مسلمانوں سے تعلقات کی بات ہو تو آسٹریا کی تاریخ کچھ زیادہ شفاف نہیں لیکن وہاں اسلام کے بارے میں قدیم قانون کو رواداری کی نشانی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اس قانون کے تحت اسلام کے پیروکاروں کو کیتھولک ازم، لوتھرن ازم، جوڈازم اور بدھ ازم جیسے ملک کے سرکاری طور پر تسلیم شدہ مذاہب کے ماننے والوں کے برابر حقوق دیے گئے تھے۔
اختتامِ ہفتہ پر آسٹرین حکام اور ملک کے اسلامی برادری نے اس قانون کے سو سال کی تکمیل پر منعقدہ تقریبات میں شرکت کی۔
اس قانون کے تحت اسلام کے پیروکاروں کو کیتھولک ازم، لوتھرن ازم، جوڈازم اور بدھ ازم جیسے ملک کے سرکاری طور پر تسلیم شدہ مذاہب کے ماننے والوں کے برابر حقوق دیے گئے تھے۔
اختتامِ ہفتہ پر آسٹرین حکام اور ملک کے اسلامی برادری نے اس قانون کے سو سال کی تکمیل پر منعقدہ تقریبات میں شرکت کی۔
یوں اب آسٹریا میں اسلام اب سو سال سے سرکاری طور پر ایک تسلیم شدہ مذہب ہے۔
تاہم یہاں کے زیادہ تر عوام ایک اور تاریخی واقعے کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔ یہ واقعہ سنہ سولہ سو تراسی میں ویانا کا محاصرہ ہے، جب مسلمانوں کی سلطنتِ عثمانیہ کی عیسائیوں کے زیرِ تسلط یورپ کی جانب پیش قدمی روک دی گئی تھی۔
حالیہ چند برس میں آسٹریا کے انتہائی دائیں بازوں کے خیالات کے حامی سیاستدانوں کے اسلام مخالف بیانات شہ سرخیوں میں رہے ہیں۔
باہمی احترام
آسٹریا کی اسلامی برادری اپنے مذہب کے بارے میں اس قانون کو نادر قرار دیتی ہے۔ اس قانون کے تحت مسلمانوں کو ملک میں سرکاری سکولوں میں مذہبی تعلیم کے حصول اور عوامی مقامات پر عبادت کی آزادی سمیت کئی حقوق دیے گئے ہیں۔
ویانا کے نیوگوتھک ٹاؤن ہال میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آسٹریا کی اسلامی برادری کے سربراہ فواد سناک نے اس قانون کو بقیہ یورپ کے لیے ایک مثال قرار دیا اور کہا کہ آسٹریا میں اسلام کو زیادہ تر عوام نے ایک خطرے کے طور پر نہیں دیکھا۔
آسٹریا کے صدر ہینز فشر نے اسی تقریب میں پرامن اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات پر زور دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ آسٹریا کے سرکاری مذاہب اپنے قانونی رتبے کی وجہ سے ملک کے قوانین کا احترام کرنے اور انہیں تسلیم کرنے کے پابند ہیں۔
دارالحکومت ویانا کے کونسلر عمر الراوی کا کہنا تھا کہ یہ قانون مسلمانوں کو آسٹریائی معاشرے میں ضم میں ہونے میں مدد دیتا ہے اور انہیں یہ احساس دیتا ہے کہ معاشرہ انہیں قبول کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اسلام کے بارے میں آسٹریا یورپ میں ایک مثالی نمونہ ہے لیکن آسٹریا کے مسلمان بھی یورپی مسلمانوں کا نمونہ ہیں اور وہ اپنے حقوق و فرائض کے بارے میں جانتے ہیں‘۔
عمر الراوی کے مطابق ’آسٹریائی مسلمان دنیا بھر میں اپنی شناخت بطور آسٹرین کرواتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس ملک سے تعلق رکھتے ہیں جس نے ہمیں احترام، پہچان اور بہت سی سہولیات دیں جو کچھ مسلم ممالک کے عوام کو بھی میسر نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم آسٹرین ہیں‘۔
آسٹریا میں اسلام سے متعلق یہ قانون سنہ انیس سو بارہ میں ہیبسبرگ خاندان کے بادشاہ فرانز جوزف کے دور میں اس وقت لایا گیا تھا جبکہ آسٹریا نے بوسنیا ہرزیگووینا کو اپنی سلطنت میں شامل کیا تھا۔
اس قانون کے نفاذ کی وجہ بوسنیائی مسلم فوجیوں کی آسٹریائی بادشاہ کی فوج میں شمولیت کی راہ ہموار کرنا تھی۔ ابتدائی طور پر اس قانون کے تحت صرف حنفی فرقے کے سنّی مسلمان آتے تھے لیکن بعدازاں اس میں شیعہ اور سنّی دونوں فرقوں کو شامل کر لیا گیا تھا۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب آسٹرین سلطنت کا خاتمہ ہوا تو ملک میں مسلمانوں کی تعداد چند سو رہ گئی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس میں اُس وقت اضافہ شروع ہوا جب انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ترک اور یوگوسلاو کارکن اور پھر نوّے کی دہائی میں بوسنیائی پناہ گزین آسٹریا آئے۔
اس وقت آسٹریا میں تقریباً پانچ لاکھ مسلمان آباد ہیں جو کہ ملک کی کل آبادی کا چھ فیصد ہیں۔ درالحکومت ویانا میں اسلام رومن کیتھولکس کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے۔
آسٹریا کی اسلامی برادری کے مطابق اس وقت ملک میں ساٹھ ہزار مسلمان بچے مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ تعلیم جرمن زبان میں فراہم کی جاتی ہے۔
آسٹریا: اسلام سو برس سے تسلیم شدہ مذہب
آسٹریا کی اسلامی برادری اپنے مذہب کے بارے میں اس قانون کو نادر قرار دیتی ہے۔ اس قانون کے تحت مسلمانوں کو ملک میں سرکاری سکولوں میں مذہبی تعلیم کے حصول اور عوامی مقامات پر عبادت کی آزادی سمیت کئی حقوق دیے گئے ہیں۔
ویانا کے نیوگوتھک ٹاؤن ہال میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آسٹریا کی اسلامی برادری کے سربراہ فواد سناک نے اس قانون کو بقیہ یورپ کے لیے ایک مثال قرار دیا اور کہا کہ آسٹریا میں اسلام کو زیادہ تر عوام نے ایک خطرے کے طور پر نہیں دیکھا۔
آسٹریا کے صدر ہینز فشر نے اسی تقریب میں پرامن اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات پر زور دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ آسٹریا کے سرکاری مذاہب اپنے قانونی رتبے کی وجہ سے ملک کے قوانین کا احترام کرنے اور انہیں تسلیم کرنے کے پابند ہیں۔
دارالحکومت ویانا کے کونسلر عمر الراوی کا کہنا تھا کہ یہ قانون مسلمانوں کو آسٹریائی معاشرے میں ضم میں ہونے میں مدد دیتا ہے اور انہیں یہ احساس دیتا ہے کہ معاشرہ انہیں قبول کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اسلام کے بارے میں آسٹریا یورپ میں ایک مثالی نمونہ ہے لیکن آسٹریا کے مسلمان بھی یورپی مسلمانوں کا نمونہ ہیں اور وہ اپنے حقوق و فرائض کے بارے میں جانتے ہیں‘۔
عمر الراوی کے مطابق ’آسٹریائی مسلمان دنیا بھر میں اپنی شناخت بطور آسٹرین کرواتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس ملک سے تعلق رکھتے ہیں جس نے ہمیں احترام، پہچان اور بہت سی سہولیات دیں جو کچھ مسلم ممالک کے عوام کو بھی میسر نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم آسٹرین ہیں‘۔
آسٹریا میں اسلام سے متعلق یہ قانون سنہ انیس سو بارہ میں ہیبسبرگ خاندان کے بادشاہ فرانز جوزف کے دور میں اس وقت لایا گیا تھا جبکہ آسٹریا نے بوسنیا ہرزیگووینا کو اپنی سلطنت میں شامل کیا تھا۔
اس قانون کے نفاذ کی وجہ بوسنیائی مسلم فوجیوں کی آسٹریائی بادشاہ کی فوج میں شمولیت کی راہ ہموار کرنا تھی۔ ابتدائی طور پر اس قانون کے تحت صرف حنفی فرقے کے سنّی مسلمان آتے تھے لیکن بعدازاں اس میں شیعہ اور سنّی دونوں فرقوں کو شامل کر لیا گیا تھا۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب آسٹرین سلطنت کا خاتمہ ہوا تو ملک میں مسلمانوں کی تعداد چند سو رہ گئی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس میں اُس وقت اضافہ شروع ہوا جب انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ترک اور یوگوسلاو کارکن اور پھر نوّے کی دہائی میں بوسنیائی پناہ گزین آسٹریا آئے۔
اس وقت آسٹریا میں تقریباً پانچ لاکھ مسلمان آباد ہیں جو کہ ملک کی کل آبادی کا چھ فیصد ہیں۔ درالحکومت ویانا میں اسلام رومن کیتھولکس کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے۔
آسٹریا کی اسلامی برادری کے مطابق اس وقت ملک میں ساٹھ ہزار مسلمان بچے مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ تعلیم جرمن زبان میں فراہم کی جاتی ہے۔
آسٹریا: اسلام سو برس سے تسلیم شدہ مذہب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔