یہ دنیا کارخانۂ عجائب ہے۔ یہاں وقت کی رفتار میں گُم ہوتے لمحات انوکھے، پُراسرار واقعات اور تعجب خیز اتفاقات سے گندھے ہوئے ہیں، جو ہمارے لیے تحیر و تجسس کا سامان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں امکانات کبھی معدوم نہیں ہوتے اور زندگی میں ایسے واقعات جنم لیتے ہیں، جن میں عقل کو دخل نہیں ہوتا۔ ہم انھیں اتفاق کے عدسے سے دیکھتے ہیں۔
کاظم پاشا کا نام اور کام کسی تعارف اور حوالے کا محتاج نہیں۔ آپ نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کو اپنی وابستگی کے دوران شان دار سیریلز دیے۔ آپ کے مقبول ترین ڈراموں میں سیڑھیاں، منڈی، جانگلوس، تھوڑا سا آسمان، کشکول، چھاؤں، کشش، الجھن، رات، ریت اور ہوا شامل ہیں۔ آج انھیں رجحان ساز ڈائریکٹر مانا جاتا ہے، رواں برس مارچ کے مہینے میں ڈراما پروڈکشن کے شعبے میں بہترین کارکردگی پر انھیں صدارتی تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا، جب کہ مشہورِ زمانہ ’کیمبرج‘ نے رواں سال انٹلکچوئلز کی اپنی مرتب کردہ فہرست میں ان کا نام اپنے شعبے کے بہترین دماغ کے طور پر شامل کیا، اور ’اعزازی لیٹر‘ ان کے نام بھیجا۔ کاظم پاشا نے اپنی زندگی کے یہ دو واقعات ’بھلا نہ سکے‘ کے لیے ہمیں کچھ یوں سنائے۔
’’یہ 1985 کا واقعہ ہے۔ حج کا موقع تھا اور ہمارے چند قریبی عزیز عازمینِ حج کے ایک گروپ کے ساتھ کعبۃ اﷲ کے طواف کی غرض سے جارہے تھے۔ میرے والد اُن دنوں بیمار تھے اور والدہ حج کی سعادت حاصل کرنے کی آرزو مند تھیں۔ ہم نے انھیں عازمینِ حج کے اُس کارواں کے ساتھ کردیا، جس میں ہمارے رشتے دار بھی شامل تھے۔
مقررہ تاریخ پر تمام افراد سرزمینِ حجاز کے لیے روانہ ہوئے اور خیریت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ یہاں میری یادداشت ساتھ نہیں دے رہی، شاید، تیسرا دن تھا جب یہ اطلاع ملی کہ میری والدہ وہاں پہنچنے کے بعد لاپتا ہوگئی ہیں۔‘‘
’’گھر کا ہر فرد والدہ کے لیے فکر مند تھا، میرے بھائی ان دنوں ’قطر‘ میں تھے، انھیں اس واقعے کے بارے میں بتایا، سعودی عرب میں مقیم اپنے رشتے داروں، احباب سے رابطہ کرکے اپنی والدہ کو تلاش کرنے کی درخواست کی۔‘‘
والدہ کی گُم شدگی پر کاظم پاشا کا سخت ذہنی اذیت اور فکر میں مبتلا ہونا فطری امر تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تشویش بڑھتی جارہی تھی۔
طوافِ کعبہ، دیگر عبادات اور اس عظیم الشان اجتماع سے متعلق انتظامات کی دنیا بھر میں ذرایع ابلاغ کی بدولت تشہیر ہوتی ہے اور اُس مرتبہ بھی ٹیلی ویژن چینلز پر عازمینِ حج سے متعلق رپورٹس نشر کی جارہی تھیں۔ اپنی والدہ کی گُم شدگی پر دل گیر کاظم پاشا کے لیے حج سے متعلق روزناموں کی ہر خبر اور ٹیلی ویژن رپورٹ اہمیت حاصل کر گئی تھی اور ایک روز عجیب اتفاق ہوا، جس کا انھیں گمان تک نہ تھا!
اُس روز ٹیلی ویژن پر کیمرے کی آنکھ سے مکّہ میں ہر طرف ہجوم، گلیوں، بازاروں میں بھیڑ اور انتظامات کے مناظر دکھائے جارہے تھے، جو پاکستان میں بیٹھے کاظم پاشا اور ان کی اہلیہ کی نظروں سے گزر رہے تھے، اسی رپورٹ میں خیموں سے سجا ہوا عرفات کا میدان دکھایا گیا، وہاں سیکڑوں چہروں سے گزرتی ہوئی کیمرے کی آنکھ ایک خاتون پر جا کر ٹھیر گئی، اور ’کلوز اپ‘ لیا، یہ کاظم پاشا کی والدہ تھیں!!
وہ بتاتے ہیں،’’ہم نے اُنھیں اسکرین پر دیکھا، اور جانیے کہ زندگی ہماری طرف لوٹ آئی۔ میں نے فوراً سعودی عرب میں اپنے ایک عزیز کو اس بارے میں بتایا، وہ انھیں خیموں میں تلاش کرنے نکلے جو کہ ایک انتہائی مشکل کام تھا، اس سلسلے میں انھوں نے وہاں پاکستانی عازمینِ حج کے کاؤنٹر سے رابطہ کیا اور ان سے مدد چاہی، لیکن والدہ تک نہیں پہنچ سکے۔ امید ٹونٹے لگی تھی۔ تاہم انھیں صحیح سلامت دیکھ کر قدرے اطمینان ضرور ہوگیا تھا اور میں خیال کررہا تھا کہ تھوڑی کوشش کرکے ہم ان کا کھوج لگا لیں گے۔‘‘
وہ عجیب لمحات تھے، نہایت عجیب اور متضاد کیفیات سے لبریز، والدہ کو صحیح سلامت دیکھ لینے پر خوشی، مکّہ میں ان کی موجودگی کا اطمینان اور دوسری طرف اس جگہ تلاش کے باوجود ان کا نہ ملنا میری پریشانی بڑھا رہا تھا۔ اہلِ خانہ کا بھی یہی حال تھا کہ اسی عرصے میں شہرِ مدینہ سے میرے ایک کزن کی فون کال موصول ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ والدہ اُن کے ساتھ ہیں اور خیریت سے ہیں اور یوں میں اُن کیفیات سے آزاد ہوا۔
مجھے آج بھی اس بات پر حیرت ہے کہ کیمرے نے میری ہی والدہ کو ’کلوز اپ‘ کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہر سال عازمین حج کی تعداد پچیس لاکھ تک جا پہنچتی ہے اور میدانِ عرفات دنیا بھر کے مسلمانوں سے آباد ہوتا ہے، لیکن اُس روز کیمرے کا لاکھوں کے مجمع میں ایک ایسی خاتون پر جا کر ٹھیرنا، جو اپنے اہلِ خانہ کے لیے ’لاپتا‘ تھیں، شاید، کسی کے نزدیک محض اتفاق ہو، لیکن میں اسے ’غیبی تسلی‘ تصور کرتا ہوں۔ اس عجیب اور غیرمتوقع صورتِ حال کا تانا بانا قدرت نے مجھے اس بے سکونی اور پریشانی سے نجات دلانے کے لیے بنا تھا، جو والدہ کی گُم شدگی کے باعث تھی۔‘‘
کاظم پاشا کے مطابق والدہ سے بعد میں اس پر بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ انھیں اس تمام عرصے میں اپنے گروپ کے اراکین سے بچھڑ جانے کا احساس تک نہ تھا۔ وہ خیمہ گاہ سے مدینہ جانے کے ارادے سے نکلی تھیں اور ایک بس کے ذریعے مسجدِ نبوی پہنچ گئیں، جہاں ایک اور اتفاق نے جنم لیا۔ وہاں اُن کی نظر کاظم پاشا کے کزن پر پڑی، جنھیں انھوں نے خود آواز دے کر اپنی جانب متوجہ کیا، اور یوں وہ کاظم پاشا اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے ’گُم شدہ‘ نہ رہیں۔
کاظم پاشا نے اپنی زندگی کا ایک اور واقعہ کچھ یوں سنایا۔
’’ پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے میری تعیناتی کوئٹہ میں تھی۔ ایک روز رات کے وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف میری اہلیہ تھیں، جو ایک روز قبل ہی کوئٹہ سے کراچی گئی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ دورانِ نماز تخت سے گرنے کے بعد میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ سن کر میں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور کوئٹہ میں اپنے جنرل مینیجر کو اس کی اطلاع دی۔ وہ مجھے اپنے گھر لے گئے اور اس موقعے پر میری غم گساری کی۔
مجھے والدہ کی تدفین پر کراچی جانا تھا اور یہ فوری نوعیت کا معاملہ تھا۔ صبح کا وقت ہورہا تھا، میں سیٹ بک کروانے کے لیے اپنے جی ایم کے ساتھ ایئرپورٹ گیا، لیکن اس روز موسم انتہائی خراب تھا۔ ابر اور شدید دھند کی وجہ سے فضائی آپریشن میں دشواری کا سامنا تھا، مجھے بتایا گیا کہ ’سیٹ‘ نہیں ہے۔ میں غم سے نڈھال تھا اور اس بات نے مجھے پریشانی اور کرب میں مبتلا کردیا۔ میرے ساتھ موجود جی ایم صاحب نے میری ہمت بندھائی اور کہا کہ مایوس نہ ہوں۔ مجھے کوئی امید، کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا، لیکن جی ایم کوششوں میں مصروف رہے اور ان کی بھاگ دوڑ رنگ لائی، مجھے ’سیٹ‘ مل گئی، لیکن فلائٹ کی روانگی مطلع صاف ہونے سے مشروط تھی۔
میں آب دیدہ بیٹھا ہوا تھا، والدہ کا چہرہ میری نظروں کے سامنے تھا، ان کی باتیں یاد آرہی تھیں۔ اسی دکھ اور پریشانی کے عالم میں کافی وقت گزر گیا اور میری بے چینی بڑھ رہی تھی، کیوں کہ دو مرتبہ مسافر بس جہاز سے لگی اور پھر اسے واپس کردیا گیا، دراصل خراب موسم کی وجہ سے جہاز کو پرواز کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا۔ اُس بار موسم کی خرابی کے باعث جہاز کے پرواز نہ کرنے کا اعلان سُننے کے بعد میرے دل سے دُعا نکلی کہ پروردگار تُو میرے کراچی جانے کی کوئی سبیل کردے، اس گھڑی میرا ہاتھ تھام لے کہ میں اپنی ماں کو لحد میں اتار سکوں۔‘‘
اس دعا کے ساتھ وقت کچھ اور آگے بڑھ گیا، اس اناؤنسمینٹ کے بعد کپتان سمیت فضائی عملے کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔ تھوڑا وقت مزید گزرا تھا کہ کپتان کی آواز سنائی دی۔ اس مرتبہ ڈھارس بندھاتے اور امید جگاتے الفاظ کاظم پاشا کی سماعت سے ٹکرائے تھے۔ پرواز کی اجازت مل گئی تھی۔
ان لمحوں کی بابت کاظم پاشا بتاتے ہیں، ’’وہ قبولیت کی گھڑی تھی، میرے دعا مانگنے کے چند ہی لمحوں کے بعد کپتان نے کراچی کے لیے پرواز کرنے کا اعلان کردیا۔ فلائٹ پرواز کر گئی، دورانِ سفر میں نے سبّی سے گزرتے ہوئے باہر کی طرف دیکھا تو ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی۔ موسم بہت خراب تھا، لیکن وہ فلائٹ تمام مسافروں کے ساتھ بہ خیریت کراچی پہنچی۔ کراچی میں ایئرپورٹ پر میرے ایک عزیز موجود تھے، جن کے ساتھ سیدھا قبرستان پہنچا۔ وہاں میری والدہ کا جنازہ موجود تھا۔ میں باری تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے میری دعا قبول کی اور مجھے وقت پر کراچی پہنچ کر اپنی والدہ کا آخری دیدار کرنے اور انھیں اپنے ہاتھوں سے قبر میں اُتارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
ٹی وی کیمرے کی آنکھ نے لاپتا والدہ کو ڈھونڈ لیا
کاظم پاشا کا نام اور کام کسی تعارف اور حوالے کا محتاج نہیں۔ آپ نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کو اپنی وابستگی کے دوران شان دار سیریلز دیے۔ آپ کے مقبول ترین ڈراموں میں سیڑھیاں، منڈی، جانگلوس، تھوڑا سا آسمان، کشکول، چھاؤں، کشش، الجھن، رات، ریت اور ہوا شامل ہیں۔ آج انھیں رجحان ساز ڈائریکٹر مانا جاتا ہے، رواں برس مارچ کے مہینے میں ڈراما پروڈکشن کے شعبے میں بہترین کارکردگی پر انھیں صدارتی تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا، جب کہ مشہورِ زمانہ ’کیمبرج‘ نے رواں سال انٹلکچوئلز کی اپنی مرتب کردہ فہرست میں ان کا نام اپنے شعبے کے بہترین دماغ کے طور پر شامل کیا، اور ’اعزازی لیٹر‘ ان کے نام بھیجا۔ کاظم پاشا نے اپنی زندگی کے یہ دو واقعات ’بھلا نہ سکے‘ کے لیے ہمیں کچھ یوں سنائے۔
’’یہ 1985 کا واقعہ ہے۔ حج کا موقع تھا اور ہمارے چند قریبی عزیز عازمینِ حج کے ایک گروپ کے ساتھ کعبۃ اﷲ کے طواف کی غرض سے جارہے تھے۔ میرے والد اُن دنوں بیمار تھے اور والدہ حج کی سعادت حاصل کرنے کی آرزو مند تھیں۔ ہم نے انھیں عازمینِ حج کے اُس کارواں کے ساتھ کردیا، جس میں ہمارے رشتے دار بھی شامل تھے۔
مقررہ تاریخ پر تمام افراد سرزمینِ حجاز کے لیے روانہ ہوئے اور خیریت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ یہاں میری یادداشت ساتھ نہیں دے رہی، شاید، تیسرا دن تھا جب یہ اطلاع ملی کہ میری والدہ وہاں پہنچنے کے بعد لاپتا ہوگئی ہیں۔‘‘
’’گھر کا ہر فرد والدہ کے لیے فکر مند تھا، میرے بھائی ان دنوں ’قطر‘ میں تھے، انھیں اس واقعے کے بارے میں بتایا، سعودی عرب میں مقیم اپنے رشتے داروں، احباب سے رابطہ کرکے اپنی والدہ کو تلاش کرنے کی درخواست کی۔‘‘
والدہ کی گُم شدگی پر کاظم پاشا کا سخت ذہنی اذیت اور فکر میں مبتلا ہونا فطری امر تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تشویش بڑھتی جارہی تھی۔
طوافِ کعبہ، دیگر عبادات اور اس عظیم الشان اجتماع سے متعلق انتظامات کی دنیا بھر میں ذرایع ابلاغ کی بدولت تشہیر ہوتی ہے اور اُس مرتبہ بھی ٹیلی ویژن چینلز پر عازمینِ حج سے متعلق رپورٹس نشر کی جارہی تھیں۔ اپنی والدہ کی گُم شدگی پر دل گیر کاظم پاشا کے لیے حج سے متعلق روزناموں کی ہر خبر اور ٹیلی ویژن رپورٹ اہمیت حاصل کر گئی تھی اور ایک روز عجیب اتفاق ہوا، جس کا انھیں گمان تک نہ تھا!
اُس روز ٹیلی ویژن پر کیمرے کی آنکھ سے مکّہ میں ہر طرف ہجوم، گلیوں، بازاروں میں بھیڑ اور انتظامات کے مناظر دکھائے جارہے تھے، جو پاکستان میں بیٹھے کاظم پاشا اور ان کی اہلیہ کی نظروں سے گزر رہے تھے، اسی رپورٹ میں خیموں سے سجا ہوا عرفات کا میدان دکھایا گیا، وہاں سیکڑوں چہروں سے گزرتی ہوئی کیمرے کی آنکھ ایک خاتون پر جا کر ٹھیر گئی، اور ’کلوز اپ‘ لیا، یہ کاظم پاشا کی والدہ تھیں!!
وہ بتاتے ہیں،’’ہم نے اُنھیں اسکرین پر دیکھا، اور جانیے کہ زندگی ہماری طرف لوٹ آئی۔ میں نے فوراً سعودی عرب میں اپنے ایک عزیز کو اس بارے میں بتایا، وہ انھیں خیموں میں تلاش کرنے نکلے جو کہ ایک انتہائی مشکل کام تھا، اس سلسلے میں انھوں نے وہاں پاکستانی عازمینِ حج کے کاؤنٹر سے رابطہ کیا اور ان سے مدد چاہی، لیکن والدہ تک نہیں پہنچ سکے۔ امید ٹونٹے لگی تھی۔ تاہم انھیں صحیح سلامت دیکھ کر قدرے اطمینان ضرور ہوگیا تھا اور میں خیال کررہا تھا کہ تھوڑی کوشش کرکے ہم ان کا کھوج لگا لیں گے۔‘‘
وہ عجیب لمحات تھے، نہایت عجیب اور متضاد کیفیات سے لبریز، والدہ کو صحیح سلامت دیکھ لینے پر خوشی، مکّہ میں ان کی موجودگی کا اطمینان اور دوسری طرف اس جگہ تلاش کے باوجود ان کا نہ ملنا میری پریشانی بڑھا رہا تھا۔ اہلِ خانہ کا بھی یہی حال تھا کہ اسی عرصے میں شہرِ مدینہ سے میرے ایک کزن کی فون کال موصول ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ والدہ اُن کے ساتھ ہیں اور خیریت سے ہیں اور یوں میں اُن کیفیات سے آزاد ہوا۔
مجھے آج بھی اس بات پر حیرت ہے کہ کیمرے نے میری ہی والدہ کو ’کلوز اپ‘ کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہر سال عازمین حج کی تعداد پچیس لاکھ تک جا پہنچتی ہے اور میدانِ عرفات دنیا بھر کے مسلمانوں سے آباد ہوتا ہے، لیکن اُس روز کیمرے کا لاکھوں کے مجمع میں ایک ایسی خاتون پر جا کر ٹھیرنا، جو اپنے اہلِ خانہ کے لیے ’لاپتا‘ تھیں، شاید، کسی کے نزدیک محض اتفاق ہو، لیکن میں اسے ’غیبی تسلی‘ تصور کرتا ہوں۔ اس عجیب اور غیرمتوقع صورتِ حال کا تانا بانا قدرت نے مجھے اس بے سکونی اور پریشانی سے نجات دلانے کے لیے بنا تھا، جو والدہ کی گُم شدگی کے باعث تھی۔‘‘
کاظم پاشا کے مطابق والدہ سے بعد میں اس پر بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ انھیں اس تمام عرصے میں اپنے گروپ کے اراکین سے بچھڑ جانے کا احساس تک نہ تھا۔ وہ خیمہ گاہ سے مدینہ جانے کے ارادے سے نکلی تھیں اور ایک بس کے ذریعے مسجدِ نبوی پہنچ گئیں، جہاں ایک اور اتفاق نے جنم لیا۔ وہاں اُن کی نظر کاظم پاشا کے کزن پر پڑی، جنھیں انھوں نے خود آواز دے کر اپنی جانب متوجہ کیا، اور یوں وہ کاظم پاشا اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے ’گُم شدہ‘ نہ رہیں۔
کاظم پاشا نے اپنی زندگی کا ایک اور واقعہ کچھ یوں سنایا۔
’’ پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے میری تعیناتی کوئٹہ میں تھی۔ ایک روز رات کے وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف میری اہلیہ تھیں، جو ایک روز قبل ہی کوئٹہ سے کراچی گئی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ دورانِ نماز تخت سے گرنے کے بعد میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ سن کر میں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور کوئٹہ میں اپنے جنرل مینیجر کو اس کی اطلاع دی۔ وہ مجھے اپنے گھر لے گئے اور اس موقعے پر میری غم گساری کی۔
مجھے والدہ کی تدفین پر کراچی جانا تھا اور یہ فوری نوعیت کا معاملہ تھا۔ صبح کا وقت ہورہا تھا، میں سیٹ بک کروانے کے لیے اپنے جی ایم کے ساتھ ایئرپورٹ گیا، لیکن اس روز موسم انتہائی خراب تھا۔ ابر اور شدید دھند کی وجہ سے فضائی آپریشن میں دشواری کا سامنا تھا، مجھے بتایا گیا کہ ’سیٹ‘ نہیں ہے۔ میں غم سے نڈھال تھا اور اس بات نے مجھے پریشانی اور کرب میں مبتلا کردیا۔ میرے ساتھ موجود جی ایم صاحب نے میری ہمت بندھائی اور کہا کہ مایوس نہ ہوں۔ مجھے کوئی امید، کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا، لیکن جی ایم کوششوں میں مصروف رہے اور ان کی بھاگ دوڑ رنگ لائی، مجھے ’سیٹ‘ مل گئی، لیکن فلائٹ کی روانگی مطلع صاف ہونے سے مشروط تھی۔
میں آب دیدہ بیٹھا ہوا تھا، والدہ کا چہرہ میری نظروں کے سامنے تھا، ان کی باتیں یاد آرہی تھیں۔ اسی دکھ اور پریشانی کے عالم میں کافی وقت گزر گیا اور میری بے چینی بڑھ رہی تھی، کیوں کہ دو مرتبہ مسافر بس جہاز سے لگی اور پھر اسے واپس کردیا گیا، دراصل خراب موسم کی وجہ سے جہاز کو پرواز کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا۔ اُس بار موسم کی خرابی کے باعث جہاز کے پرواز نہ کرنے کا اعلان سُننے کے بعد میرے دل سے دُعا نکلی کہ پروردگار تُو میرے کراچی جانے کی کوئی سبیل کردے، اس گھڑی میرا ہاتھ تھام لے کہ میں اپنی ماں کو لحد میں اتار سکوں۔‘‘
اس دعا کے ساتھ وقت کچھ اور آگے بڑھ گیا، اس اناؤنسمینٹ کے بعد کپتان سمیت فضائی عملے کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔ تھوڑا وقت مزید گزرا تھا کہ کپتان کی آواز سنائی دی۔ اس مرتبہ ڈھارس بندھاتے اور امید جگاتے الفاظ کاظم پاشا کی سماعت سے ٹکرائے تھے۔ پرواز کی اجازت مل گئی تھی۔
ان لمحوں کی بابت کاظم پاشا بتاتے ہیں، ’’وہ قبولیت کی گھڑی تھی، میرے دعا مانگنے کے چند ہی لمحوں کے بعد کپتان نے کراچی کے لیے پرواز کرنے کا اعلان کردیا۔ فلائٹ پرواز کر گئی، دورانِ سفر میں نے سبّی سے گزرتے ہوئے باہر کی طرف دیکھا تو ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی۔ موسم بہت خراب تھا، لیکن وہ فلائٹ تمام مسافروں کے ساتھ بہ خیریت کراچی پہنچی۔ کراچی میں ایئرپورٹ پر میرے ایک عزیز موجود تھے، جن کے ساتھ سیدھا قبرستان پہنچا۔ وہاں میری والدہ کا جنازہ موجود تھا۔ میں باری تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے میری دعا قبول کی اور مجھے وقت پر کراچی پہنچ کر اپنی والدہ کا آخری دیدار کرنے اور انھیں اپنے ہاتھوں سے قبر میں اُتارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
ٹی وی کیمرے کی آنکھ نے لاپتا والدہ کو ڈھونڈ لیا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔