دنیا کا انقلابی اور سستا مواصلاتی رابطہ انٹر نیٹ جس نے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دی ہیں، پورے تیس برس کا ہو چکا ہے۔ اس بات پر یقین کرنا بھی اب مشکل لگتا ہے کہ انٹرنیٹ کو وجود میں آئے صرف تیس برس ہوئے ہیں جس نے یکم جنوری 1983ء کو باقاعدہ طور پر کام کرنا شروع کیا تھا۔
اس حوالے سے پہلی جنوری کو 'فلیگ ڈے' کا نام بھی دیا گیا، جب امریکی محکمہ دفاع نےمواصلاتی رابطہ کو 'انٹرنیٹ پروٹوکل کمیونکیشن سسٹم' میں تبدیل کر دیا تھا۔ برطانوی روزنامے 'میٹرو' کے مطابق انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میگزین کے نمائندے کرس ایڈورڈ کہتے ہیں، "مجھے اس بات کا یقین ہے کہ انٹرنیٹ کو اس روز پہلی بار آن کرنے والے شخص کو اس بات کا احساس نہیں ہو گا کہ وہ ایک انقلابی قدم اٹھانے جا رہا ہے"۔ انٹرنیٹ اپنے اندر پوری دنیا سموئے ہوئے ہےاور یہ کسی بھی شخص تک رسائی کا آسان اور سستا طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ویلش سائنسدان ڈونلڈ ڈیوس نے مواصلاتی رابطہ 'آرپینٹ' کو 1960ء میں ڈیزائن کیا تھا جسے صرف امریکی محکمہ دفاع کے ذمہ دار باہمی رابطوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس رابطےکو مزید فعال بنانے کے لیے امریکہ کی یونیورسٹی اور ریسرچ کے اداروں میں کام کیا گیا۔ خاص طور پر 'یونیورسٹی آف کیلیفورنیا' اور 'اسٹین فورڈ ریسرچ انسٹیوٹ' نے اس نیٹ ورک کو جدید اور فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سنہ 1973 میں 'انٹرنیٹ پروٹوکول کمیونکیشن سسٹم' کو سہل اور طاقتور بنانے کے لیےمزید کام ہوا جس کے بعد اس مواصلاتی رابطے نے کمیونکیشن کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ انٹر نیٹ کا نظام پہلے سے موجود رابطے کے نظام کی کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے بنایا گیا تھا لہذا اس نے جلد ہی دقیانوسی نیٹ ورک کی جگہ حاصل کرلی کیونکہ گزشتہ نظاموں کے برعکس انٹرنیٹ کا کسی مقام پر فیل ہونے کا خطرہ موجود نہیں تھا۔ برطانوی سائنس دان ٹم برنر لی نےچھ سال بعد اسی رابطے کو استعمال کرتے ہوئے 1989ء میں 'انٹر لنک ہائپر ٹیکسٹ ڈاکومنٹس' ایجاد کی جسے بعد میں 'ورلڈ وائڈ ویب' کا نام دیا گیا۔
انٹرنیٹ کو تیسویں سالگرہ مبارک
اس حوالے سے پہلی جنوری کو 'فلیگ ڈے' کا نام بھی دیا گیا، جب امریکی محکمہ دفاع نےمواصلاتی رابطہ کو 'انٹرنیٹ پروٹوکل کمیونکیشن سسٹم' میں تبدیل کر دیا تھا۔ برطانوی روزنامے 'میٹرو' کے مطابق انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میگزین کے نمائندے کرس ایڈورڈ کہتے ہیں، "مجھے اس بات کا یقین ہے کہ انٹرنیٹ کو اس روز پہلی بار آن کرنے والے شخص کو اس بات کا احساس نہیں ہو گا کہ وہ ایک انقلابی قدم اٹھانے جا رہا ہے"۔ انٹرنیٹ اپنے اندر پوری دنیا سموئے ہوئے ہےاور یہ کسی بھی شخص تک رسائی کا آسان اور سستا طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ویلش سائنسدان ڈونلڈ ڈیوس نے مواصلاتی رابطہ 'آرپینٹ' کو 1960ء میں ڈیزائن کیا تھا جسے صرف امریکی محکمہ دفاع کے ذمہ دار باہمی رابطوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس رابطےکو مزید فعال بنانے کے لیے امریکہ کی یونیورسٹی اور ریسرچ کے اداروں میں کام کیا گیا۔ خاص طور پر 'یونیورسٹی آف کیلیفورنیا' اور 'اسٹین فورڈ ریسرچ انسٹیوٹ' نے اس نیٹ ورک کو جدید اور فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سنہ 1973 میں 'انٹرنیٹ پروٹوکول کمیونکیشن سسٹم' کو سہل اور طاقتور بنانے کے لیےمزید کام ہوا جس کے بعد اس مواصلاتی رابطے نے کمیونکیشن کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ انٹر نیٹ کا نظام پہلے سے موجود رابطے کے نظام کی کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے بنایا گیا تھا لہذا اس نے جلد ہی دقیانوسی نیٹ ورک کی جگہ حاصل کرلی کیونکہ گزشتہ نظاموں کے برعکس انٹرنیٹ کا کسی مقام پر فیل ہونے کا خطرہ موجود نہیں تھا۔ برطانوی سائنس دان ٹم برنر لی نےچھ سال بعد اسی رابطے کو استعمال کرتے ہوئے 1989ء میں 'انٹر لنک ہائپر ٹیکسٹ ڈاکومنٹس' ایجاد کی جسے بعد میں 'ورلڈ وائڈ ویب' کا نام دیا گیا۔
انٹرنیٹ کو تیسویں سالگرہ مبارک
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔