پاکستان کے صوبہ پنجاب میں پولیس نے ہڑتال کرنے والے نوجوان سرکاری ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے درجنوں ڈاکٹروں کو گرفتار کرلیا ہے۔
پولیس نے رات گئے صوبائی دارالحکومت لاہور سے تین درجن سے زائد ڈاکٹروں کو حراست میں لیا۔
پولیس نے رات گئے صوبائی دارالحکومت لاہور سے تین درجن سے زائد ڈاکٹروں کو حراست میں لیا۔
ہڑتال کرنے والے ڈاکٹروں کی گرفتاری اس وقت عمل میں لائی گئی جب نوجوان
ڈاکٹروں کی تنظیم کا اجلاس ہورہا تھا جس میں ہڑتال کے بارے میں آئندہ کا
لائحہ عمل کا اعلان کیا جانا تھا۔
بی بی سی کے نامہ نگار عبادالحق کے مطابق پولیس نے
رات گئے جن ڈاکٹروں کو حراست میں لیا ہے ان میں نوجوان ڈاکٹروں کی تنظیم
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے اہم عہدیدار شامل نہیں ہے۔ پولیس کی کارروائی سے
قبل ہی تنظیم کے عہدیدار پولیس جل دینے میں کامیاب ہوگئے۔
دوسری طرف ینگ ڈاکٹرز کی گرفتاری کے ردعمل میں
لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں نوجوان ڈاکٹروں نے کام چھوڑ دیا۔ تاہم
حکومت نے فوری طور مبتادل انتظامات کرتے ہوئے سینیئر ڈاکٹروں کو بھی طلب
کرلیا ہے۔
صوبائی دارالحکومت لاہور میں پولیس کی بھاری نفری
نے سروسز ہسپتال کے ڈاکٹرز ہاسٹل کو رات گئے گھیرے میں لے لیا اور عین اس
وقت دھاوا بول دیا جب ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی جنرل کونسل کا اجلاس ہورہا تھا۔
پنجاب میں نوجوان ڈاکٹر گزشتہ دو ہفتوں سے ہڑتال
پر ہیں اور سرکاری ہسپتالو ں میں کام کرنے والے ان نوجوان ڈاکٹروں کا یہ
مطالبہ ہے کہ پنجاب حکومت ان کے سروس سٹرکچر کا اعلان کرے۔
پولیس نے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کی
گرفتاری کے لیے ہاسٹل کے کمروں کے دروازے توڑ دیئے اور جب پولیس کمرے میں
داخل ہوئی تو وہاں موجود ڈاکٹرز پچھلے راستے سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔
ینگ ڈاکٹرزایسوسی ایشن کے اجلاس میں بیس سے زیادہ
رہنما موجود تھے تاہم پولیس اب تک صرف ایک عہدیدار عامر بندیشہ کو گرفتار
کرسکی ہے۔ پولیس نے ہاسٹل میں سرچ آپریشن کیا اور وہاں موجود ڈاکٹروں کو
حراست میں لے کر انہیں شہر کے مختلف تھانوں میں منتقل کردیا ہے۔
ینگ ڈاکٹرزایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے چیف جسٹس
سپریم کورٹ سے حکومتی کارروائی کا نوٹس لینے کا مطالبہ کی ہے۔ تنظیم کے
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان کے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رہے گا۔
ادھر صوبائی مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق کا کہنا ہے
کہ دو ہفتوں سے ہسپتالوں کا نظام مفلوج ہوگیا تھا اور حکومت نے مجبوری میں
یہ قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چودہ دنوں تک نوجوان ڈاکٹروں کو
سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ وہ ہڑتال ختم کردیں۔
انہوں نے بتایاکہ سینئر ڈاکٹروں نے بھی ہڑتالی
ڈاکٹروں کو قائل کرنے کے لیے وزیراعلیْ پنجاب سے مہلت مانگی لیکن نوجوان
ڈاکٹروں نے اپنے سینئر ڈاکٹروں کی بات بھی نہیں مانی۔
خواجہ سلمان رفیق نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے
ہسپتالوں میں معاملات کو معمول کے مطابق چلانے کے لیے بندوبست کرلیا ہے اور
ان کے بقول پیر کے روز سے ہسپتالوں میں معمول کے مطابق کام ہوگا۔
صوبائی مشیر صحت کے مطابق نوجوان ڈاکٹروں کی
اکثریت ہڑتال کی حامی نہیں ہے اور ہر ہسپتال میں آٹھ دس ایسے ڈاکٹرز ہیں جو
دیگر ڈاکٹروں کو ہڑتال پر مجبور کررہے تھے۔
پنجاب حکومت کی درخواست پر فوج کی میڈیکل کور کے ایک سو پچاس ڈاکٹرز بھی آج سے سرکاری ہسپتالوں میں ڈیوٹی دیں گے۔
پنجاب حکومت نے سرکاری ہسپتال میں پیر کے روز پولیس مامور کرنے کا بھی فیصلہ کیا تاکہ کسی ناخوش گوار واقعہ سے بچا جاسکے۔
پنجاب حکومت نے ان چوبیس نوجوان ڈاکٹروں کو برطرف
کردیا ہے جو ایک سال کے لیے ایڈہاک بنیادوں پر کام کررہے تھے۔ ان ڈاکٹروں
پر دیگر ڈاکٹروں کو ہڑتال کےاکسانے کا الزام ہے۔
لاہور کے میو ہسپتال کی ایمرجنسی میں ڈاکٹروں کے
کام چھوڑنے سے ایک بچے کی موت کا مقدمہ بھی ہڑتالی ڈاکٹروں کے خلاف درج کرلیا گیا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔