ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے سرکاری طور پر ترقی پذیر ملکوں میں غربت کے خاتمے کے لئے تعاون کی خبریں تو ملتی رہتی ہیں۔ ان فلاحی منصوبوں میں تعاون کا سلسلہ اب غیر سرکاری سطح پر بھی فروغ پا رہا ہے۔
اس کی تازہ مثال یورپ سے تعلق رکھنے والے وہ نوجوان ہیں جو آج کل پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے رومان لینز اور ہالینڈ کے ڈیوڈ اِکِنک کوہ پیمائی کا شوق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس شوق کو سماجی بھلائی کے کاموں کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے۔ انھوں نے سات بر اعظموں کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ کوہ پیمائی کے دوران ملنے والی شہرت اور وسائل کو وہ فلاحی منصوبوں کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اس کی تازہ مثال یورپ سے تعلق رکھنے والے وہ نوجوان ہیں جو آج کل پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے رومان لینز اور ہالینڈ کے ڈیوڈ اِکِنک کوہ پیمائی کا شوق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس شوق کو سماجی بھلائی کے کاموں کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے۔ انھوں نے سات بر اعظموں کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ کوہ پیمائی کے دوران ملنے والی شہرت اور وسائل کو وہ فلاحی منصوبوں کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
رومان اور ڈیوڈ پاکستان میں چھوٹے قرضوں کے ذریعے غربت کے خاتمے کے لیے جدو جہد کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم اُخوّت کی دعوت پر پاکستان پہنچے ہیں۔ ان کے آٹھ روزہ دورے کا مقصد اُخوّت کی سرگرمیوں اور اس کے فلاحی منصوبوں کے لیے معاونت کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔
لاہور میں اپنے قیام کے دوران ان یورپی نوجوانوں نے اُخوّت سے بلا سود قرضہ حاصل کرنے والوں، اُخوّت کو عطیات دینے والوں اور اُخوّت کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں سے ملاقاتیں کیں۔ لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں انھوں نے اُخوّت کے لیے دو لاکھ روپے کے پہلے عطیے کا بھی اعلان کیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان یورپی نوجوانوں نے ایک غیر سرکاری تنظیم "نو ماونٹین از ٹو ہائی" بھی بنا رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوہ پیمائی کی طرح دنیا میں انسانی بھلا ئی کا کوئی بھی منصوبہ ناممکن نہیں ہے۔ ہر آدمی محنت اور کوشش سے اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئےجرمن نوجوان رومان نے بتایا کہ وہ اور ان کا دوست ڈیوڈ آج کل سٹوڈنٹ ویزے پر امریکا میں مقیم ہیں اور ہاورڈ یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں، انہیں اُخوّت کے بارے میں بوسٹن میں مقیم ایک پاکستانی نوجوان کے ذریعے پتہ چلا تھا۔ ان کے مطابق وہ ترقی پذیر ملکوں میں عوامی بھلائی کے منصوبوں میں معاونت کے خواہاں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ آنے والے دنوں میں مغربی ملکوں میں اُخوّت کے لیے عطیات اکٹھے کریں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چھوٹے قرضوں کے ذریعے غربت کے خاتمے کا اُخوّت کا ماڈل اس وقت امریکا اور برطانیہ کے کئی تعلیمی اداروں میں کیس سٹڈی کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے۔
ڈیوڈ نامی نوجوان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بعض عالمی ذرائع ابلاغ میں پائے جانے والے تاثر کے برعکس انہیں پاکستان کے لوگ محنتی اور مہمان نواز لگے ہیں۔
اخوت کے ڈائریکٹر ہمایوں احسان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یورپی نوجوانوں کا اُخوّت کے ماڈل کو سمجھنے کے لیے پاکستان آنا ان کے لیے خوشی کا باعث ہے اور اس سے اُخوّت کو اپنے کامیاب ماڈل کو دنیا کے سامنے ایک مثال کے طور پر پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔ ہمایوں احسان کے بقول اس طرح کے رابطے مشرق اور مغرب کے لوگوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے اور ان کے مابین فاصلے کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔