بھارت کے جسوندر سنگھ سندھان والیا نے اپنے آپ کو ماہاراجہ دولیپ سنگھ کا وارث قرار دیتے ہوئے برطانیہ کے خلاف دنیا کے سب سے بڑے ھیرے کوہ نور کے سلسلے میں ایک مقدمہ دا ئر کرنے کا فیصلا کیا ہے جو ملکہ برطانیہ کے تاج کو سجا رہا ہے- جسوندر سنگھ کے مطابق ان کے اجداد دولیپ سنگھ بچپن میں ہی سب سے زیادہ قیمتی ہیرے و جواہرات انگریزوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اس بارے میں تفصیل ہمارے مبصر گیورگی وانیتسا نے لکھی۔
کوہ نور کے بارے میں بہت سی کہانیاں مشہور ہیں- یہ ہیرا مالوی سرتاجوں کا زیور رہا پھر مغلوں کے پاس رہا- اس کے بعد وہ 1793 میں نادر شاہ کے تاج کی زینت بنا اور حقیقت میں اس کا نام بہی نادر شاہ نے ڈالا- اس کے بعد وہ افغانی امیروں کے قبضہ میں آگیا اور پر مہاراجہ سِکھوں کے- 1848 میں دو سکھ قبیلوں کے درمیان جنگ کی وجہ سے سارے قیمتی جواہرات پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا- 29 مارچ 1849 کے معاہدہ کے بعد جس کو لاہور معاہدہ کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ دولیپ سنگھ اور انگریزی لارڈ دلاہوزی کے درمیان ہوا- اور اسی سال اس کو برطانیہ کی شہزادی کے حوالے کردیا گیا- ابتدا میں یہ ہیرا 186 کیریٹ کا تھا پھر1911 میں شہزادی میری کی تخت نشینی کے وقت اس کو 109 کیریٹ کا کردیا گیا- غرض یہ کہ پچھلے دوروں میں اس ہیرے کے 18 مالک رہ چکے ہیں۔
جسوندر سنگھ کو اس سلسلے میں مقدمہ کرنے کے لئے سب سے پہلے اس ہیرے سے تعلق کو ثابت کرنا ہوگا- اس سلسلے میں وہ 1889 کے خط کا ذکر کررہے ہیں- جسوندر سنگہ کے مطابق ان کا پردادا رشتے کا بھائی تھا اور مہاراجہ کا سوتیلا بیٹا تھا- اس طرح جسوندر سنگھ نے کہا ہے کہ اس سلسلے ميں انڈین کورٹ ان کی مدد کرے گی- اور اگر ان کو یہ واپس مل گیا تو وہ اس کو امرتسر کے گولڈین ٹیمپل کے حوالے کر دیں گے- بھارت میں اس کا بخوشی استقبال کیا جائے گا- واضع رہے کہ کوہ نور کی واپسی کا سوال بھارت میں اکثر اٹھایا جاتا رہا ہے بھارتی پارلیمان میں ایک تحریک بھی شروع کی گئی- لیکن لندن اس کو اور دوسرے قیمتی زیورات واپس کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے- اس بارے میں بھارتی تحقیق کی ماہرہ تاتیانا شاومیان نے کہا کہ بریٹش میوزیم، اور میٹروپولیٹین ایسی اشیا سے بھرے پڑے ہیں جو نوآبدیاتی دور میں مختلف ملکوں سے لے جائے گئے- برطانیہ ان کو شائد ہی واپس کرے گا- بھارت اس کو واپس لے سکے گا، یہ کہنا مشکل ہے- لیکن اگر مصر، یونان، ترکی اور دوسروں کے ساتھ مل کر کوشش کی جائے جن کی نوادرات غائب کی گئی ہیں نوآبادیاتی دور میں اور اگر یہ ممالک ایسی کوئی تحریک شروع کریں گے تب شائد ممکن ہو کہ ان کو اپنی قیمتی نوادرات واپس مل سیکں-
کیا برطانیہ کوہ نور کو آسانی سے لوٹا دے گا؟
کوہ نور کے بارے میں بہت سی کہانیاں مشہور ہیں- یہ ہیرا مالوی سرتاجوں کا زیور رہا پھر مغلوں کے پاس رہا- اس کے بعد وہ 1793 میں نادر شاہ کے تاج کی زینت بنا اور حقیقت میں اس کا نام بہی نادر شاہ نے ڈالا- اس کے بعد وہ افغانی امیروں کے قبضہ میں آگیا اور پر مہاراجہ سِکھوں کے- 1848 میں دو سکھ قبیلوں کے درمیان جنگ کی وجہ سے سارے قیمتی جواہرات پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا- 29 مارچ 1849 کے معاہدہ کے بعد جس کو لاہور معاہدہ کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ دولیپ سنگھ اور انگریزی لارڈ دلاہوزی کے درمیان ہوا- اور اسی سال اس کو برطانیہ کی شہزادی کے حوالے کردیا گیا- ابتدا میں یہ ہیرا 186 کیریٹ کا تھا پھر1911 میں شہزادی میری کی تخت نشینی کے وقت اس کو 109 کیریٹ کا کردیا گیا- غرض یہ کہ پچھلے دوروں میں اس ہیرے کے 18 مالک رہ چکے ہیں۔
جسوندر سنگھ کو اس سلسلے میں مقدمہ کرنے کے لئے سب سے پہلے اس ہیرے سے تعلق کو ثابت کرنا ہوگا- اس سلسلے میں وہ 1889 کے خط کا ذکر کررہے ہیں- جسوندر سنگہ کے مطابق ان کا پردادا رشتے کا بھائی تھا اور مہاراجہ کا سوتیلا بیٹا تھا- اس طرح جسوندر سنگھ نے کہا ہے کہ اس سلسلے ميں انڈین کورٹ ان کی مدد کرے گی- اور اگر ان کو یہ واپس مل گیا تو وہ اس کو امرتسر کے گولڈین ٹیمپل کے حوالے کر دیں گے- بھارت میں اس کا بخوشی استقبال کیا جائے گا- واضع رہے کہ کوہ نور کی واپسی کا سوال بھارت میں اکثر اٹھایا جاتا رہا ہے بھارتی پارلیمان میں ایک تحریک بھی شروع کی گئی- لیکن لندن اس کو اور دوسرے قیمتی زیورات واپس کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے- اس بارے میں بھارتی تحقیق کی ماہرہ تاتیانا شاومیان نے کہا کہ بریٹش میوزیم، اور میٹروپولیٹین ایسی اشیا سے بھرے پڑے ہیں جو نوآبدیاتی دور میں مختلف ملکوں سے لے جائے گئے- برطانیہ ان کو شائد ہی واپس کرے گا- بھارت اس کو واپس لے سکے گا، یہ کہنا مشکل ہے- لیکن اگر مصر، یونان، ترکی اور دوسروں کے ساتھ مل کر کوشش کی جائے جن کی نوادرات غائب کی گئی ہیں نوآبادیاتی دور میں اور اگر یہ ممالک ایسی کوئی تحریک شروع کریں گے تب شائد ممکن ہو کہ ان کو اپنی قیمتی نوادرات واپس مل سیکں-
کیا برطانیہ کوہ نور کو آسانی سے لوٹا دے گا؟