بھارتی شہر بالیا میں دریائے گنگا کے کنارے گندم کے لہلاتے کھیتوں کے قریب بوسیدگی کا شکار ایک افتتاحی پتھر چار سال سے زائد عرصے سے طویل ترین شاہرہ کا منصوبہ شروع ہونے کا منتظر ہے۔ مگر یہ انتظار تمام ہوتا نظر نہیں آتا۔
آٹھ لین پر مشتمل بھارت کی اس طویل ترین ایکسپریس وے نے ملک کی ایک انتہائی غریب اور آبادی کے لحاظ سے گنجان آباد ترین ریاست اترپردیش کو ملکی دارالحکومت نئی دہلی سے ملانا ہے۔ اس کی کُل لمبائی 1050 کلومیٹر بنتی ہے۔ گنگا ایکسپریس وے کے حامیوں کے مطابق یہ شاہراہ نہ صرف اترپردیش کی قسمت بدلنے میں معاون ہوگی بلکہ سفر کی طوالت کم ہوجانے کے باعث دو کروڑ سے زائد لوگوں اور علاقائی صنعت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
تاہم اس شاہراہ کی تعمیر کی راہ میں بہت سے مشکلات حائل ہیں۔ اس سڑک کی نذر ہونے والی زمینوں کے مالک کسانوں کی مخالفت کے علاوہ ایک بھارتی عدالت کی طرف سے ماحولیات کو پہنچنے والے متوقع نقصانات کے حوالے سے ایک درخواست پر 2009ء میں جاری کردہ حکم امتناعی بھی اس شاہراہ کی تکمیل کے راستے میں حائل ہے۔
اس شاہراہ کے حوالے سے مشاورت فراہم کرنے والے ادارے ’بین ایک کمپنی‘ سے تعلق رکھنے والے گوپال شرما کے مطابق، ’’یہ ان منصوبوں میں سے ایک ہے جو علاقے کا ترقیاتی نقشہ ہی بدل کر رکھ سکتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنی وہ زمینیں فروخت کرنے پر کیسے راضی کیا جائے جنہیں ان کے آباؤ اجداد کئی صدیوں سے آباد کیے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ ان زمینوں کے عوض مالی فائدہ حاصل کرنے کی بجائے اپنا روایتی لائف اسٹائل جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
بھارت کی طویل ترین شاہراہ، ’ہنوز دلی دور است‘
آٹھ لین پر مشتمل بھارت کی اس طویل ترین ایکسپریس وے نے ملک کی ایک انتہائی غریب اور آبادی کے لحاظ سے گنجان آباد ترین ریاست اترپردیش کو ملکی دارالحکومت نئی دہلی سے ملانا ہے۔ اس کی کُل لمبائی 1050 کلومیٹر بنتی ہے۔ گنگا ایکسپریس وے کے حامیوں کے مطابق یہ شاہراہ نہ صرف اترپردیش کی قسمت بدلنے میں معاون ہوگی بلکہ سفر کی طوالت کم ہوجانے کے باعث دو کروڑ سے زائد لوگوں اور علاقائی صنعت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
تاہم اس شاہراہ کی تعمیر کی راہ میں بہت سے مشکلات حائل ہیں۔ اس سڑک کی نذر ہونے والی زمینوں کے مالک کسانوں کی مخالفت کے علاوہ ایک بھارتی عدالت کی طرف سے ماحولیات کو پہنچنے والے متوقع نقصانات کے حوالے سے ایک درخواست پر 2009ء میں جاری کردہ حکم امتناعی بھی اس شاہراہ کی تکمیل کے راستے میں حائل ہے۔
اس شاہراہ کے حوالے سے مشاورت فراہم کرنے والے ادارے ’بین ایک کمپنی‘ سے تعلق رکھنے والے گوپال شرما کے مطابق، ’’یہ ان منصوبوں میں سے ایک ہے جو علاقے کا ترقیاتی نقشہ ہی بدل کر رکھ سکتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنی وہ زمینیں فروخت کرنے پر کیسے راضی کیا جائے جنہیں ان کے آباؤ اجداد کئی صدیوں سے آباد کیے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ ان زمینوں کے عوض مالی فائدہ حاصل کرنے کی بجائے اپنا روایتی لائف اسٹائل جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
بھارت کی طویل ترین شاہراہ، ’ہنوز دلی دور است‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔