سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ منصوبے سے وابستہ سائنسدانوں نے ہگس بوسون یا ’گاڈ پارٹیكل‘ جیسے ذرے کی دریافت کا دعویٰ کیا ہے۔
ہگس بوسون وہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ’سب اٹامک‘ ذرہ ہے جسے اس کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔
سائنسدان گزشتہ پینتالیس برس سے ایسے ذرے کی تلاش میں تھے جس نے یہ واضح ہوسکے کہ مادہ اپنی کمیت کیسے حاصل کرتا ہے اور اس دریافت کا اعلان جنیوا میں ایل ایچ سی سے وابستہ سائنسدانوں کی ٹیم نے کیا۔
گزشتہ دو برس سے سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر بنائی گئی ایک ستائیس کلومیٹر طویل سرنگ میں سائنسدان انتہائی باریک ذرات کو آپس میں ٹکرا کر اس لطیف عنصر کی تلاش کررہے تھے جسے ہگس بوسون یا خدائی عنصر کہا جاتا ہے۔
ایل ایچ سی میں ہگس بوسون کی تلاش کے لیے کیے گئے دونوں تجربات میں اتنی یقینی صورتحال سامنے آئی کہ اسے’دریافت‘ کا درجہ دیا جاسکے۔ تاہم ابھی اس سلسلے میں کام کرنا باقی ہے کہ آیا سائنسدانوں نے جس کا مشاہدہ کیا وہی ہگس بوسون ہے یا نہیں۔
ہگس بوسون کی تھیوری کے خالق پروفیسر پیٹر ہگس ہیں جنہوں نے ساٹھ کے عشرے میں سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا تھا۔ جنیوا میں پریس کانفرنس کے دوران پروفیسر پیٹر ہگس نے کہا کہ ’میں اس دریافت پر ہر اس فرد کو مبارکباد دینا چاہوں گا جو اس کارنامے کا حصہ ہے‘۔
ہگس بوسون وہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ’سب اٹامک‘ ذرہ ہے جسے اس کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔
سائنسدان گزشتہ پینتالیس برس سے ایسے ذرے کی تلاش میں تھے جس نے یہ واضح ہوسکے کہ مادہ اپنی کمیت کیسے حاصل کرتا ہے اور اس دریافت کا اعلان جنیوا میں ایل ایچ سی سے وابستہ سائنسدانوں کی ٹیم نے کیا۔
گزشتہ دو برس سے سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر بنائی گئی ایک ستائیس کلومیٹر طویل سرنگ میں سائنسدان انتہائی باریک ذرات کو آپس میں ٹکرا کر اس لطیف عنصر کی تلاش کررہے تھے جسے ہگس بوسون یا خدائی عنصر کہا جاتا ہے۔
ایل ایچ سی میں ہگس بوسون کی تلاش کے لیے کیے گئے دونوں تجربات میں اتنی یقینی صورتحال سامنے آئی کہ اسے’دریافت‘ کا درجہ دیا جاسکے۔ تاہم ابھی اس سلسلے میں کام کرنا باقی ہے کہ آیا سائنسدانوں نے جس کا مشاہدہ کیا وہی ہگس بوسون ہے یا نہیں۔
ہگس بوسون کی تھیوری کے خالق پروفیسر پیٹر ہگس ہیں جنہوں نے ساٹھ کے عشرے میں سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا تھا۔ جنیوا میں پریس کانفرنس کے دوران پروفیسر پیٹر ہگس نے کہا کہ ’میں اس دریافت پر ہر اس فرد کو مبارکباد دینا چاہوں گا جو اس کارنامے کا حصہ ہے‘۔
پروفیسر پیٹر ہگس
|
انہوں نے کہا کہ ’مجھے حیرت ہے کہ سائنسدانوں نے میری زندگی میں یہ کامیابی حاصل کرلی ہے۔ چالیس سال پہلے تو لوگوں کو یہ معلوم تک نہیں تھا کہ وہ کیا تلاش کررہے ہیں۔ یہ حیرت انگیز پیش رفت ہے‘۔
اس موقع پر ’سرن‘ کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر رالف دائتر ہیوئر کا کہنا تھا کہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے تو میں کہوں گا کہ ’ہم کامیاب ہوگئے ہیں، لیکن ایک سائنسدان کی حیثیت سے مجھے پوچھنا پڑے گا کہ ہم نے کیا تلاش کیا ہے؟ ہمیں ایک ذرہ ملا ہے جسے ہم بوسون کہتے ہیں لیکن ہمیں پتہ لگانا ہے کہ یہ کس قسم کا بوسون ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک تاریخی سنگِ میل ہے لیکن تو ابھی آغاز ہے‘۔
سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے ڈیٹا میں ایک ’اٹھان‘ دیکھی جو کہ ایسا ذرہ تھا جس کا وزن ایک سو پچیس اعشاریہ تین گیگا الیکٹرون وولٹس تھا۔ یہ ذرہ ہر ایٹم کے مرکز میں موجود پروٹون سے ایک سو تینتیس گنا بھاری ہے۔
ان کے مطابق حاصل شدہ ڈیٹا کو جمع کرنے پر فائیو سگما یا پینتیس لاکھ میں سے ایک کی امکانی شرح پر انہیں یہ یقین ہوا کہ جو سگنل انہوں نے دیکھا ہے وہ ظاہر ہوگا۔ تاہم مکمل ڈیٹا ملانے پر یہ امکانی شرح بیس لاکھ میں سے ایک پر آگئی۔
سائنسدانوں کے ترجمان پروفیسر جو انکنڈیلا کے مطابق ’یہ ابتدائی نتائج ہیں لیکن ہم جو ایک سو پچیس گیگا الیکٹرون وولٹس پر فائیو سگما سگنل دیکھ رہے ہیں وہ ڈرامائی ہے۔ یہ درحقیقت ایک نیا ذرہ ہے‘۔
اس موقع پر ’سرن‘ کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر رالف دائتر ہیوئر کا کہنا تھا کہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے تو میں کہوں گا کہ ’ہم کامیاب ہوگئے ہیں، لیکن ایک سائنسدان کی حیثیت سے مجھے پوچھنا پڑے گا کہ ہم نے کیا تلاش کیا ہے؟ ہمیں ایک ذرہ ملا ہے جسے ہم بوسون کہتے ہیں لیکن ہمیں پتہ لگانا ہے کہ یہ کس قسم کا بوسون ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک تاریخی سنگِ میل ہے لیکن تو ابھی آغاز ہے‘۔
سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے ڈیٹا میں ایک ’اٹھان‘ دیکھی جو کہ ایسا ذرہ تھا جس کا وزن ایک سو پچیس اعشاریہ تین گیگا الیکٹرون وولٹس تھا۔ یہ ذرہ ہر ایٹم کے مرکز میں موجود پروٹون سے ایک سو تینتیس گنا بھاری ہے۔
ان کے مطابق حاصل شدہ ڈیٹا کو جمع کرنے پر فائیو سگما یا پینتیس لاکھ میں سے ایک کی امکانی شرح پر انہیں یہ یقین ہوا کہ جو سگنل انہوں نے دیکھا ہے وہ ظاہر ہوگا۔ تاہم مکمل ڈیٹا ملانے پر یہ امکانی شرح بیس لاکھ میں سے ایک پر آگئی۔
سائنسدانوں کے ترجمان پروفیسر جو انکنڈیلا کے مطابق ’یہ ابتدائی نتائج ہیں لیکن ہم جو ایک سو پچیس گیگا الیکٹرون وولٹس پر فائیو سگما سگنل دیکھ رہے ہیں وہ ڈرامائی ہے۔ یہ درحقیقت ایک نیا ذرہ ہے‘۔
ہگس بوسون کو کائنات کا بنیادی تخلیقی جزو سمجھا جاتا ہے اور یہ پارٹیکل فزکس کے اس سٹینڈرڈ ماڈل یا ہدایتی کتابچے کا لاپتہ حصہ ہے۔ یہ سٹینڈرڈ ماڈل کائنات میں عناصر اور قوت کے باہمی رابطے کو بیان کرتا ہے۔
تحقیق سے وابستہ پروفیسر کالر ہیگن کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے فزکس کی ایک بنیادی تھیوری کی تصدیق ہوگی۔ ’یہ تحقیق لمبے عرصے سے جاری تھی، یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی جس سے بہت بڑی حد تک سٹینڈرڈ ماڈل کے سائنسی تصور کی تصدیق ہوجائے گی۔ ہمیں اس ذرے کی تلاش تھی اور ہمارے لیے یہ بےانتہا خوشی کی بات ہے کہ ہم ایک بڑی دریافت کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں‘۔
اگر یہ تصدیق ہوتی ہے کہ نیا دریافت شدہ ذرہ ہگس بوسون ہی ہے تو یہ اس صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافتوں میں سے ایک ہوگی۔ ماہرینِ طبعیات اس ذرے کو سنہ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں پہلی مرتبہ انسان کے چاند پر قدم رکھنے کے برابر قرار دیتے ہیں۔
کائنات کی تخلیق کی وجہ، اہم ذرّے کی تلاش کا دعویٰ
تحقیق سے وابستہ پروفیسر کالر ہیگن کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے فزکس کی ایک بنیادی تھیوری کی تصدیق ہوگی۔ ’یہ تحقیق لمبے عرصے سے جاری تھی، یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی جس سے بہت بڑی حد تک سٹینڈرڈ ماڈل کے سائنسی تصور کی تصدیق ہوجائے گی۔ ہمیں اس ذرے کی تلاش تھی اور ہمارے لیے یہ بےانتہا خوشی کی بات ہے کہ ہم ایک بڑی دریافت کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں‘۔
اگر یہ تصدیق ہوتی ہے کہ نیا دریافت شدہ ذرہ ہگس بوسون ہی ہے تو یہ اس صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافتوں میں سے ایک ہوگی۔ ماہرینِ طبعیات اس ذرے کو سنہ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں پہلی مرتبہ انسان کے چاند پر قدم رکھنے کے برابر قرار دیتے ہیں۔
کائنات کی تخلیق کی وجہ، اہم ذرّے کی تلاش کا دعویٰ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔