بطور صحافی پاکستان میں فوجی افسروں سے بات کرنا ہمیشہ ہی مشکل رہا ہے اور میں نے اس مشکل کا حل یوں نکالا کہ میں ایک مریض کا روپ دھار کر فوجی ڈاکٹر کے پاس چلا گیا۔
یہ فوجی ڈاکٹر لاہور کے سروسز ہسپتال میں ہڑتال کرنے والے ڈاکٹروں کی جگہ کام کررہے ہیں۔
مریض کا روپ دھارنے کی بنیادی وجہ فوجی ڈاکٹروں کا صحافیوں سے گفتگو سے اجتناب کرنا تھا کیونکہ ہسپتال میں موجود ساتھی صحافیوں نے بتایا کہ فوجی ڈاکٹر میڈیا سے بات نہیں کررہے۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی فوجی ڈاکٹرز نظر آئے جن میں سے کچھ یونیفارم اور کچھ سویلین کپڑوں میں ملبوس بیٹھے تھے۔
سویلین کپڑوں میں ملبوس فوجی ڈاکٹروں نے اپنی شاخت کے لیے بازوں پر’پاک آرمی‘ کی پٹی لگائی ہوئی تھی۔
سروسز ہسپتال میں ڈیوٹی دینے والی آرمی کی خواتین ڈاکٹرز اپنی روایتی یونیفارم ’خاکی ساڑھی‘ کی بجائے عام لباس میں دکھائی دیں۔
میرا طبی معائنہ فوجی وردری میں ملبوس باریش ڈاکٹر نے کیا اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے؟
میں نے مرض بتانے کے بجائے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ میں کسی فوجی ڈاکٹر سے میڈیکل چیک اپ کروا رہا ہوں اور ساتھ ہی سوال پوچھ ڈالا کہ آپ کا سرکاری سویلین ہسپتال میں کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟
فوجی ڈاکٹر نے مختصر سا جواب دیا کہ تجربہ اچھا ہے اور میں اس سے پہلے بھی اس قسم کی ڈیوٹی کرچکا ہوں۔
میں نے نسخہ لکھنے کے دوران فوجی ڈاکٹر سے ایک اور سوال کردیا کہ سویلین ہسپتال میں کام کرنا آسان ہے یا ان کے ادارے کے ہسپتالوں میں۔ فوجی ڈاکٹر نے جواب دیا کہ سویلین ہسپتال میں کام کرنا آسان ہے اور یہاں آنے والے مریضوں کی تعداد بھی نسبتاً کم ہے۔
فوجی ڈاکٹر سے مختصر گفتگو کرنے کے بعد میں نے دوبارہ پرچی بنوائی اور ایک دوسرے کمرے کی جانب چلاگیا لیکن یہاں کوئی فوجی ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔
اسی دوران ہسپتال کے ایک ملازم نے بتایا کہ آج جتنے بھی مریض چیک اپ کے لیے ہسپتال آئے ان میں سے تقریباً ہر ایک نے یہ کوشش کی کہ وہ سویلین ڈاکٹر کے بجائے فوجی ڈاکٹر سے اپنا معائنہ کرائے اور یہی وجہ ہے کہ سویلین ڈاکٹر کسی حد تک فارغ بیٹھے رہے۔
جہاں فوجی ڈاکٹروں کے لیے سویلین ہسپتال کا ماحول انجان تھا وہیں یہ فوجی ڈاکٹر خود بھی ہسپتال میں اجنبی لگ رہے تھے۔
ہسپتال کے ایک اہلکار نے بتایا کہ فوجی اور سویلین ڈاکٹر میں ویسے تو کوئی خاص فرق نہیں ہے لیکن فوجی ڈاکٹر مریضوں کا معائنہ کرتے وقت گپپیں نہیں مارتے اور ان کا زیادہ زور مریضوں کے چیک اپ پر رہا۔
کیا فوجی ڈاکٹروں نے سویلین ڈاکٹروں کی نسبت تیزی سے کام کیا اس سوال پر ہسپتال کے اہلکاروں کی رائے منقسم تھی اور ان میں کچھ کا خیال تھا کہ فوجی ڈاکٹر تیزی سے کام کرتے ہیں جبکہ دیگر اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ابھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ آج معمول سے کم رش تھا اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ فوجی ڈاکٹر تیزی سے کام کرتے ہیں یا پھر سویلین۔
فوجی ڈاکٹروں کے ساتھ کام والے ہسپتال کے سویلین اہلکاروں کی رائے جو بھی ہو البتہ مریضوں کو اس بات کا اطمینان تھا کہ ان کا چیک اپ بہت اچھا ہوا اور تسلی سے ان کی بات سنی گئی ہے۔
سروسز ہسپتال کے آوٹ ڈور کے مرکزی گیٹ پر ڈیوٹی دینے والے اہلکار کا کہنا ہے کہ آج مریض بہت خوش گئے ہیں کہ ان کا معائنہ ماہر تجربہ کار فوجی ڈاکٹروں نے کیا۔
فوجی ڈاکٹر جس طرح صبح فوج کی بس کے ذریعے ہسپتال پہنچے تھے بالکل اسی طرح دوپہر کو دوبارہ اکٹھے بس میں سوار ہوکر پولیس سکواڈ کے ساتھ واپس چلے گئے۔
اہلکار کی بات سن کر میرے پاس کھڑے ایک چینل کے رپورٹر نے کہا کہ ہمارے لوگوں کو ’فوجیوں‘ سے دوائی لے کر ہی آرام آتا ہے۔
عام لوگ تو فوجی ڈاکٹروں سے چیک اپ سے مطمئن ہیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ڈیڑھ ہزار سے زائد ڈاکٹروں کی کمی ڈیڑھ سو فوجی ڈاکٹر پورا نہیں کرسکتے۔
’ فوجیوں‘ سے دوائی لے کر ہی آرام آتا ہے