چین اور امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اپنی اولاد کی پرورش میں بچوں کا رویہ تبدیل کرنے کے لیے بیشتر والدین جھوٹ بولتے ہیں۔ عام جگہوں پر والدین اپنے بچوں کو اکثر دھمکی دیتے ملیں گے کہ اگر وہ اپنی حرکت سے باز نہیں آئے تو انہیں تنہا چھوڑ کر چلے جائیں گے جو اس کی ایک واضح مثال یہ ہے۔ اس کے لیے کئی بار پرانی کہانیوں کا بھی سہارا لیا جاتا ہے۔ بچوں کو بعض خاص چیز کھانے کے لیے راضی کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ فلانی سبزی نہیں کھائیں گے تو اندھے ہوسکتے ہیں۔ اس تجزیاتی رپورٹ کو نفسیات سے متعلق ایک عالمی میگزین ’انٹرنیشنل جرنل آف سائیکالوجی‘ میں شائع کیا گيا ہے جس میں اس طرح کے جھوٹ کا جائزہ لیا گيا ہے۔ تقریباً دو سو خاندانوں کے ساتھ انٹرویو پر مبنی اس رپورٹ کے مطابق امریکہ اور چین دونوں ملکوں میں والدین کی ایک بڑی اکثریت بچوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اس طرح کے جھوٹ کا سہارا لیتی ہے۔
اس کی ایک بہت عام مثال یہ ہے کہ بچے کئی بار ایک جگہ سے نہیں جانا چاہتے یا بہت شرارت کرتے ہیں تو انہیں تنہا چھوڑنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گيا ہے ’اس نوعیت کا جھوٹ دنیا بھر ان تمام والدین میں عام ہے جو اپنے بچوں کی مرضی کے خلاف اس جگہ سے جانا چاہتے۔‘ ایک اور جھوٹ، جو بہت عام ہے، یہ کہ جب بچے کھلونا دلانے کی ضد کرتے ہیں تو والدین بچوں سے یہ کہ کر کر جھوٹا وعدہ کرتے ہیں کہ ہاں وہ مستقل میں اسے لے دیں گے۔
محقیقین نے ایسے بہت سے جھوٹوں کو جمع کیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب بچے شرارت کرتے ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ ’اگر باز نہیں آئے تو میں پولیس کو کال کرونگا‘۔ یا بعض دفعہ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ رویہ نہیں بدلتے تو ’پھر وہ جو خاتون وہاں پر کھڑی ہیں وہ آپ سے بہت ناراض ہو جائیں گي‘۔ بعض دفعہ والدین جھوٹ بول کر بچوں کو منانے میں اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں یہ کہتے سنا گيا ’اگر تم میرے ساتھ نہیں چلوگے تو پھر ایک اغوا کرنے والا آئے گا اور تمہیں یرغمال بناکر لے جائےگا‘۔
لیکن اس سلسلے میں اس طرح کے بھی بہت سے جھوٹ ہیں جو بچوں کے احساسات کے تحفظ کو خیال کرکے مثبت اثر کے لیے بولے جاتے ہیں۔ جیسے یہ کہنا کہ ’آپ کا پالتو، کتا یا بلی، آپ کے انکل کے فارم میں رہنے گيا ہے جہاں اسے کھیلنے کودنے کے لیے زیادہ وسیع جگہ ملے گي‘۔ کئي بار دکان پر بچوں سے یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ’آج پیسے نہیں لایا ہوں اور اس کے لیے کسی اور روز واپس آئیں گے‘۔ اس رپورٹ میں یہ بات واضح نہیں کی گئی ہے کہ اس سلسلے میں ماں اور باپ کے جھوٹ بولنے میں کیا فرق ہے۔ ریسرچ کرنے والے ماہرین کا تعلق امریکہ میں کیلیفورنیا یونیورسٹی، چین میں زیجنگ نیشنل یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کینیڈا کے شعبہ نسفیات سے ہے۔ امریکہ اور چین دونوں میں اس طرح کے جھوٹ عام بات ہے لیکن امریکہ کے بہ نسبت چین میں یہ کچھ زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بچوں کے رویہ میں تبدیلی کے لیے اس طرح کے جھوٹ کو سماج میں قبول کر لیا گيا ہے۔ مثال کے طور پر بچوں کو سبزی یا صلاد کھانے کی ترغیب دینے کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اگر بروکلی کھائیں گے تو زیادہ لمبے ہوں گے۔
اس رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ بچوں کے ساتھ یہ رویہ رکھنے پر بڑے ہونے پر والدین اور ان کے درمیان تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔اور بچوں میں اس سے جھوٹ بولنے کی بھی عادت پڑ جاتی ہے۔
والدین بچوں سے کیا جھوٹ بولتے ہیں
اس کی ایک بہت عام مثال یہ ہے کہ بچے کئی بار ایک جگہ سے نہیں جانا چاہتے یا بہت شرارت کرتے ہیں تو انہیں تنہا چھوڑنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گيا ہے ’اس نوعیت کا جھوٹ دنیا بھر ان تمام والدین میں عام ہے جو اپنے بچوں کی مرضی کے خلاف اس جگہ سے جانا چاہتے۔‘ ایک اور جھوٹ، جو بہت عام ہے، یہ کہ جب بچے کھلونا دلانے کی ضد کرتے ہیں تو والدین بچوں سے یہ کہ کر کر جھوٹا وعدہ کرتے ہیں کہ ہاں وہ مستقل میں اسے لے دیں گے۔
محقیقین نے ایسے بہت سے جھوٹوں کو جمع کیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب بچے شرارت کرتے ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ ’اگر باز نہیں آئے تو میں پولیس کو کال کرونگا‘۔ یا بعض دفعہ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ رویہ نہیں بدلتے تو ’پھر وہ جو خاتون وہاں پر کھڑی ہیں وہ آپ سے بہت ناراض ہو جائیں گي‘۔ بعض دفعہ والدین جھوٹ بول کر بچوں کو منانے میں اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں یہ کہتے سنا گيا ’اگر تم میرے ساتھ نہیں چلوگے تو پھر ایک اغوا کرنے والا آئے گا اور تمہیں یرغمال بناکر لے جائےگا‘۔
لیکن اس سلسلے میں اس طرح کے بھی بہت سے جھوٹ ہیں جو بچوں کے احساسات کے تحفظ کو خیال کرکے مثبت اثر کے لیے بولے جاتے ہیں۔ جیسے یہ کہنا کہ ’آپ کا پالتو، کتا یا بلی، آپ کے انکل کے فارم میں رہنے گيا ہے جہاں اسے کھیلنے کودنے کے لیے زیادہ وسیع جگہ ملے گي‘۔ کئي بار دکان پر بچوں سے یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ’آج پیسے نہیں لایا ہوں اور اس کے لیے کسی اور روز واپس آئیں گے‘۔ اس رپورٹ میں یہ بات واضح نہیں کی گئی ہے کہ اس سلسلے میں ماں اور باپ کے جھوٹ بولنے میں کیا فرق ہے۔ ریسرچ کرنے والے ماہرین کا تعلق امریکہ میں کیلیفورنیا یونیورسٹی، چین میں زیجنگ نیشنل یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کینیڈا کے شعبہ نسفیات سے ہے۔ امریکہ اور چین دونوں میں اس طرح کے جھوٹ عام بات ہے لیکن امریکہ کے بہ نسبت چین میں یہ کچھ زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بچوں کے رویہ میں تبدیلی کے لیے اس طرح کے جھوٹ کو سماج میں قبول کر لیا گيا ہے۔ مثال کے طور پر بچوں کو سبزی یا صلاد کھانے کی ترغیب دینے کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اگر بروکلی کھائیں گے تو زیادہ لمبے ہوں گے۔
اس رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ بچوں کے ساتھ یہ رویہ رکھنے پر بڑے ہونے پر والدین اور ان کے درمیان تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔اور بچوں میں اس سے جھوٹ بولنے کی بھی عادت پڑ جاتی ہے۔
والدین بچوں سے کیا جھوٹ بولتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔