واشنگٹن — آسٹریا سے تعلق رکھنے والے کمپیوٹر پروگرامرز اور ہیکرز کے ایک گروپ نے مختلف آبادیوں میں انٹرنیٹ کے استعمال کو فروغ دینے کا ایک سستا متبادل تیار کرلیا ہے۔
ان پروگرامرز نے اپنے اس نئے نیٹ ورک کو ’فنک فیوور‘ کا نام دیا ہے جس کا جرمن زبان میں مطلب ہے ’نیٹ ورک فائر‘۔ اس وائرلیس نیٹ ورک کی تخلیق میں روزمرہ کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جس کے ذریعے کمپنیوں یا حکومت کی مداخلت کے بعد ایک فرد سے دوسرے کو ڈیٹا منتقل کیا جاسکتا ہے۔
بیشتر صارفین کے لیے انٹرنیٹ بھی فون سروس یا بجلی کی طرح کی ایک ’یوٹیلٹی‘ ہے۔ صارف انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے اپنی فون سروس یا ٹی وی کیبل کمپنی کو رقم ادا کرتے ہیں۔ لیکن ویانا کی چھتوں پہ نصب ’فنک فیوور‘ کے آلات اس معمول کی نظام سے ذرا مختلف ہیں۔
یہ نیٹ ورک ’وائی فائی‘ کی طرح کا ’اوپن ریڈیو سپیکٹرم‘ استعمال کرتے ہوئے وائرلیس انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ لیکن گھروں اور دفاتر میں استعمال ہونے والے روایتی چھوٹے ’وائی فائی‘ نیٹ ورکس کے برخلاف ’فنک فیوور‘ زیادہ وسیع علاقے تک کارآمد ہوتا ہے۔
اس نیٹ ورک کی وسعت کا انحصار اس کے استعمال کرنے والوں پر ہوتا ہے جو ہر دوسرے صارف کے لیے رائوٹر اور اینٹینے کا کام دیتے ہیں۔ اگر کوئی ایک بھی صارف انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہے تو ’فنک فیوور‘ سے جڑے تمام صارفین اس کےذریعے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
کئی لوگ اس ٹیکنالوجی کو حکومتوں کی جانب سے انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی نگرانی اور قدغنوں کے ایک اچھے توڑ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
نیٹ ورک کے خالق ایرون کیپلن کہتے ہیں کہ اس نیٹ ورک کو شٹ ڈائون کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ آپ کو اس کے ایک ایک صارف تک جا کر اس کی انٹرنیٹ تک رسائی منقطع کرنی ہوگی۔
ان کے بقول، ”اس لیے یہ ایک آسان کام نہیں۔ ماضی کی طرح اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ کسی ایک ’آئی ایس پی‘ (انٹرنیٹ سروس پرووائڈر) کے پاس جائیں اور اسے کہیں کہ سسٹم بند کردے۔ اس نیٹ ورک میں ایسا کچھ نہیں ہوسکتا کیوں کہ یہ عدم مرکزیت کا حامل ہے جہاں ہر چیز ایک دوسرے سے جدا آزادانہ حیثیت میں کام کر رہی ہے“۔
اس نیٹ ورک کے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ وہ اسے ایک شہر ہی نہیں بلکہ پورے پورے ملکوں تک توسیع دے سکتے ہیں اور گو کہ یہ کام آسان نہیں، لیکن ایسا کرنا بالکل ممکن ہے۔
آسٹریا میں نئے انٹرنیٹ نیٹ ورک کا تجربہ
ان پروگرامرز نے اپنے اس نئے نیٹ ورک کو ’فنک فیوور‘ کا نام دیا ہے جس کا جرمن زبان میں مطلب ہے ’نیٹ ورک فائر‘۔ اس وائرلیس نیٹ ورک کی تخلیق میں روزمرہ کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جس کے ذریعے کمپنیوں یا حکومت کی مداخلت کے بعد ایک فرد سے دوسرے کو ڈیٹا منتقل کیا جاسکتا ہے۔
بیشتر صارفین کے لیے انٹرنیٹ بھی فون سروس یا بجلی کی طرح کی ایک ’یوٹیلٹی‘ ہے۔ صارف انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے اپنی فون سروس یا ٹی وی کیبل کمپنی کو رقم ادا کرتے ہیں۔ لیکن ویانا کی چھتوں پہ نصب ’فنک فیوور‘ کے آلات اس معمول کی نظام سے ذرا مختلف ہیں۔
یہ نیٹ ورک ’وائی فائی‘ کی طرح کا ’اوپن ریڈیو سپیکٹرم‘ استعمال کرتے ہوئے وائرلیس انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ لیکن گھروں اور دفاتر میں استعمال ہونے والے روایتی چھوٹے ’وائی فائی‘ نیٹ ورکس کے برخلاف ’فنک فیوور‘ زیادہ وسیع علاقے تک کارآمد ہوتا ہے۔
اس نیٹ ورک کی وسعت کا انحصار اس کے استعمال کرنے والوں پر ہوتا ہے جو ہر دوسرے صارف کے لیے رائوٹر اور اینٹینے کا کام دیتے ہیں۔ اگر کوئی ایک بھی صارف انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہے تو ’فنک فیوور‘ سے جڑے تمام صارفین اس کےذریعے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
کئی لوگ اس ٹیکنالوجی کو حکومتوں کی جانب سے انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی نگرانی اور قدغنوں کے ایک اچھے توڑ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
نیٹ ورک کے خالق ایرون کیپلن کہتے ہیں کہ اس نیٹ ورک کو شٹ ڈائون کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ آپ کو اس کے ایک ایک صارف تک جا کر اس کی انٹرنیٹ تک رسائی منقطع کرنی ہوگی۔
ان کے بقول، ”اس لیے یہ ایک آسان کام نہیں۔ ماضی کی طرح اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ کسی ایک ’آئی ایس پی‘ (انٹرنیٹ سروس پرووائڈر) کے پاس جائیں اور اسے کہیں کہ سسٹم بند کردے۔ اس نیٹ ورک میں ایسا کچھ نہیں ہوسکتا کیوں کہ یہ عدم مرکزیت کا حامل ہے جہاں ہر چیز ایک دوسرے سے جدا آزادانہ حیثیت میں کام کر رہی ہے“۔
اس نیٹ ورک کے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ وہ اسے ایک شہر ہی نہیں بلکہ پورے پورے ملکوں تک توسیع دے سکتے ہیں اور گو کہ یہ کام آسان نہیں، لیکن ایسا کرنا بالکل ممکن ہے۔
آسٹریا میں نئے انٹرنیٹ نیٹ ورک کا تجربہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔