہاڑی علاقوں میں دو ہفتے گزار کر آئے ہیں۔ پریم اس سفر پر اکیلے گئے تھے اور صرف چاول، گندم اور دال کھانے کے طور پر ساتھ لے کر گئے تھے۔
تلاش کے تاریک پہلو
اس دوران انہوں نے پانچ ہزار میٹرز کی بلندی پر بھی کیمپ لگایا۔ پہلے تین دن انہیں کچھ نہیں ملا مگر پھر ان کی قسمت جاگی اور وہ اپنے گاؤں پھپھوند کے دو سو ٹکڑوں کے ساتھ لوٹے۔ اب وہ اپنی آمدن سے ایک شاندار دو منزلہ مکان تعمیر کروا رہے ہیں۔
اس طرح کی آمدن کی بات سن کر کئی لوگ جو پہلے کام کاج کے لیے شہر کا رخ کرتے تھے اب گاؤں میں ہی رہتے ہیں یا گاؤں واپس آرہے ہیں۔ پریم کی مطابق ’میں دلی کیوں ہجرت کروں جہاں ایک ہوٹل میں کام کر کے اتنے پیسے دو سال میں نہیں کما سکتا جتنے میں یہاں دو ہفتے میں کما سکتا ہوں‘۔
لیکن اس سارے سلسلے کے بعض تاریک پہلو بھی ہیں۔ سبھی لوگ اپنی تلاش میں کامیاب نہیں ہوتے اور کئی بیمار ہوکر لوٹتے ہیں۔ پھپھوند ڈھونڈنے کے لیے برف میں کہنیوں کے زور اور سینے کے بل پر لیٹنا پڑتا ہے۔ اس دوران بعض اوقات شدید سردی اور تیز ہواؤں کی وجہ پھیپھڑے درد کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ اکثر جوڑوں اور سانس کی تکلیف کے ساتھ واپس لوٹتے ہیں۔
اب تک ایک شخص اونچائی کی وجہ سے ان بیماریوں کا شکار ہوکر ہلاک ہوچکا ہے۔
پھپھوند کا یہ کاروبار دشمنی کا باعث بھی بن رہا ہے خاص طور پر دو گاؤں جو کہ ایک دوسرے سے ایک پہاڑی قطعہ کی وجہ سے برسر پیکار ہیں جہاں بظاہر یہ پھپھوند کثرت سے ہے۔ یہاں اسے ڈھونڈنے والوں کو اب ہتھیار ساتھ لے کر جانا پڑتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اس پھپھوند کو اکھٹا کرنا قانونی طور پر جائز ہے مگر اس کی فروخت ناجائز ہے جو اسے تلاش کرنے والوں اور بیچنے والوں کے لیے مذید خطرات پیدا کرتا ہے۔
بھارتی ہمالیہ میں ویاگرا کا ’سستا متبادل‘
اس دوران انہوں نے پانچ ہزار میٹرز کی بلندی پر بھی کیمپ لگایا۔ پہلے تین دن انہیں کچھ نہیں ملا مگر پھر ان کی قسمت جاگی اور وہ اپنے گاؤں پھپھوند کے دو سو ٹکڑوں کے ساتھ لوٹے۔ اب وہ اپنی آمدن سے ایک شاندار دو منزلہ مکان تعمیر کروا رہے ہیں۔
اس طرح کی آمدن کی بات سن کر کئی لوگ جو پہلے کام کاج کے لیے شہر کا رخ کرتے تھے اب گاؤں میں ہی رہتے ہیں یا گاؤں واپس آرہے ہیں۔ پریم کی مطابق ’میں دلی کیوں ہجرت کروں جہاں ایک ہوٹل میں کام کر کے اتنے پیسے دو سال میں نہیں کما سکتا جتنے میں یہاں دو ہفتے میں کما سکتا ہوں‘۔
لیکن اس سارے سلسلے کے بعض تاریک پہلو بھی ہیں۔ سبھی لوگ اپنی تلاش میں کامیاب نہیں ہوتے اور کئی بیمار ہوکر لوٹتے ہیں۔ پھپھوند ڈھونڈنے کے لیے برف میں کہنیوں کے زور اور سینے کے بل پر لیٹنا پڑتا ہے۔ اس دوران بعض اوقات شدید سردی اور تیز ہواؤں کی وجہ پھیپھڑے درد کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ اکثر جوڑوں اور سانس کی تکلیف کے ساتھ واپس لوٹتے ہیں۔
اب تک ایک شخص اونچائی کی وجہ سے ان بیماریوں کا شکار ہوکر ہلاک ہوچکا ہے۔
پھپھوند کا یہ کاروبار دشمنی کا باعث بھی بن رہا ہے خاص طور پر دو گاؤں جو کہ ایک دوسرے سے ایک پہاڑی قطعہ کی وجہ سے برسر پیکار ہیں جہاں بظاہر یہ پھپھوند کثرت سے ہے۔ یہاں اسے ڈھونڈنے والوں کو اب ہتھیار ساتھ لے کر جانا پڑتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اس پھپھوند کو اکھٹا کرنا قانونی طور پر جائز ہے مگر اس کی فروخت ناجائز ہے جو اسے تلاش کرنے والوں اور بیچنے والوں کے لیے مذید خطرات پیدا کرتا ہے۔
بھارتی ہمالیہ میں ویاگرا کا ’سستا متبادل‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔