پاکستان میں اس وقت مقبول ترین سیاستدان کرکٹ کے سابق کھلاڑی اور موجودہ "تحریک انصاف" کے رہنما عمران خان ہیں۔ سب سے زیادہ غیر مقبول صدر آصف علی زرداری ہیں۔ سماجی آراء شماری کے معروف امریکی ادارے پیو ریسرچ سنٹر کی پاکستان میں کی گئی تازہ ترین آراء شماری کے نتائج یہی ہیں۔
یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ان نتائج کو دیکھ کر اچنبھا ہوا ہے: زرداری کو پسند کرنے والوں کی شرح 14 % رہی جو گذشتہ برس کی شرح 11% سے کچھ ہی زیادہ ہے لیکن تب کی نسبت جب وہ اس عہدے کے لیے چنے گئے تھے خوفناک حد تک کم ہے کیونکہ یہ شرح تب 64 % تھی۔ دلچسب بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ پیشتر نااہل کردیے جانے والے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی مقبولیت کی شرح 36 % ہے یعنی موجودہ صدر، جن کا کہ گیلانی آخری لمحے تک تحفظ کرتے رہے، کی ریٹنگ سے ڈھائی گنا سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ روس کے انسٹیٹیوٹ برائے تزویری تحقیق کے ایک ماہر بورس وولہونسکی کی اس بارے میں رائے یوں ہے،"ان نتائج کو آنکنے کے لیے مدنظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان میں متنوع گروہ، قبیلے اور برادریاں ہیں اس لیے کسی طرح کی بھی رائے شماری کو آنکنے کی خاطر بہت زیادہ احتیاط برتے جانے کی ضرورت ہے۔ اس قسم کی شرحیں انتخابات پر براہ راست اثرانداز نہیں ہونگی، چاہے وہ 2013 میں ہوں یا معینہ مدت سے قبل اسی برس کے اواخر میں۔
علاوہ ازیں پارلیمانی انتخاب کا اکثریتی نظام اور صدر کا بالواسطہ انتخاب پارٹیوں کے اندر افسرشاہانہ ڈھانچے کے کردار کو کہیں فزوں تر بنا دیتا ہے۔ یوں عمران خان کی ذاتی مقبولیت اور ان کی پارٹی میں کئی نامور سیاستدانون کے شامل ہونے کے باوجود "تحریک انصاف" کی حیثیت اتنی مضبوط نہیں ہے جتنی روائتی پارٹیوں کی، تاحتٰی غیر مقبول صدر زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی۔"
فہرست میں دوسرے مقام پر مقبول ترین سیاستدان، سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی مقبولیت 2009 کی نسبت جب کہ یہ شرح 79% تھی، خاصی گر کر 62% ہوچکی ہے لیکن اس کے باوجود بہت بلند شرح ہے، بورس وولہونسکی کہتے ہیں:"وہ گذشتہ سالوں سے حزب اختلاف میں ہیں اور موجودہ حکومت کے اس بدنام ڈھانچے سے علیحدہ، جس نے ملک کو موجودہ سیاسی بحران سے دوچار کردیا ہے۔ سب سے مضبوط صوبے پنجاب کی بااثر اشرافیہ نواز شریف کے حق میں ہے۔ پھر وہ مغرب اور سب سے بڑی بات یہ کہ امریکہ کی نظر میں خاصے قابل اعتبار سیاستدان ہیں۔ 2006-2007 میں جب پاکستان کے صدر پرویز مشرف کے ساتھ مغرب کے تعلقات زیادہ کشیدہ ہوگئے تھے تب مغربی ذرائع ابلاغ نے ان کی ہی امیدواری کو عوام میں پھیلایا تھا۔ اب جبکہ تعلقات تاریخ میں بدترین حیثیت اختیار کرچکے ہیں، تب نواز شریف واحد شخصیت ہیں جو ان تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ وہ تمام باتیں بھلا دی جائیں، جب ان پر 1990 کی دہائی میں بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے تھے۔"
مذکورہ آراء شماری کے نتائج میں مسلح افواج کی مقبولیت بہت زیادہ پائی گئی ہے جو سول اداروں کی مقبولیت سے کہیں زیادہ ہے، موازنے کے طور پر ذرائع ابلاغ عامہ کی مقبولیت کی شرح 66 %، عدلیہ کی 58 % اور انتظامیہ و پولیس کی محض 24% ہے۔
فوج کے موجودہ سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے لیے کئی مواقع تھے کہ وہ حکومت میں مداخلت کر لیتے لیکن انہوں نے ایک بار بھی ایسے ارادے کا اظہار نہین کیا۔ فوج کی مقبولیت کی انتہائی بلند شرح اس بات کی غمّاز ہے کہ اگر فوج نے کار سرکار میں مداخلت کی تو اسے لوگوں کا اعتماد حاصل ہوگا۔
یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ان نتائج کو دیکھ کر اچنبھا ہوا ہے: زرداری کو پسند کرنے والوں کی شرح 14 % رہی جو گذشتہ برس کی شرح 11% سے کچھ ہی زیادہ ہے لیکن تب کی نسبت جب وہ اس عہدے کے لیے چنے گئے تھے خوفناک حد تک کم ہے کیونکہ یہ شرح تب 64 % تھی۔ دلچسب بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ پیشتر نااہل کردیے جانے والے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی مقبولیت کی شرح 36 % ہے یعنی موجودہ صدر، جن کا کہ گیلانی آخری لمحے تک تحفظ کرتے رہے، کی ریٹنگ سے ڈھائی گنا سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ روس کے انسٹیٹیوٹ برائے تزویری تحقیق کے ایک ماہر بورس وولہونسکی کی اس بارے میں رائے یوں ہے،"ان نتائج کو آنکنے کے لیے مدنظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان میں متنوع گروہ، قبیلے اور برادریاں ہیں اس لیے کسی طرح کی بھی رائے شماری کو آنکنے کی خاطر بہت زیادہ احتیاط برتے جانے کی ضرورت ہے۔ اس قسم کی شرحیں انتخابات پر براہ راست اثرانداز نہیں ہونگی، چاہے وہ 2013 میں ہوں یا معینہ مدت سے قبل اسی برس کے اواخر میں۔
علاوہ ازیں پارلیمانی انتخاب کا اکثریتی نظام اور صدر کا بالواسطہ انتخاب پارٹیوں کے اندر افسرشاہانہ ڈھانچے کے کردار کو کہیں فزوں تر بنا دیتا ہے۔ یوں عمران خان کی ذاتی مقبولیت اور ان کی پارٹی میں کئی نامور سیاستدانون کے شامل ہونے کے باوجود "تحریک انصاف" کی حیثیت اتنی مضبوط نہیں ہے جتنی روائتی پارٹیوں کی، تاحتٰی غیر مقبول صدر زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی۔"
فہرست میں دوسرے مقام پر مقبول ترین سیاستدان، سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی مقبولیت 2009 کی نسبت جب کہ یہ شرح 79% تھی، خاصی گر کر 62% ہوچکی ہے لیکن اس کے باوجود بہت بلند شرح ہے، بورس وولہونسکی کہتے ہیں:"وہ گذشتہ سالوں سے حزب اختلاف میں ہیں اور موجودہ حکومت کے اس بدنام ڈھانچے سے علیحدہ، جس نے ملک کو موجودہ سیاسی بحران سے دوچار کردیا ہے۔ سب سے مضبوط صوبے پنجاب کی بااثر اشرافیہ نواز شریف کے حق میں ہے۔ پھر وہ مغرب اور سب سے بڑی بات یہ کہ امریکہ کی نظر میں خاصے قابل اعتبار سیاستدان ہیں۔ 2006-2007 میں جب پاکستان کے صدر پرویز مشرف کے ساتھ مغرب کے تعلقات زیادہ کشیدہ ہوگئے تھے تب مغربی ذرائع ابلاغ نے ان کی ہی امیدواری کو عوام میں پھیلایا تھا۔ اب جبکہ تعلقات تاریخ میں بدترین حیثیت اختیار کرچکے ہیں، تب نواز شریف واحد شخصیت ہیں جو ان تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ وہ تمام باتیں بھلا دی جائیں، جب ان پر 1990 کی دہائی میں بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے تھے۔"
مذکورہ آراء شماری کے نتائج میں مسلح افواج کی مقبولیت بہت زیادہ پائی گئی ہے جو سول اداروں کی مقبولیت سے کہیں زیادہ ہے، موازنے کے طور پر ذرائع ابلاغ عامہ کی مقبولیت کی شرح 66 %، عدلیہ کی 58 % اور انتظامیہ و پولیس کی محض 24% ہے۔
فوج کے موجودہ سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے لیے کئی مواقع تھے کہ وہ حکومت میں مداخلت کر لیتے لیکن انہوں نے ایک بار بھی ایسے ارادے کا اظہار نہین کیا۔ فوج کی مقبولیت کی انتہائی بلند شرح اس بات کی غمّاز ہے کہ اگر فوج نے کار سرکار میں مداخلت کی تو اسے لوگوں کا اعتماد حاصل ہوگا۔