23 سالہ زویا اس کے چار کزن اور پھوپی کی لاشیں ایدھی سرد خانے میں موجود ہیں، لیکن ان ناقابل شناخت لاشوں میں سے ایک ہی خاندان کے چھ لوگوں کی لاشیں کون سی ہیں یہ پتہ نہیں چل سکا ہے۔
سول ہسپتال میں قائم ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے جمعرات کو زویا کے والد حشمت علی بھی آئے تھے جہاں ان کے خون کا نمونہ حاصل کیا گیا۔ حشمت علی حیدر آباد کے قریب واقعے کوٹری شہر میں رہتے ہیں۔ انہیں اس واقعے کے بارے میں بدھ کی صبح معلوم ہوا تھا اس وقت وہ فیکٹری میں ملازمت پر تھے جہاں سے وہ گھر پہنچے اور بیوی کو لے کر کراچی پہنچ گئے۔
حشمت علی کے مطابق وہ جب فیکٹری پہنچے تو آگ لگی ہوئی تھی اندر ان کی بیٹی زویا، تین بھتیجیاں، بھتیجا اور بہن موجود تھیں، بھتیجا آگ لگنے کے بعد اپنی بہنوں کو بچانے گیا تھا اور خود بھی موت کے منہ میں چلا گیا۔
حشمت علی کے بھائی تین سال پہلے کوٹری سے بلدیہ ٹاؤن منتقل ہوئے تھے جن کے ساتھ ان کی بیٹی زویا بھی آگئی اس نے اپنے کزن کے ساتھ اس فیکٹری میں ملازمت اختیار کرلی۔ بی اے پاس زویا حشمت علی کی بڑی اولاد تھیں۔ ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں چھوٹی ہیں، مزدور والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے اس نے یہ ملازمت اختیار کی تھی جہاں سے اسے آٹھ ہزار روپے ملا کرتے تھے۔
حشمت علی کے مطابق انہوں نے فیکٹری دیکھی ہے، جو پوری بند تھی گیٹ پر بھی تالا لگا دیا تھا، جس کا کوئی جواز نہ تھا۔ ’اب عورتیں کہاں سے بھاگتیں، اس صورت حال میں مرد ہی نہیں بھاگ سکتے وہ لڑکی کہاں بھاگ سکی ہوگی وہ تو اوپر والی منزل پر تھی۔‘ حشمت علی واقعے کو لاپرواہی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر حکام دیوار توڑ دیتے تو کافی زندگیاں بچ سکتی تھیں اور آگ بجھانے والے بھی پہنچ سکتے تھے۔
زویا عید پر اپنے گھر آئیں تھیں جس کے بعد والدین سے ٹیلیفون پر رابطہ رہتا تھا۔ حشمت علی کے مطابق واقعے سے ایک روز پہلے زویا نے ان سے رابطہ کرکے کہا تھا کہ ’بابا میں تمہارے پاس آنا چاہتی ہوں میں نے کہا کہ آ جاؤ اسی دوران فیکٹری میں کام بڑھ گیا اور اسے چھٹی نہیں مل سکی‘۔
غلام رسول کو اپنے بھانجے 18 سالہ محمد طفیل کی لاش کی تلاش ہے، وہ ہسپتالوں اور مردہ خانوں کا چکر لگا کر تھک چکے ہیں طفیل کو اس کارخانے میں ملازمت پر سات دن ہوئے تھے جہاں انہیں چھ ہزار تنخواہ ملنی تھی۔
طفیل کے ماموں غلام رسول کا کہنا ہے کہ ہسپتال والے کہہ رہے ہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ کروالیں تو پھر ہی شناخت ہوسکتی ہے کیوں کہ بہت سی لاشیں مسخ ہوچکی ہیں۔
محمد طفیل کا ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں، والد ضعیف العمر ہونے کی وجہ سے کام نہیں کرسکتے۔ بڑے بھائی بھی پچھلے دنوں ملازمت سے فارغ کردیے گئے تھے۔ غلام رسول کے مطابق طفیل بے روزگار تھا تو ایک دوست نے کہا کہ میں فیکٹری میں لگا دیتا ہوں۔
بابا میں آنا چاہتی ہوں
سول ہسپتال میں قائم ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے جمعرات کو زویا کے والد حشمت علی بھی آئے تھے جہاں ان کے خون کا نمونہ حاصل کیا گیا۔ حشمت علی حیدر آباد کے قریب واقعے کوٹری شہر میں رہتے ہیں۔ انہیں اس واقعے کے بارے میں بدھ کی صبح معلوم ہوا تھا اس وقت وہ فیکٹری میں ملازمت پر تھے جہاں سے وہ گھر پہنچے اور بیوی کو لے کر کراچی پہنچ گئے۔
حشمت علی کے مطابق وہ جب فیکٹری پہنچے تو آگ لگی ہوئی تھی اندر ان کی بیٹی زویا، تین بھتیجیاں، بھتیجا اور بہن موجود تھیں، بھتیجا آگ لگنے کے بعد اپنی بہنوں کو بچانے گیا تھا اور خود بھی موت کے منہ میں چلا گیا۔
حشمت علی کے بھائی تین سال پہلے کوٹری سے بلدیہ ٹاؤن منتقل ہوئے تھے جن کے ساتھ ان کی بیٹی زویا بھی آگئی اس نے اپنے کزن کے ساتھ اس فیکٹری میں ملازمت اختیار کرلی۔ بی اے پاس زویا حشمت علی کی بڑی اولاد تھیں۔ ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں چھوٹی ہیں، مزدور والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے اس نے یہ ملازمت اختیار کی تھی جہاں سے اسے آٹھ ہزار روپے ملا کرتے تھے۔
حشمت علی کے مطابق انہوں نے فیکٹری دیکھی ہے، جو پوری بند تھی گیٹ پر بھی تالا لگا دیا تھا، جس کا کوئی جواز نہ تھا۔ ’اب عورتیں کہاں سے بھاگتیں، اس صورت حال میں مرد ہی نہیں بھاگ سکتے وہ لڑکی کہاں بھاگ سکی ہوگی وہ تو اوپر والی منزل پر تھی۔‘ حشمت علی واقعے کو لاپرواہی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر حکام دیوار توڑ دیتے تو کافی زندگیاں بچ سکتی تھیں اور آگ بجھانے والے بھی پہنچ سکتے تھے۔
زویا عید پر اپنے گھر آئیں تھیں جس کے بعد والدین سے ٹیلیفون پر رابطہ رہتا تھا۔ حشمت علی کے مطابق واقعے سے ایک روز پہلے زویا نے ان سے رابطہ کرکے کہا تھا کہ ’بابا میں تمہارے پاس آنا چاہتی ہوں میں نے کہا کہ آ جاؤ اسی دوران فیکٹری میں کام بڑھ گیا اور اسے چھٹی نہیں مل سکی‘۔
غلام رسول کو اپنے بھانجے 18 سالہ محمد طفیل کی لاش کی تلاش ہے، وہ ہسپتالوں اور مردہ خانوں کا چکر لگا کر تھک چکے ہیں طفیل کو اس کارخانے میں ملازمت پر سات دن ہوئے تھے جہاں انہیں چھ ہزار تنخواہ ملنی تھی۔
طفیل کے ماموں غلام رسول کا کہنا ہے کہ ہسپتال والے کہہ رہے ہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ کروالیں تو پھر ہی شناخت ہوسکتی ہے کیوں کہ بہت سی لاشیں مسخ ہوچکی ہیں۔
محمد طفیل کا ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں، والد ضعیف العمر ہونے کی وجہ سے کام نہیں کرسکتے۔ بڑے بھائی بھی پچھلے دنوں ملازمت سے فارغ کردیے گئے تھے۔ غلام رسول کے مطابق طفیل بے روزگار تھا تو ایک دوست نے کہا کہ میں فیکٹری میں لگا دیتا ہوں۔
بابا میں آنا چاہتی ہوں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔