پھر اس کے بعد بچھڑنے ہی کون دے گا اسے
کہیں دکھائی تو دے وہ کبھی ملے ہی سہی
کہاں کا زعم ترے سامنے انا کیسی
وقار سے ہی جھکے ہم مگر جھکے تو سہی
جو چپ رہا تو بسا لے گا نفرتیں دل میں
برا بھلا ہی کہے وہ مگر کہے تو سہی
کوئی تو ربط ہو اپنا پرانی قدروں سے
کسی کتاب کا نسخہ کہیں ملے تو سہی
دعائے خیر نہ مانگے کوئی کسی کے لیے
کسی کو دیکھ کے لیکن کوئی جلے تو سہی
جو روشنی نہیں ہوتی نہ ہو بلا سے مگر
سروں سے جبر کا سورج کبھی ڈھلے تو سہی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔