اگر یہ کہا جائے کہ کرسٹیان بیکر مغرب میں اسلام کا ایک ایم ٹی وی ورژن پیش کررہی ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ ایم ٹی وی یورپ میں مغربی انداز کی مقبول عام موسیقی کا ایک سلسلہ چلا رہی ہے۔ ان کی کتاب ’فرام ایم ٹی وی ٹو مکہ‘ اگرچہ تین برس قبل شائع ہوئی تھی مگر برطانیہ کے کچھ مسلم حلقوں نے اس کتب کی تعارفی تقریب کا انعقاد گذشتہ روز برطانوی پارلیمان کے ایک کمیٹی روم میں کیا۔
اس تقریب میں ’فرام ایم ٹی وی ٹو مکہ‘ کا تنقیدی جائزہ خود کرسٹیان بیکر نے پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کتاب میں انھوں نے اسلام کی وہ شکل پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس کے ذریعے مغرب میں اس مذہب کے بارے میں پھیلے ہوئے غلط تاثرات ختم ہوسکیں۔ ان کی کتاب میں مواد کتنا ٹھوس ہے یہ ایک الگ بات ہے مگر ان کا انداز بیاں بہت ہی جاذب ہے۔
کرسٹیان بیکر جن کا اصل وطن جرمنی ہے، انیس سو پچانوے میں مسلمان ہوئی تھیں جس کے بعد، بقول ان کے، انھیں آہستہ آہستہ ایم ٹی وی کے اینکر پرسن کی پوزیشن سے برطرف کردیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد جرمنی میں انھیں کافی تعصب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب وہ اپنے لندن کا شہری ہونے پر فخر کرتی ہیں۔
کرسٹیان بیکر اپنے وقت میں نوجوان نسل کی مقبول اینکر پرسن تھیں جو مغربی موسیقی کی دلدادہ تھیں۔ ان کے بقول وہ شاید اندر سے ہمیشہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتی تھیں مگر اس کا احساس انھیں کافی عرصے کے بعد ہوا۔ ان کے مطابق، وہ دنیا میں روحانیت کی تلاش میں نکلیں اور اسلام کے تصوف سے متاثر ہوئیں جو محبت کا بہترین درس دیتا ہے۔
انھوں نے انکشاف کیا کہ ان کا اسلام سے پہلا تعارف انیس سو بانوے میں اس وقت ہوا جو وہ پاکستان کے اس وقت کے کرکٹ کی دنیا کے سٹار عمران خان کے ساتھ پہلی مرتبہ ڈیٹ پر گئی تھیں۔
اپنی ایم ٹی وی کے دنوں کی مسکراہٹ کے ساتھ جب وہ مکہ کے سفر کا ذکر کرتی ہیں تو ان کے مداح مسلمان اور خاص کر پاکستان کے مسلمان انھیں اسلام کا مغرب میں ’گڈ ول ایمبیسیڈر‘ (خیر سگالی کا سفیر) قرار دیتے ہیں۔ کرسٹیان بیکر صرف مسکراہٹیں بکھیرنا چاہتی ہیں اسی وجہ سے وہ کسی بھی متازع موضوع پر بات کرنے سے گریز کرتی ہیں۔
کرسٹیان بیکر حجاب نہیں پہنتی ہیں تاہم وہ حجاب پہنے والی مسلمان خواتین کے لباس کے حقِ انتخاب کی آزادی کا دفاع کرتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسلام میں مخصوص قسم کے حجاب کا حکم نہیں ہے بلکہ ایک مہذب لباس پہننے کی تاکید ہے لہٰذا اگر کوئی خاتون مغرب میں رہتی ہے اور یہاں عام طور پر مہذب لباس لمبی سکرٹ بھی سمجھا جاتا ہے تو یہ بھی درست ہے۔
’ایم ٹی وی سے مکہ تک‘
اس تقریب میں ’فرام ایم ٹی وی ٹو مکہ‘ کا تنقیدی جائزہ خود کرسٹیان بیکر نے پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کتاب میں انھوں نے اسلام کی وہ شکل پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس کے ذریعے مغرب میں اس مذہب کے بارے میں پھیلے ہوئے غلط تاثرات ختم ہوسکیں۔ ان کی کتاب میں مواد کتنا ٹھوس ہے یہ ایک الگ بات ہے مگر ان کا انداز بیاں بہت ہی جاذب ہے۔
کرسٹیان بیکر جن کا اصل وطن جرمنی ہے، انیس سو پچانوے میں مسلمان ہوئی تھیں جس کے بعد، بقول ان کے، انھیں آہستہ آہستہ ایم ٹی وی کے اینکر پرسن کی پوزیشن سے برطرف کردیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد جرمنی میں انھیں کافی تعصب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب وہ اپنے لندن کا شہری ہونے پر فخر کرتی ہیں۔
کرسٹیان بیکر اپنے وقت میں نوجوان نسل کی مقبول اینکر پرسن تھیں جو مغربی موسیقی کی دلدادہ تھیں۔ ان کے بقول وہ شاید اندر سے ہمیشہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتی تھیں مگر اس کا احساس انھیں کافی عرصے کے بعد ہوا۔ ان کے مطابق، وہ دنیا میں روحانیت کی تلاش میں نکلیں اور اسلام کے تصوف سے متاثر ہوئیں جو محبت کا بہترین درس دیتا ہے۔
انھوں نے انکشاف کیا کہ ان کا اسلام سے پہلا تعارف انیس سو بانوے میں اس وقت ہوا جو وہ پاکستان کے اس وقت کے کرکٹ کی دنیا کے سٹار عمران خان کے ساتھ پہلی مرتبہ ڈیٹ پر گئی تھیں۔
اپنی ایم ٹی وی کے دنوں کی مسکراہٹ کے ساتھ جب وہ مکہ کے سفر کا ذکر کرتی ہیں تو ان کے مداح مسلمان اور خاص کر پاکستان کے مسلمان انھیں اسلام کا مغرب میں ’گڈ ول ایمبیسیڈر‘ (خیر سگالی کا سفیر) قرار دیتے ہیں۔ کرسٹیان بیکر صرف مسکراہٹیں بکھیرنا چاہتی ہیں اسی وجہ سے وہ کسی بھی متازع موضوع پر بات کرنے سے گریز کرتی ہیں۔
کرسٹیان بیکر حجاب نہیں پہنتی ہیں تاہم وہ حجاب پہنے والی مسلمان خواتین کے لباس کے حقِ انتخاب کی آزادی کا دفاع کرتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسلام میں مخصوص قسم کے حجاب کا حکم نہیں ہے بلکہ ایک مہذب لباس پہننے کی تاکید ہے لہٰذا اگر کوئی خاتون مغرب میں رہتی ہے اور یہاں عام طور پر مہذب لباس لمبی سکرٹ بھی سمجھا جاتا ہے تو یہ بھی درست ہے۔
’ایم ٹی وی سے مکہ تک‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔