جمعہ, مارچ 01, 2013

کاش! یہ بیماری پاکستانیوں کو بھی لگ جائے

واشنگٹن — امریکہ میں روز مرہ سفر کے دوران محسوس ہوا کہ لوگ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے اور لوگوں کی اکثریت دوران سفر سمارٹ فون یا اسی نوعیت کی دوسری ڈیوائسز پر نظریں جمائے رکھتی ہے یا کتابوں میں کھوئی رہتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات میرے مشاہدے میں آئی کہ سمارٹ فون یا اس طرح کی ڈیوائسز پر بھی اکثر لوگ کسی کتاب کی سافٹ کاپی کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں۔

چونکہ، پاکستان میں دورانِ سفر مطالعہ کرتے شاذ و نادر ہی کسی کو دیکھا تھا، اس لیے مجھے عجیب لگا کہ یہ بسوں اور ٹرینوں میں ہی کیوں پڑھائی میں لگے رہتے ہیں۔ ​​میں نے انٹرنیٹ پر تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ امریکہ کی پچاس ریاستوں اور دارالحکومت میں ایک لاکھ اکیس ہزار ایک سو ستر عوامی لائبریریاں ہیں اور حیران کن طور پر تقریباً ایک لاکھ کے قریب سکولز کی ملکیت ہیں۔


ایک ریسرچ کے مطابق 75,76,278 نفوس پر مشتمل ریاست ورجینیا میں سالانہ تین کروڑ پچاس لاکھ افراد لائبریریوں میں جاتے ہیں، جو تقریباً چار وزٹ فی کس کے برابر ہے۔ اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگوں کی اتنی تعداد کا لائبریریوں کا رخ کرنے کی ایک وجہ یہاں ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی میں لائبریری کی موجودگی بھی ہے، جبکہ مقامی سطح پر عوامی لائبریری بنیادی ضروریات زندگی کا حصہ ہے اور حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

پاکستان میں بڑی یونیورسٹیوں کے ساتھ تو لائبریریاں ہوتی ہیں، لیکن سکولز کی سطح پر یا عوامی سطح پر ان کا کوئی خاص رحجان نہیں۔ لیکن، سوال یہ بھی ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کا شوق کتنا ہے؟ میں نے پاکستان میں گزارے کئی سالوں کے دوران اسلام آباد، لاہور، پشاور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، کراچی اور ایبٹ آباد سمیت متعدد شہروں کا سفر کیا۔ لیکن، یہ تجربہ نہیں ہوا کہ لوگ بس سٹاپ پر کھڑے یا بس میں سفر کرتے کتاب کے مطالعہ میں مصروف ہوں.

​​ہمارے نظام تعلیم میں سکول کی سطح سے ہی نصابی کتب کے علاوہ کسی دوسری کتاب کے مطالعہ کو وقت کا ضیاع قرار دیا جاتا ہے اور ہر سطح پر اس کی مخالفت کی جاتی ہے، جبکہ امریکی سکول کی سطح پر ہی بچوں کو غیر نصابی کتب کے مطالعہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ سہولت فراہم کرتے ہیں۔
میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ تعلیم بطور قوم ہماری ترجیح نہیں، لیکن ہماری کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ امریکہ اپنی کل آمدنی کا 5.7 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستان صفر 1.8 فیصد۔ جبکہ ہمارا پڑوسی بھارت اپنی کل آمدنی کا 4.1 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔

ہر جگہ مطالعے میں گم امریکیوں کو دیکھ کر میں نے اپنے ایک پاکستانی دوست سے کہا کہ ان کو پڑھنے کی بیماری ہے، میرے دوست کا جواب تھا کہ، کاش یہ بیماری پاکستانیوں کو بھی لگ جائے۔ ۔!

کاش! یہ بیماری پاکستانیوں کو بھی لگ جائے

منگل, فروری 26, 2013

چوں چوں کا مربہ، امریکہ


چوں چوں کا مربہ، امریکہ
13 فروری 2013ء

پکڑا جانا آئی ایس آئی کے ہاتھوں بھارتی جاسوس کا


پکڑا جانا آئی ایس آئی کے ہاتھوں بھارتی جاسوس کا
14 فروری 2013ء

را کے خوش رنگ پھندے اور سفارتی اہلکار


”را“ کے خوش رنگ پھندے اور سفارتی اہلکار
13 فروری 2013ء

مفاد پرست کلب

جاوید چوہدری

جاوید چوہدری

علامہ محمد اسد عالم اسلام کے عظیم مفکر اور دانشور تھے‘ یہ یہودی خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ آسٹریا میں 2جولائی 1900ء میں پیدا ہوئے‘ ان کے والد یہودیوں کے ربی تھے‘ والد نے ان کا نام لیوپولڈ وائز رکھا‘ علامہ اسد نے بھی یہودیت کی تعلیم حاصل کی اور یہ بھی یہودی عالم بننا چاہتے تھے لیکن ان کے اندر ایک بے چینی‘ ایک بے قراری پائی جاتی تھی‘ یہ بے قراری انھیں چشمہ ہدایت کی طرف لے گئی اور یوں 1926ء میں لیو پولڈوائز نے اسلام قبول کرلیا اور یہ محمد اسد بن گئے‘ علامہ اسد نے عربی بدوئوں کے ساتھ رہنا شروع کردیا‘ بدوئوں سے عربی سیکھی‘ قرآن مجید کو اصلی عربی کے ساتھ پڑھا‘ صحیح بخاری کا مطالعہ کیا اور اپنی تحریروں کے ذریعے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ شاہ عبدالعزیز علامہ محمد اسد سے بہت متاثر تھے‘ انھوں نے انھیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا‘ علامہ صاحب شاہی خاندان کا فرد سمجھے جاتے تھے۔

سعودی شاہی خاندان نے علامہ صاحب کو پوری زندگی عزت بھی دی اور ان کی مالی امداد بھی کی‘ ان کی طبیعت سیلانی تھی‘ یہ 1932ء میں سعودی عرب سے نکل آئے اور اس کے بعد سیاح کی طرح پوری دنیا دیکھ ڈالی‘ یہ برصغیر پاک و ہند پہنچے‘ علامہ اقبال سے ملے‘ دونوں ایک دوسرے کی شخصیت سے متاثر ہوئے اور کئی سال اکٹھے گزار دیے‘ یہ علامہ اقبال کی رحلت کے بعد قیام پاکستان کی تحریک میں شامل ہوگئے‘ علامہ اسد کا خیال تھا پاکستان وہ اسلامی ملک ہو گا جس کا خواب مسلمان 14 سو سال سے دیکھ رہے ہیں‘ علامہ صاحب نے اس خواب کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کر دیے‘ اخبار بھی نکالا‘ کتابیں بھی لکھیں‘ مضامین بھی تحریر کیے‘ جیل بھی بھگتی اور بے روزگاری اور غربت بھی دیکھی لیکن یہ مسلم لیگ کے کارکن بن کر کام کرتے رہے‘ پاکستان بنا تو علامہ اسد کراچی آ گئے‘ یہ اس وقت تک آسٹریا کے شہری تھے‘ یہ آسٹریا کے پاسپورٹ پر سفر کرتے تھے‘ علامہ اسد نے اپنی آسٹرین شہریت ترک کی‘ پاکستان کی شہریت اختیار کی اور پاکستان کے پہلے شہری بن گئے‘ یہ حکومت پاکستان کی طرف سے پہلا پاسپورٹ پانے والے پاکستانی بھی تھے لیکن پاکستانیوں اور پاکستانی حکومت نے علامہ صاحب کے ساتھ بڑا برا سلوک کیا‘ علامہ صاحب کو وزارت خارجہ میں اہم منصب دے کر یو این بھجوایا گیا تھا مگر وزارت خارجہ کے بابوئوں نے انھیں اس قدر تنگ کیا کہ علامہ صاحب نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا‘ یہ پاکستان چھوڑنے پر بھی مجبور ہوگئے مگر انھوں نے آخری سانس تک پاکستانی شہریت نہیں چھوڑی‘ یہ 23 فروری 1992ء میں 92 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے‘ غرناطہ میں دفن ہوئے اور مرنے کے بعد بھی پاکستانی شہری رہے۔

علامہ محمد اسد 1952ء میں پاکستان سے نکلے‘ ان کی جرمن نژاد تیسری بیگم پولا حمیدہ اسد نے مرنے تک ان کا ساتھ دیا‘ یہ دنیا کے مختلف ملکوں میں رہے‘ یہ اسلام کے بارے میں کتابیں لکھتے رہے‘ لیکچر دیتے رہے‘ تبلیغ کرتے رہے اور اسلام کے بارے میں مغرب میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرتے رہے‘ ان کی ایک کتاب ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا‘ یہ ان کے قبول اسلام سے متعلق کتاب تھی‘ اس کتاب میں عربوں کے رہن سہن‘ رسوم و رواج‘ صحرائی زندگی کی خوبصورتیاں اور اسلام کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں‘ یہ کسی نو مسلم مغربی اسکالر کی اس نوعیت کی پہلی کتاب تھی‘ یہ کتاب امریکی پبلشنگ ادارے سائن اینڈ شسٹر نے 1954ء میں شائع کی اور پوری دنیا میں پڑھی گئی‘ یہ آج بھی شائع ہوتی ہے‘ آج بھی پڑھی جاتی ہے اور لوگ آج بھی علامہ صاحب کی خدمات کو سراہتے ہیں۔ ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ کے حوالے سے دو حقائق بہت دلچسپ ہیں‘ ایک‘ یہ کتاب اسلام سے متعلق تھی اور نو مسلم مغربی اسکالر نے لکھی تھی لیکن یہ سب سے پہلے امریکی پبلشر نے شائع کی‘ بعد ازاں برطانیہ کے ادارے میکس رائن ہارٹ نے اسے شائع کیا اور اس کے بعد اس کے ترجمے جرمن‘ ولندیزی‘ سویڈش‘ فرانسیسی‘ جاپانی اور کروشین زبانوں میں شائع ہوئے او ریورپ کے تمام پبلشنگ ہومز نے نہ صرف علامہ صاحب کو کتاب کا معاوضہ دیا بلکہ پوری زندگی انھیں اور ان کی اہلیہ کو اس کی رائلٹی بھی ملتی رہی۔

جرمنی نے تو علامہ صاحب کو تین سال اپنا مہمان بھی رکھا‘ انھیں جرمن زبان سکھائی‘ ان سے ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ کا ترجمہ کرایا اور پھر یہ کتاب شائع کی‘ جرمنی نے اس پر فلم بھی بنائی جب کہ ان کے مقابلے میں پورے عالم اسلام میں یہ کتاب چھپی مگر کسی پبلشر نے انھیں معاوضہ دیا اور نہ ہی ان سے اشاعت کے لیے تحریری اجازت لی‘ علامہ صاحب کی بیگم پولا حمیدہ اسد نے اپنی یاد داشتوں میں لبنان کے ایک پبلشر کا ذکر کیا جس نے نہ صرف اس کتاب کا بلا اجازت ترجمہ شائع کیا تھا بلکہ اس نے کتاب سے صحرائی حصے بھی ایڈٹ کردیے‘ علامہ صاحب نے جب اس سے اس ایڈیٹنگ کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا لبنان کے لوگوں نے کبھی صحرا نہیں دیکھا چنانچہ ان کے لیے یہ حصے فضول تھے‘ پولا حمیدہ نے اس پر ہنس کر کہا صحرا تو یورپ اور امریکا کے لوگوں نے بھی نہیں دیکھا لیکن انھوں نے کتاب کے اس پورشن پر کوئی اعتراض نہیں کیا‘ دوسری حقیقت‘ علامہ صاحب نے 92 سال کی طویل زندگی پائی‘ صدی تک پھیلی اس زندگی میں انھیں مسلمان ہونے کے باوجود یورپ اور امریکا کے علم پرور طبقے پالتے رہے جب کہ مسلمان بالخصوص پاکستانی مسلمان انھیں اذیت دیتے رہے ‘ ہم نے مرنے کے بعد بھی اپنے پہلے شہری کو عزت نہیں دی‘ ہم نے ان کے نام سے کوئی ادارہ بنایا اور نہ ہی کسی سڑک کو ان کے نام سے منسوب کیا‘ ہم نے اپنی کوتاہ فہمی‘ نالائقی‘ سازشی فطرت اور کنوئیں کے مینڈکوں کی جعلی اکڑ کی وجہ سے دنیا کا بہت بڑا اسکالر کھو دیا‘ علامہ صاحب پاکستان کے پہلے شہری اور پہلے پاسپورٹ ہولڈر تھے لیکن ہم ان کی قبر پر پھول تک نہیں چڑھاتے‘ وہ غرناطہ کے گم نام قبرستان کی کسی گم نام قبر میں پڑے ہیں مگر یہ احسان فراموش قوم ان کا نام تک بھول چکی ہے‘ علامہ صاحب اپنے اس ’’انجام‘‘ سے واقف بھی تھے‘ ان کی اہلیہ نے اپنی خودنوشت میں ایک واقعہ لکھا‘ آپ کے یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے۔

علامہ اسد 1950ء کی گرمیوں میں بیروت میں تھے‘ ایک شام ڈاکٹر ذاکر حسین ملاقات کے لیے ان کے گھر آئے‘ ڈاکٹر صاحب بھارت کی معروف علمی اور سیاسی شخصیت تھے‘ یہ بعد ازاں بھارت کے صدر بھی بنے‘ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اس ملاقات کے دوران علامہ اسد کو یاد دلایا ’’میں نے قیام پاکستان سے قبل آپ سے عرض کیا تھا اگر پاکستان میں ان اصولوں پر عمل کیا گیا جن کے بنیاد پر ملک بنایا جا رہا ہے تو میں آپ کے ساتھ پاکستان جائوں گا لیکن مجھے خطرہ ہے‘ یہ ملک چند لوگوں کے مالی مفادات کے لیے بنایا جا رہا ہے اور آپ کو یہ حقیقت چند برسوں میں معلوم ہو جائے گی‘‘ ڈاکٹر صاحب نے علامہ صاحب کو یہ بات یاد کروائی اور اس کے بعد ان سے پوچھا ’’کیا میری بات غلط تھی‘‘ علامہ صاحب اس پر خاموش رہے مگر تاریخ آج تک بول رہی ہے‘ہم مانیں یا نہ مانیں مگر اس ملک پر65 برسوں سے چند مفاد پرستوں کا قبضہ چلا آ رہا ہے‘ یہ مفاد پرست اپنے فائدے‘ اپنے اقتدار کے لیے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں خواہ انھیں اس کے لیے ملک تک کیوں نہ توڑنا پڑ جائے‘ یہ مفاد پرستوں کا ایک کلب ہے جو اس ملک میں ترقی کی ایک خاص حد چھونے والے ہر شخص کو اپنا ممبر بنا لیتا ہے اور یہ بھی مفاد کا ٹوکا لے کر ملک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے میں جت جاتا ہے‘ مفاد کے اس کلب کے ممبرکس قدر سنگ دل ہیں آپ اس کا اندازہ کوئٹہ اور کراچی کی صورتحال سے لگالیجیے‘ ان کی نظر میں کوئٹہ اور کراچی کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی ہزارہ کمیونٹی کی ہزار لاشوں اور کراچی کے ساڑھے آٹھ ہزار لوگوں کی اموات کی‘ اگر انھیں کوئی دلچسپی ہے تو وہ پانچ ارب روپے کا محل ہے‘ اپنی مرضی کی نگران حکومت ہے اور اگلے الیکشنز میں کامیابی ہے اور پیچھے رہ گئے۔

عوام تو یہ ماضی میں بھی ان کی ترجیح نہیں تھے‘ یہ آج بھی ترجیح نہیں ہیں اور یہ کل بھی ترجیح نہیں ہوں گے کیونکہ یہ اس ملک کی بنیاد سے لے کر آج کے جمہوری دور تک کبھی ترجیح نہیں رہے‘ یہ محض ووٹر ہیں یا لاشیں ہیں‘ مفاد پرست کلب کے ممبر انتخابی نشانوں پر ان سے انگوٹھا لگواتے ہیں‘ اپنا اقتدار پکا کرتے ہیں‘ پانچ پانچ سال کی باری لگاتے ہیں‘ قوم مایوس ہو جاتی ہے تو خفیہ ادارے شہروں میں نعشوں کی کھیتیاں اگا دیتے ہیں‘ یہ کھیتیاں بو دیتی ہیں تو فوج اقتدار پر قابض ہوجاتی ہے‘ سیاسی جماعتیں فوج کو بھگانے کے لیے اپنے ووٹروں کو لاشوں میں تبدیل کرنے لگتی ہیں‘ یہ لاشیں عالمی ضمیر کے دروازے پر دستک دیتی ہیں تو فوجی آمروں کے سپورٹر پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور ملک پر مفاد پرست کلب کے سویلین چہرے قابض ہوجاتے ہیں‘ یہ لوگ بندر بانٹ کے ذریعے پانچ سال پورے کرنے میں جت جاتے ہیں اور اس دوران ملک خواہ قبرستان بن جائے انھیں کوئی غرض نہیں ہوتی‘ یہ صرف اور صرف اپنے اقتدار تک محدود رہتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ کوئٹہ کی سڑکوں پر پڑی لاشیں دیکھ لیں یا پھر کراچی کی تڑتڑ کی آوازیں اور گرتی ہوئی لاشوں کی چیخیں سن لیں‘ بلوچستان میں سال بھر سے کوئی حکومت موجود نہیں‘ کراچی میںریاست ناکام ہے‘ وہاں آئی جی پولیس بھی رینجرز کی سکیورٹی کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا مگر ہمارا مفاد پرست کلب جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی قرار داد پاس کررہا ہے اور نگران وزیراعظم کے نام پر لڑ رہا ہے‘ آپ صورتحال پر تھوڑا سا غور کریں تو آپ کو محسوس ہوگا‘ ہم اٹھارہ کروڑ لوگ مفاد پرست کلب کے ممبروں کی آسودگی کے لیے انسانی کھاد ہیں‘ ہم پیدا ہی ان لوگوں کے انتخابی نشانوں پر انگوٹھا لگانے کے لیے ہوتے ہیں یا پھر فوجی آمروں کی خواہش اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جنم لیتے ہیں‘ ہم انگوٹھا لگا دیں تو یہ پانچ ارب کے بم پروف محل سے ہم پر حکمرانی کرتے ہیں نہ لگائیں تو یہ پانچ سال کے لیے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کی جگہ کوئی بندوق علی خان اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے۔

ہم پاکستانیوں کا پاکستان کب بنے گا‘ ہم کب آزاد ہوں گے۔

مفاد پرست کلب

جمعـہ 22 فروری 2013

منگل, فروری 12, 2013

’سوال آپ نہیں بلکہ عدالت کرے گی‘

تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے الیکشن کمیشن کی تحلیل کے لیے اپنی درخواست کی پیروی کے لیے ان چند افراد میں شامل تھے جو عدالت کا وقت شروع ہوتے ہی سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے۔ کمرۂ عدالت نمبر ایک میں طاہرالقادری اپنے حماتیوں کے ہمراہ داخل ہوئے اور زیادہ تر نشتوں پر اُن کے حامیوں کا ہی قبضہ تھا جبکہ وکلاء اور اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے آنے والے افراد کے پاس کھڑے رہنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ مقامی وقت کے مطابق ساڑھے نو بجے عدالت میں پہنچنے والے ڈاکٹر طاہرالقادری کو پانچ گھنٹے کے بعد یعنی دوپہر ڈھائی بجے کے قریب روسٹم پر آنے کو کہا گیا۔ کمرۂ عدالت میں موجود افراد یہ چہ مگوئیاں بھی کر رہے تھے کہ احتجاجی دھرنے کے دوران حکومت کو پانچ منٹ میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم دینے والے طاہرالقادری کمرۂ عدالت میں بےبس دکھائی دے رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے پیر کو ’ریگولر مقدمات‘ کی سماعت کرنے کے بعد سپلیمنٹری کاز لسٹ میں شامل طاہرالقادری کو دلائل دینے کو کہا۔ سپریم کورٹ نے جب طاہرالقادری کو روسٹم پر آنے کو کہا تو ان کے ہمراہ آئے ہوئے اُن کے حمایتی بھی روسٹم پر ان کے پیچھے کھڑے ہو گئے جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور باقی افراد کو اپنی سیٹوں پر بیٹھنے کا حکم دیا۔

طاہرالقادری نے اپنی درخواست کے حق میں دلائل شروع ہی کیے تھے کہ تین رکنی بینچ نے ان کی شہریت سے متعلق سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ درخواست گزار بجائے اس کہ وہ اپنی درخواست کے متعلق کچھ دلائل دیتے انہوں نے کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے سے متعلق صفائی دینی شروع کردی اور انہوں نے سماعت کرنے والے ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’مائی لارڈز میرا سوال ہے‘ جس پر بینچ میں شامل جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ سوال آپ نہیں بلکہ عدالت آپ سے کرے گی اور عدالت کو مطمئین کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ منہاج القرآن کے سربراہ نے عدالت سے دو منٹ میں اپنی بات مکمل کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا اور کہا کہ وہ تحریری شکل میں جواب دیں۔

جمعہ, فروری 01, 2013

بلیوں پر لگا قتل کا الزام

واشنگٹن — بلی بظاہر ایک معصوم اور بے ضرر نظر آنے والا جانور ہے جسے بچے اور بڑے یکساں طور پر پسند کرتے ہیں لیکن امریکہ میں ان پر سالانہ چوبیس ارب پرندوں اور چھوٹے جانوروں کے قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

’نیچر کمیونیکیشن‘ نامی ایک آن لائن میگزین میں منگل کے روز، بلیوں کے جنگلی حیات پر اثرات، کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں آوارہ بلیاں سالانہ 3.7 ارب پرندوں اور 20.7 ارب چھوٹے جانوروں کی موت کی وجہ ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پرندوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ بغیر مالک کےآوارہ بلیاں ہیں جو دن بھر انہی چھوٹے جانوروں اور پرندوں کے شکار میں سرگرم رہتی ہیں۔

جنگلی حیات کے تحفظ اور امریکی ادارہ برائے فشریز و جنگلی حیات کی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی ریاست الاسکا اور ہوائی میں آوارہ بلیاں اپنی خوراک کے لیے چوہوں پر اکتفا کرتی ہیں لیکن دوسری امریکی ریاستوں میں ان بلیوں کا نشانہ پرندے اور دوسرے چھوٹے جانور بنتے ہیں۔

تحقیقی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ شہر کے مضافاتی اور دیہی علاقوں میں بلیاں خرگوش، چوہے، بٹیر، گلہری کو خوراک کے لیے نشانہ بناتی ہیں تاہم گنجان آباد علاقوں میں جہاں جنگلی حیات کم ہوتی ہے بلیاں چوہوں پر ہی اکتفا کرتی ہیں۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بلیوں کی ایک سو سے زائد اقسام گھریلو بلیوں کے طور پر متعارف کروائی جا چکی ہیں لیکن ان کی بڑی تعداد ابھی تک آوارہ ہے جن پر مقامی، ریاستی یا وفاقی سطح پر توجہ نہیں دی جا رہی۔

امریکہ میں پرندوں کے تحفظ کے ادارے کے ترجمان رابرٹ جانس نے کہا ہے کہ بلیاں بہت پیاری ہوتی ہیں اور ہم ان سے پیار کرتے ہیں لیکن انہیں اس بات کی مزید اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ماحول کی خوبصورتی کا سبب بننے والے پرندوں کا خاتمہ کر دیں۔

ادھر بلیوں کی تحفظ حیات کے ایک ادارے کے سابق صدر کیرول باربی نےآوارہ بلیوں کے خلاف ممکنہ کارروائی پر اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ان بلیوں کے خاتمے سے چوہے اور دیگر موزی جانور جو ان بلیوں کا نشانہ بنتے ہیں، انسانون کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔
انھوں نے اس نئی تحقیق اور اس کی سفارشات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئےکہا ہے کہ بلیاں کبی کبھار پرندوں کا شکار ضرور کرتی ہیں لیکن وہ ذاتی طور پر اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ پرندوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ بلیاں ہی ہیں۔

منگل, جنوری 29, 2013

والدین بچوں سے کیا جھوٹ بولتے ہیں

چین اور امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اپنی اولاد کی پرورش میں بچوں کا رویہ تبدیل کرنے کے لیے بیشتر والدین جھوٹ بولتے ہیں۔ عام جگہوں پر والدین اپنے بچوں کو اکثر دھمکی دیتے ملیں گے کہ اگر وہ اپنی حرکت سے باز نہیں آئے تو انہیں تنہا چھوڑ کر چلے جائیں گے جو اس کی ایک واضح مثال یہ ہے۔ اس کے لیے کئی بار پرانی کہانیوں کا بھی سہارا لیا جاتا ہے۔ بچوں کو بعض خاص چیز کھانے کے لیے راضی کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ فلانی سبزی نہیں کھائیں گے تو اندھے ہوسکتے ہیں۔ اس تجزیاتی رپورٹ کو نفسیات سے متعلق ایک عالمی میگزین ’انٹرنیشنل جرنل آف سائیکالوجی‘ میں شائع کیا گيا ہے جس میں اس طرح کے جھوٹ کا جائزہ لیا گيا ہے۔ تقریباً دو سو خاندانوں کے ساتھ انٹرویو پر مبنی اس رپورٹ کے مطابق امریکہ اور چین دونوں ملکوں میں والدین کی ایک بڑی اکثریت بچوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اس طرح کے جھوٹ کا سہارا لیتی ہے۔

اس کی ایک بہت عام مثال یہ ہے کہ بچے کئی بار ایک جگہ سے نہیں جانا چاہتے یا بہت شرارت کرتے ہیں تو انہیں تنہا چھوڑنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گيا ہے ’اس نوعیت کا جھوٹ دنیا بھر ان تمام والدین میں عام ہے جو اپنے بچوں کی مرضی کے خلاف اس جگہ سے جانا چاہتے۔‘ ایک اور جھوٹ، جو بہت عام ہے، یہ کہ جب بچے کھلونا دلانے کی ضد کرتے ہیں تو والدین بچوں سے یہ کہ کر کر جھوٹا وعدہ کرتے ہیں کہ ہاں وہ مستقل میں اسے لے دیں گے۔

محقیقین نے ایسے بہت سے جھوٹوں کو جمع کیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب بچے شرارت کرتے ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ ’اگر باز نہیں آ‏ئے تو میں پولیس کو کال کرونگا‘۔ یا بعض دفعہ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ رویہ نہیں بدلتے تو ’پھر وہ جو خاتون وہاں پر کھڑی ہیں وہ آپ سے بہت ناراض ہو جائیں گي‘۔ بعض دفعہ والدین جھوٹ بول کر بچوں کو منانے میں اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں یہ کہتے سنا گيا ’اگر تم میرے ساتھ نہیں چلوگے تو پھر ایک اغوا کرنے والا آئے گا اور تمہیں یرغمال بناکر لے جائےگا‘۔

لیکن اس سلسلے میں اس طرح کے بھی بہت سے جھوٹ ہیں جو بچوں کے احساسات کے تحفظ کو خیال کرکے مثبت اثر کے لیے بولے جاتے ہیں۔ جیسے یہ کہنا کہ ’آپ کا پالتو، کتا یا بلی، آپ کے انکل کے فارم میں رہنے گيا ہے جہاں اسے کھیلنے کودنے کے لیے زیادہ وسیع جگہ ملے گي‘۔ کئي بار دکان پر بچوں سے یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ’آج پیسے نہیں لایا ہوں اور اس کے لیے کسی اور روز واپس آئیں گے‘۔ اس رپورٹ میں یہ بات واضح نہیں کی گئی ہے کہ اس سلسلے میں ماں اور باپ کے جھوٹ بولنے میں کیا فرق ہے۔ ریسرچ کرنے والے ماہرین کا تعلق امریکہ میں کیلیفورنیا یونیورسٹی، چین میں زیجنگ نیشنل یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کینیڈا کے شعبہ نسفیات سے ہے۔ امریکہ اور چین دونوں میں اس طرح کے جھوٹ عام بات ہے لیکن امریکہ کے بہ نسبت چین میں یہ کچھ زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بچوں کے رویہ میں تبدیلی کے لیے اس طرح کے جھوٹ کو سماج میں قبول کر لیا گيا ہے۔ مثال کے طور پر بچوں کو سبزی یا صلاد کھانے کی ترغیب دینے کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اگر بروکلی کھائیں گے تو زیادہ لمبے ہوں گے۔

اس رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ بچوں کے ساتھ یہ رویہ رکھنے پر بڑے ہونے پر والدین اور ان کے درمیان تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔اور بچوں میں اس سے جھوٹ بولنے کی بھی عادت پڑ جاتی ہے۔

والدین بچوں سے کیا جھوٹ بولتے ہیں

پیر, جنوری 21, 2013

جس عورت کا خاوند موجود نہ ہو اس کے گھر جانے کا بیان


قتیبہ بن سعید، لیث، یزید بن ابی حبیب، ابوالخیر، عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

عورتوں کے گھر (تنہائی میں) جانے سے پرہیز کرو،

ایک انصاری شخص نے کہا کہ دیور کے متلعق آپ کا کیا حکم ہے،

آپ نے فرمایا دیور تو موت ہے (یعنی اس سے زیادہ بچنا چاہئے) ۔

---------------------------------------------
Narrated 'Uqba bin 'Amir
Allah's Apostle said, "Beware of entering upon the ladies." A man from the Ansar said, "Allah's Apostle! What about Al-Hamu the in-laws of the wife (the brothers of her husband or his nephews etc.)?" The Prophet replied: The in-laws of the wife are death itself

----------------------------------------------

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 217

حدیث مرفوع مکررات 5 متفق علیہ 4

رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ابو لہب جو مشہور کافر تھا اور سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ میں چچا تھا۔ جب رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک ہوئی تو ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے آپ کی ولادت باسعادت کی خوش خبری اپنے مالک ابو لہب کو سنائی تو ابولہب نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی کو آزاد کردیا۔

جب ابو لہب مرگیا تو کسی نے خواب میں دیکھا اور حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ کفر کی وجہ سے دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہوں مگر اتنی بات ہے کہ ہر پیر کی رات عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے اور جس انگلی کے اشارے سے میں نے اپنی لونڈی کو آزاد کیا تھا اس سے مجھے پانی ملتا ہے جب میں انگلی چوستا ہوں۔

ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں جب ابو لہب کافر (جس کی مذمت میں سورہ لہب نازل ہوئی) کو یہ انعام ملا تو بتاؤ اس مسلمان کو کیا صلہ ملے گا جو اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی منائے۔ اس کی جزا اللہ کریم سے یہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے اسے جنات النعیم میں داخل فرمائے گا۔ الحمدللہ ربّ العالمین۔

میلاد کرنا اور اس سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے اور میلاد پاک کا ثبوت قرآن مجید، احادیث شریفہ اور اقوال بزرگانِ دین سے ہے۔ میلاد شریف میں ہزاروں برکتیں ہیں۔ اس کو بدعت کہنا دین سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔

لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُوْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ الرَّحِیْم (پ ١١ سورۃ توبہ ١٢٨)
ترجمہ: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے۔ تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے ہیں اور مسلمانوں پر کمال مہربان۔ (کنزالایمان)

اس آیت شریفہ میں پہلے اللہ جل شانہ، نے فرمایا کہ ”مسلمانو تمہارے پاس عظمت والے رسول تشریف لائے“ یہاں تو اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ بیان فرمائی پھر فرمایا کہ ”وہ رسول تم میں سے ہیں“ اس میں اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب شریف بیان فرمایا ہے پھر فرمایا ”تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے اور مسلمانوں پر کرم فرمانے والے مہربان ہیں“ یہاں اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بیان فرمائی۔

اللہ تعالیٰ حکم فرما رہا ہے؛
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (پ ١١، سورۃ یونس، ٥٨)
ترجمہ: تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت، اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں، وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے۔ (کنزالایمان)


مفسرینِ کرام مثلاً علامہ ابن جوزی (م ۔٥٩٧ھ)، امام جلال الدین سیوطی (م۔ ٩١١ھ) علامہ محمود آلوسی (م۔ ١٢٧٠ھ) اور دیگر نے متذکرہ آیت مقدسہ کی تفسیر میں ”فضل اور رحمت“ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مراد لیا ہے (حوالے کے لئے دیکھیں: زاد المسیر، جلد ٤، صفحہ ٤٠، تفسیر درِّ منثور، جلد ٤، صفحہ ٣٦٨، تفسیر روح المعانی، جلد ٦، صفحہ ٢٠٥) مفسرینِ کرام کی وضاحت و صراحت کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے عموم میں کائنات اور اس کے لوازمات بھی شمار ہونگے لیکن فضل و رحمت سے مطلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مراد ہوگی کہ جملہ کائنات کی نعمتیں اسی نعمتِ عظمیٰ کے طفیل ہیں اور اس ذات کی تشریف آوری کا یوم بھی فضل و رحمت سے معمور ہے، پس ثابت ہوا کہ یومِ میلاد، آپ ہی کی ذاتِ با برکات کے سبب اس قابل ہوا کہ اسی دن اللہ کے حکم کے مطابق خوشی منائی جائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میلاد کی خوشیوں کےلئے یوم کا تعین کیا جاسکتا ہے۔

میلاد بیان کرنا سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: بعض لوگ لا علمی کی بنا پر میلاد شریف کا انکار کردیتے ہیں ۔ حالانکہ محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا میلاد بیان کیا ہے۔ سیدنا حضرت عباس رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں کہ سید العرب و العجم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ کسی گستاخ نے آپ کے نسب شریف میں طعن کیا ہے تو ،

فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ مَنْ اَنَا فَقَا لُوْ اَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔۔ قَالَ اَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدُ الْمُطَّلِبْ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ ثُمَّ جَعَلَہُمْ فِرْقَتَیْنِ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ فِرْقَۃً ثُمَّ جَعَلَہُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ قَبِیْلَۃً ثُمَّ جَعَلَہُمْ بُیُوْتًا فَاَنَا خَیْرُ ہُمْ نَفْسًا وَخَیْرُہُمْ بَیْتًا
 

(رواہ الترمذی ، مشکوٰۃ شریف رضی اللہ تعالی عنہ ٥١٣)
ترجمہ: پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں کون ہوں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ فرمایا میں عبدالمطلب کے بیٹے کا بیٹا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی ان میں سب سے بہتر مجھے بنایا پھر مخلوق کے دو گروہ کئے ان میں مجھے بہتر بنایا پھر ان کے قبیلے کئے اور مجھے بہتر قبیلہ بنایا پھر ان کے گھرانے بنائے مجھے ان میں بہتر بنایا تو میں ان سب میں اپنی ذات کے اعتبار اور گھرانے کے اعتبار سے بہتر ہوں۔



اس حدیث شریف سے ثابت ہو اکہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود محفلِ میلاد منعقد کی جس میں اپنا حسب و نسب بیان فرمایا ۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ محفل میلاد کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس مجلس و محفل میں ان لوگوں کا رد کیا جائے جو آپ کی بدگوئی کرتے ہوں۔

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں

سارے اچھوں میں اچھا سمجھئے جسے

ہے اس اچھے سے اچھا ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم

سارے اونچوں سے اونچا سمجھئے جسے

ہے اس اونچے سے اونچا ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم

تعیّن تاریخ پر قرآنی دلیل:
وَزَکِّرْہُمْ بِاَ یَّامِ اللّٰہِ ط (پ ١٣۔ سورۃ ابراہیم)

اے موسیٰ ان کو یاد دلاؤ اللہ تعالیٰ کے دن

ہر عام و خاص جانتا ہے کہ ہر دن اور رات اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ پھر اللہ کے دنوں سے کیا مراد ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ ان دنوں سے مراد خدا تعالیٰ کے وہ مخصوص دن ہیں جن میں اس کی نعمتیں بندوں پر نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ اس آیت کریمہ میں سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ آپ اپنی قوم کو وہ دن یاد دلائیں جن میں اللہ جل شانہ، نے بنی اسرائیل پر من و سلویٰ نازل فرمایا۔

مقام غوریہ ہے کہ اگر من و سلوٰی کے نزول کا دن بنی اسرائیل کو منانے کا حکم ہوتا ہے تو آقائے دو جہاں سید کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پاک (جو تمام نعمتوں میں اعلیٰ اور افضل ہے) کا دن بطور عید منانا، اس کی خوشی میں جلوس نکالنا، جلسے منعقد کرنا، مساکین و فقراء کے لئے کھانا تقسیم کرنا کیوں کر بدعت و حرام ہوسکتا ہے؟

حدیث شریف سے تعیّن یوم پر دلیل:
عَنْ اَبِیْ قَتَا دَۃ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْاَثْنَیْنِ فَقَالَ فِیْہِ وُلِدْتُ وَفِیْہِ اُنْزِلَ عَلَیَّ (مشکوٰۃ صفحہ ١٧٩)

ترجمہ: سیدنا حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں اسی دن پیدا ہوا۔ اور اسی روز مجھ پر قرآن نازل ہوا۔

اس حدیث شریف نے واضح کردیا کہ کسی دن کا تعین و تقرر کرنا ناجائز نہیں ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بروز پیر دو نعمتیں نازل فرمائی گئی تھیں ایک ولادت مقدسہ اور دوسرے نزول قرآن، اسی لئے آپ نے پیر کے دن کو روزہ رکھنے کے معیّن فرمایا۔

ماہِ ربیع الاول شریف کیلئے خصوصی ہدایات:

ربیع الاول شریف کے مقدس مہینے میں حصول برکات کیلئے، عبادات کی کثرت (نماز، روزہ اور صدقات و خیرات) کیجئے۔ گناہوں سے بچنے کا خصوصی اہتمام اس مہینے میں کرنا چاہئے، جھوٹ ، غیبت، چغلی، ایذا رسانی، الزام تراشی، غصہ و برہمی وغیرہ سے اپنی ذات کو آلودہ نہ کیجئے، عید میلاد النبی ؐ کے دن اپنے چہروں پر مسکراہٹ سجائے رکھئے، کسی سے بھی (اپنا ہو یا پرایا) جھگڑا کرنے سے اجتناب کیجئے۔

ایک خاص تحفہ:

ماہ ربیع الاول شریف کی کسی بھی جمعرا ت کے دن یا شبِ جمعہ گلاب کے چند پھول لے کر اپنے گھر میں باوضو ہوکر بیٹھیں، پھولوں کو سامنے رکھیں، درود شریف تین مرتبہ پڑھیں پھر

اَللّهُ نَاصِرٌ ۔۔۔۔۔۔ اَللّٰهُ حَافِظٌ ۔۔۔۔۔۔ اللّٰهُ الصَّمَد

٣١٣ مرتبہ پڑھیں اور تین مرتبہ درود شریف پڑھ کر پھولوں پر دم کردیں، اور یہ پھول مٹھائی وغیرہ کے ساتھ ملا کر کھالیں، مشائخ سے منقول ہے کہ جو ایسا کرے گا پورے سال بھر رزق میں برکت ہوگی، مفلسی قریب نہیں آئے گی۔

ماہِ ربیع الاول میں کائنات کا اہم ترین اور مبارک واقعہ

١٢ ربیع الاول شریف عین صبح صادق کے وقت آقائے دوجہاں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دنیا میں تشریف آوری پیر کا دن ، ٢٢ اپریل ٥٧١ء ۔۔۔۔۔۔ ٥٣ قبل ہجری ۔۔۔۔۔۔ ١١ماہ بشینس ٣٦٧٥ طوفان نوح ۔۔۔۔۔۔ یکم جیٹھ ٣٦٧٢ کُل جگ ۔۔۔۔۔۔ ٢٠ ماہ ہفتم ٢٥٨٥ ابراہیمی ۔۔۔۔۔۔ یکم جیٹھ ٦٢٨ بکرمی شمسی ۔۔۔۔۔۔ ٢٠ نسیان ٨٣٣٢ خلیقہ یہودی ۔۔۔۔۔۔ ٢٠ نیسان ٨٢٢ سکندری

اتوار, جنوری 20, 2013

نادرا کی تین مفید سہولتیں


آوارہ کتا چار لاکھ روپے لے کر ’فرار‘

بھارتی ریاست بہار میں ایک تاجر نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی ہے کہ ایک آوارہ کتا ان کا چار لاکھ روپوں سے بھرا بیگ لے کر بھاگ گیا ہے۔ یہ دلچسپ واقعہ بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور گوپال گنج ضلع میں پیش آیا ہے۔ نکچھید میاں نامی تاجر نے پولیس میں جو رپورٹ درج کرائی ہے اس میں انہوں نے کہا ہے کہ نوٹوں سے بھرا بیگ ان کے بستر پر رکھا تھا، وہ نل پر ہاتھ دھونے کے لیے باہر نکلے ٹھیک اسی وقت ایک کتا ان کے کمرے میں گھنسا اور بیگ اٹھا کر بھاگ گیا۔ جب اس کتے کی تلاش ہوئی تب نکچھید کے گھر کے نزدیک سڑک پر ایک لاکھ چالیس ہزار روپے پڑے ملے لیکن باقی پیسے ابھی تک نہیں مل پائے ہیں۔

بھارت میں سڑکوں پر آوارہ کتے عام ہیں اور پولیس کا کہنا ہے کہ شاید کتے نے سوچا ہوگا کہ بیگ میں کچھ کھانے کا سامان ہے۔ نکچھید میاں نے اس واقعہ کی تحریری شکایت درج کرائی ہے لیکن پولیس اہلکار دیوندر پرساد کا کہنا ہے کہ کتے کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا ہے۔ نکچھید میاں کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی یو اے ای میں کام کرتی ہے اور اس نے زمین خریدنے کے لیے یہ رقم بھیجی تھی۔ مقامی لوگوں نے نکچھید میاں کے بیگ کی تلاش کا کام شروع کر دیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کتے نے کہیں بیگ چھوڑ دیا ہوگا اور ہو سکتا ہے اسے کسی اور نے اٹھا لیا ہو۔

آوارہ کتا چار لاکھ روپے لے کر ’فرار‘

ہفتہ, جنوری 19, 2013

گوگل کی نئی عینک

گوگل نے ایک ایسی عینک تیار کی ہے جو انٹرنیٹ سے منسلک ہوسکے گی اور اس کے ذریعے تمام درکار معلومات کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا جا سکے گا۔ لیکن ابتدائی طور پر یہ چشمہ صرف سافٹ ویئر تیار کرنے والوں کے لیے ہے اور عام لوگ اس سے استفادہ نہیں کر سکیں گے۔

کمپنی نیویارک اور سان فرانسسکو میں تقریبات منعقد کررہی ہے جہاں سافٹ ویئر ڈویلپ کرنے والوں کو اس عینک کا ابتدائی تعارف پیش کیا جائے گا، تاہم اس کی افادیت کے بارے میں مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ گوگل کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ ابتداء میں سافٹ وئیر ڈیولپرز کو یہ چشمہ 1500 ڈالر میں فروخت کیا جائے گا۔

گوگل کی نئی عینک

بدھ, جنوری 16, 2013

Father and Son

One old man was sitting with his 25 years old son in the train.

Train is about to leave the station.

All passengers are settling down their seat.

As train started young man was filled with lot of joy and
curiosity.
He was sitting on the window side.

He went out one hand and feeling the passing air. He
shouted, "Papa see all trees are going behind".
Old man smile and admired son feelings.

Beside the young man one couple was sitting and listing all
the conversion between father and son.
They were little awkward with the attitude of 25
years old man behaving like a small child.
Suddenly young man again shouted, "Papa see the pond
and animals. Clouds are moving with train".
Couple was watching the young man in embarrassingly.

Now its start raining and some of water drops touches the
young man's hand.
He filled with joy and he closed the eyes.

He shouted again," Papa it's raining, water is
touching me, see papa".
Couple couldn't help themselves and ask the old man.

"Why don't you visit the Doctor and get treatment for your son."

Old man said,
" Yes, We are coming from the hospital as Today
only my son got his eye sight for first time in his life".
Moral: "Don't draw conclusions until you know all the facts".

منگل, جنوری 15, 2013

Misuse of Antibiotics – May Kill Your Loved One's

بسم الله الرحمن الرحيم
In the Name of Allah, Most Gracious, Most Merciful

Irshad Mahmood – Global Auliyaa (PRESIDENT), Siraat-al-Mustaqeem Dawah Center

Search on the internet to check American, Canadian, or European Medical Journals before making any decisions. Thousands of Remedies are there for Thousands of diseases. Depending upon situation, Doctors need to decide and one must listen to his/her Family Doctor (Medical Practitioner), without bugging him/her, otherwise, he/she may say inside his/her heart, NOT directly to you “go to hell”. Below are key things to remember to save you and your loved ones life.

1>    How severe are sicknesses?
2>    How much is this urgency?
3>    Can you avoid antibiotics?
4>    Can you quit in the middle, without completing full course?
5>    Can it be cure with Home Remedy or Herbal Remedy if there is not urgency?

You must avoid taking antibiotics as much as you can, BUT if you have to take it, make sure to complete its full course (ten days), otherwise you will sure develop antibiotic resistant bacteria, which in turn might become super bug, and may kill you, since no medicine will work for you.

Here I would like to mention one simple case of severe pain and fever to understand. You should look first for the cause of the fever and take medication for that from your Family Doctor if it is not severe.

1>    Severe HIGH Fever:        Anytime above 104 degree Fahrenheit 40 degree centigrade.
                                                   MUST CALL 911 - EMERGENCY

2>    High Fever:                       Anytime above 102 degree Fahrenheit 39 degree centigrade.
                                                   Below 104 degree Fahrenheit 40 degree centigrade.
                                                   MUST RUSH TO SEE DOCTOR

3>    Medium Fever:                 Above 100 degree Fahrenheit 37.5 degree centigrade.
                                                   Below 102 degree Fahrenheit 39 degree centigrade.
                                                   Try over the counter medication, like Tylenol/Panadol
                                                   And other cough and cold medication etc.
                                                   Ask pharmacist to help you.

4>    Low Fever:                       Below 100 degree Fahrenheit 37.5 degree centigrade.
                                                   Above 99 degree Fahrenheit 37 degree centigrade.
                                                   Try home remedy or other herbal remedy first.
                                                   Watch it for 24 to 48 hours, if not improving consult Doctor.

Side effects of antibiotics: Every medicine has some side effects, some are short term temporary, while others are long term temporary and in exceptional cases permanent and same is true for Antibiotics. For short term temporary side effects, you don’t need to worry at all. For Long term temporary side effects, you will need to re-think for a long time, while for permanent side effects, you will need to re-think millions of times, and want to make sure if it is for life saving, like Chemotherapy or Radiation treatment etc. If it is for life saving, then you will sure need to go for it, even though it is very painful.

Confusion between side effects or due to disease: Here I would like to give an example, e.g. one gets some pimples on their back or face after taking antibiotics, make sure it is getting better or worse, if it is getting better, then no need to worry. You should worry, if it is getting worse, or painful, or itchy or very reddish etc. Keep in mind due to high fever ones may get this type of pimples, and as soon as fever goes down, you feel improvement, so in this case you should continue taking medications. So keep monitoring while continue giving antibiotics and don’t panic. Also for those symptoms which were before taking antibiotics, it may take at least two days before he/she feels improvements in many cases, so please be patient and don’t panic, instead make Duaa to get recover from it. Sometimes Doctors also prescribe anti-allergy etc. along with antibiotics to support recover softly.

Remember: Saving a life is like saving the whole world. Save yourself and your loved ones before it gets too late. (Ref. Al_Quraan_005.032)

YOU MUST AVOIDE ANTIBIOTICS, BUT IF YOU HAVE TO TAKE IT COMPLETE FULL COURSE (ten days)

Don’t even think about playing with Antibiotics now otherwise it will play with you later, since no medicine will work for you and will give you a very hard time until you die.

*******************

اتوار, جنوری 06, 2013

پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ’ٹیم آف دی ایئر‘ کا اعزاز

دلّی میں منعقدہ سی ایٹ کرکٹ ریٹنگ انعام کی رنگارنگ تقریب میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ’ٹیم آف دی ایئر‘ کے اعزاز سے نوازا گیا وہیں بھارت کے ویراٹ کوہلی کو سال دوہزار گیارہ بارہ کے لیے بین الاقوامی کرکٹر آف دی ایئر کے خطاب سے نوازا گیا۔ ایشیئن بریڈ مین کے نام سے جانے جانے والے پاکستان کے سابق کپتان ظہیر عباس کو لائف ٹائم اعزاز سے نوازا گیا اور بھارت اور پاکستان کے لیے مخصوص اعزازات میں پاکستان کے انضمام الحق کو ونڈے کے بہترین بلے باز کا اعزاز دیا گیا جبکہ بھارت کے سنیل گاوسکر کو ٹیسٹ کے بہترین بلے باز کے اعزاز سے نوازا گیا۔ بھارت کے آل راؤنڈر کپل دیو کو اگر ٹیسٹ کے بہترین بالر کے اعزاز سے نوازا گیا تو ون ڈے کے بہترین بولر کا اعزاز وسیم اکرم کو دیا گیا۔ پاکستان کے سابق کرکٹر سعید انور کو لوگوں کے پسندیدہ کرکٹر کا اعزاز دیا گیا۔

پاکستان کی ٹیم کا ایوارڈ حاصل کرتے ہوئے پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم نے کہا کہ’پاکستان ٹیم کی جانب سے یہ اعزاز لینا ان کے لیے بڑے فخر کی بات ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ ’اس سے قبل انیس سو ننانوے میں پاکستان ٹیم کو یہ اعزاز دیا گیا تھا اور میں نے پاکستان کی طرف سے اسے لیا تھا اور آج پھر مجھے یہ اعزاز حاصل ہو رہا ہے کہ میں یہ انعام حاصل کر رہا ہوں‘۔ جمعہ کی شام دلی کے لیے بہت خاص تھی کیونکہ بھارت اور پاکستان کے بڑے کرکٹر ایک جگہ موجود تھے اور اپنی یادیں تازہ کر رہے تھے۔ کرکٹ کی ان شخصیات نے اپنے نئے اور پرانے قصے سناکر اپنے چاہنے والو کا دل خوش کر دیا۔ 

سب سے نوجوان ہندوستانی کھلاڑی کے لیے انمکت چند کو ایوارڈ دیتے وقت جب سنیل گاوسکر نے ان سے ان کے نام ’انمکت‘ کا مطلب پوچھا تو انمکت نے کہا۔ یہ ایک مصرعہ کے معنی کی طرح ہے، ہم پنچھی انمکت گگن کے، یعنی جن کے لیے کوئی باؤنڈری یا حد نہیں ہوتی تو گواسکر نے چٹکی لیتے ہوئے کہا، اسی لیے تو تم چھکے زیادہ لگاتے ہو اور باؤنڈري کم۔ ویسے گواسکر کے لیے بھی ایک لمحہ ایسا آیا جب تقریب میں ہنسی کے فوارے پھوٹ پڑے۔ دراصل جب پاکستان کے سابق کپتان ظہیر عباس کو لائف ٹائم ایوارڈ کے لیے سٹیج پر بلایا گیا تو رميز راجہ نے گواسکر سے کہا کہ آپ نے ظہیر عباس کا وکٹ حاصل کرنے کے لیے کون سی گیند کی تھی، تیز، باؤنسر یا گگلي؟ جواب میں گواسکر نے کہا کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا، ہماری دوستی تو بہت پرانی ہے 1971 سے۔ یہ تو ظہیر نے ہی سوچا کہ چلو اس کو وکٹ دے دیتے ہیں ورنہ ریٹائر ہونے تک انہیں تو وکٹ ملنے سے رہی۔

اس موقع پر جب ظہیر عباس سے ان کی بہترین بلے بازی کا راز پوچھا گیا تو انہوں نے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ مشق کے دوران وکٹ کیپر وسیم باری کو کہتے تھے کہ وہ ان کی خامیوں کے بارے میں بتائیں۔ ایسے ہی ایک موقعہ پر انہوں نے باری کو ذمہ داری دی لیکن تھوڑی دیر بعد جب انہوں نے پیچھے مڑكر دیکھا تو باری وہاں نہیں تھے انہوں باری سے پوچھا کہ کیا ہوا بھائی تم چلے کیوں گئے تو باری نے پیار سے گالی دیتے ہوئے کہا کہ ... ’ تو کوئی بال چھڈے گا تا ای تو دسے گا کتھے غلطتي کی‘۔

ویسے تو اس تقریب میں بہت سے یادگار لمحے آئے لیکن رميز راجہ اور سابق کپتان انضمام الحق کے درمیان ہوئی چہلبازی نے تو ہنسی کی محفل سجا دی۔ رميز نے کہا کہ میری کتاب کے حساب سے پاکستان نے کبھی اتنا ’کول‘ کھلاڑی پیدا نہیں کیا ہے جتنا زیادہ دباؤ والا ماحول اتنے ہی آپ پر سکون، کیا ہے راز .....؟ انضمام نے کہا: 'دباؤ تو مجھ پر بھی ہوتا تھا شاید دکھائی نہیں دیتا تھا دراصل 1992 میں عالمی کپ کے فائنل میں جب میں کپتان عمران خان کے ساتھ کھیل رہا تھا تو انہوں نے کہا کہ یہ جونوے ہزار کی بھیڑ یہاں آئی ہے ان کے سامنے یہ سوچ کر کھیلو کہ یہ تمہیں ہی دیکھنے آئی ہے۔ اپنے اوپر بھروسہ رکھو، بس یہ دو الفاظ میں نے یاد رکھے۔ اس کے بعد رميز نے پوچھا یادگار رن آؤٹ؟ انہوں نے کہا - بہت سارے۔

اس تقریب میں قصے تو بہت تھے لیکن باتوں باتوں میں غیر ملکی كوچز کو حوالے سے پاکستان کے سابق کپتان اور فاسٹ بولر وسیم اکرم اپنے دل کی بات کہہ دی۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ پاکستان کے لیے کھیل رہے تھے تو اس وقت پاکستان نے انگلینڈ کے جیفری بائکاٹ کو بہت سارے پیسے دے کر دو ہفتے تک کوچنگ کے لیے رکھا۔ یہ فیصلا اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئر مین کا تھا جو سمجھتے تھے کہ انہیں کرکٹ کی بڑی سمجھ ہے۔ بائکاٹ آئے اور نوجوان کھلاڑیوں کو تربیت دینی شروع کی۔ میں دور سے دیکھ رہا تھا کہ قذافی سٹیڈیم میں بالکل بيچو بيچ نوجوان کرکٹر عمران نذیر میدان کے پچ چکر لگانے کے بعد بائكاٹ کے سامنے ہاں، ہاں میں سر ہلا رہے تھے۔ تربیت ختم ہونے کے بعد میں نے اس سے پنجابی میں پوچھا - تو کیا کر رہا تھا، کجھ سمجھ میں آئی؟ عمران بولا - نہیں. میں نے کہا - تو تو پھر ہاں- ہاں میں سر کیوں ہلا رہا تھا، تو عمران بولا - اگر نا- نا کرتا تو وہ دو گھنٹے اور بولتا۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ’ٹیم آف دی ایئر‘ کا اعزاز

جمعہ, جنوری 04, 2013

انٹرنیٹ کی تیسویں سالگرہ

دنیا کا انقلابی اور سستا مواصلاتی رابطہ انٹر نیٹ جس نے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دی ہیں، پورے تیس برس کا ہو چکا ہے۔ اس بات پر یقین کرنا بھی اب مشکل لگتا ہے کہ انٹرنیٹ کو وجود میں آئے صرف تیس برس ہوئے ہیں جس نے یکم جنوری 1983ء کو باقاعدہ طور پر کام کرنا شروع کیا تھا۔

اس حوالے سے پہلی جنوری کو 'فلیگ ڈے' کا نام بھی دیا گیا، جب امریکی محکمہ دفاع نےمواصلاتی رابطہ کو 'انٹرنیٹ پروٹوکل کمیونکیشن سسٹم' میں تبدیل کر دیا تھا۔ برطانوی روزنامے 'میٹرو' کے مطابق انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میگزین کے نمائندے کرس ایڈورڈ کہتے ہیں، "مجھے اس بات کا یقین ہے کہ انٹرنیٹ کو اس روز پہلی بار آن کرنے والے شخص کو اس بات کا احساس نہیں ہو گا کہ وہ ایک انقلابی قدم اٹھانے جا رہا ہے"۔ انٹرنیٹ اپنے اندر پوری دنیا سموئے ہوئے ہےاور یہ کسی بھی شخص تک رسائی کا آسان اور سستا طریقہ سمجھا جاتا ہے۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ویلش سائنسدان ڈونلڈ ڈیوس نے مواصلاتی رابطہ 'آرپینٹ' کو 1960ء میں ڈیزائن کیا تھا جسے صرف امریکی محکمہ دفاع کے ذمہ دار باہمی رابطوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس رابطےکو مزید فعال بنانے کے لیے امریکہ کی یونیورسٹی اور ریسرچ کے اداروں میں کام کیا گیا۔ خاص طور پر 'یونیورسٹی آف کیلیفورنیا' اور 'اسٹین فورڈ ریسرچ انسٹیوٹ' نے اس نیٹ ورک کو جدید اور فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سنہ 1973 میں 'انٹرنیٹ پروٹوکول کمیونکیشن سسٹم' کو سہل اور طاقتور بنانے کے لیےمزید کام ہوا جس کے بعد اس مواصلاتی رابطے نے کمیونکیشن کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ انٹر نیٹ کا نظام پہلے سے موجود رابطے کے نظام کی کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے بنایا گیا تھا لہذا اس نے جلد ہی دقیانوسی نیٹ ورک کی جگہ حاصل کرلی کیونکہ گزشتہ نظاموں کے برعکس انٹرنیٹ کا کسی مقام پر فیل ہونے کا خطرہ موجود نہیں تھا۔ برطانوی سائنس دان ٹم برنر لی نےچھ سال بعد اسی رابطے کو استعمال کرتے ہوئے 1989ء میں 'انٹر لنک ہائپر ٹیکسٹ ڈاکومنٹس' ایجاد کی جسے بعد میں 'ورلڈ وائڈ ویب' کا نام دیا گیا۔

انٹرنیٹ کو تیسویں سالگرہ مبارک