پاکستان میں آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجوہات اکثر بچے کو جنم دینے والی ماؤں کو بھی پتہ نہیں ہوتیں۔ ستائیس سالہ نازیہ جو حال ہی میں ماں بننے کے عمل سے گزری ہیں، کا تجربہ کافی تلخ ہے وہ بتاتی ہیں، ”میری یہ پہلی ڈیلیوری تھی۔ میں ہسپتال گئی تھی معمول کے چیک اپ یا معائنے کے لئے۔ میں وہاں گئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپریشن کی ضرورت ہے اس لئے فوری طور پر ہسپتال میں داخل ہو جائیں۔ مجھے انہوں نے وجہ کوئی نہیں بتائی۔ بس داخل کرنے کے بعد آپریشن کر دیا۔ مجھے کسی طرح کا درد نہیں تھا نہ ہی کوئی مسلئہ تھا لیکن انہوں نے آپریشن کیوں کیا یہ میں نہیں بتا سکتی‘‘۔ نازیہ نے مزید بتایا کہ آپریشن پر اٹھنے والے اخراجات اتنے زیادہ تھے کہ انہیں مجبوراً آپریشن کے دوسرے دن ہی ہسپتال سے رخصت لینی پڑی کیونکہ مزید اخراجات اٹھانے کی سکت ان کا خاندان نہیں رکھتا۔
یہ صرف نازیہ کا ہی نہیں بلکہ کئی خواتین کا شکوہ ہے جو ماں بننے کے عمل سے گزری ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ان کی فیملی ڈاکٹرز معائنے کے بعد انہیں یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ بچے کی پیدائش قدرتی طریقے سے عمل میں آنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ تاہم ان ہسپتالوں میں جہاں بچے کی پیدائش کے لئے اندراج کروایا جاتا ہے، وہاں کوئی نہ کوئی مسلئہ بتا کر آپریشن تجوہر کر دیا گیا۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مقرر کردہ معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں آپریشن کے ذریعے بچے کی ولادت کا تناسب 15 فیصد سے تجاوز نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان میں اس کا کیا تناسب ہے اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں کیونکہ سرکاری سطح پر ہسپتالوں سے ریکارڈ اکٹھا نہیں کیا جاتا۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ آپریشن سے بچوں کی ولادت کا تناسب پاکستان میں کہیں زیادہ ہے۔ اس کی آخر کیا وجہ ہے؟ اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سکریٹری اور معروف گائیناکالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ آپریشن میں اضافے کی ایک وجہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے، ”بعض اوقات کھبی کوئی مسلئہ ہوا مثلاً کوئی انفیکشن ہوجاتا ہے اور ڈاکٹر محسوس کرتا ہے کہ آپریشن پہلے کر دینا زیادہ مناسب ہے تو آپریشن کر دیا جاتا ہے، ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ نارمل ڈیلوری کی جائے تو دس ہزار روپے ملتے ہیں لیکن اگر آپریشن کیا جائے تو اس سے تیس ہزار مل جاتے ہیں، اس لئے بعض ڈاکٹر یہ کام کر ڈالتے ہیں۔ اور بعض آپریشن اس لئے ہوتے ہوں گے کہ جونئیر ڈاکڑز کو سیکھایا جا سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ethical practice نہیں ہے‘‘۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید کہتے ہیں کہ اگر کسی خاتون کو ایسا لگتا ہے کہ ان کا آپریشن غیر ضروری طور پر کیا گیا تو اس شکایت کے اندارج کے لئے بھی کوئی خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں، ”آپ PMDC پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں اپنی شکایت کا اندراج تو کروا سکتے ہیں تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ پاکستان میں جو یہ معاملہ چل رہا ہے اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے‘‘۔
یہ صرف نازیہ کا ہی نہیں بلکہ کئی خواتین کا شکوہ ہے جو ماں بننے کے عمل سے گزری ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ان کی فیملی ڈاکٹرز معائنے کے بعد انہیں یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ بچے کی پیدائش قدرتی طریقے سے عمل میں آنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ تاہم ان ہسپتالوں میں جہاں بچے کی پیدائش کے لئے اندراج کروایا جاتا ہے، وہاں کوئی نہ کوئی مسلئہ بتا کر آپریشن تجوہر کر دیا گیا۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مقرر کردہ معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں آپریشن کے ذریعے بچے کی ولادت کا تناسب 15 فیصد سے تجاوز نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان میں اس کا کیا تناسب ہے اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں کیونکہ سرکاری سطح پر ہسپتالوں سے ریکارڈ اکٹھا نہیں کیا جاتا۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ آپریشن سے بچوں کی ولادت کا تناسب پاکستان میں کہیں زیادہ ہے۔ اس کی آخر کیا وجہ ہے؟ اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سکریٹری اور معروف گائیناکالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ آپریشن میں اضافے کی ایک وجہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے، ”بعض اوقات کھبی کوئی مسلئہ ہوا مثلاً کوئی انفیکشن ہوجاتا ہے اور ڈاکٹر محسوس کرتا ہے کہ آپریشن پہلے کر دینا زیادہ مناسب ہے تو آپریشن کر دیا جاتا ہے، ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ نارمل ڈیلوری کی جائے تو دس ہزار روپے ملتے ہیں لیکن اگر آپریشن کیا جائے تو اس سے تیس ہزار مل جاتے ہیں، اس لئے بعض ڈاکٹر یہ کام کر ڈالتے ہیں۔ اور بعض آپریشن اس لئے ہوتے ہوں گے کہ جونئیر ڈاکڑز کو سیکھایا جا سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ethical practice نہیں ہے‘‘۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید کہتے ہیں کہ اگر کسی خاتون کو ایسا لگتا ہے کہ ان کا آپریشن غیر ضروری طور پر کیا گیا تو اس شکایت کے اندارج کے لئے بھی کوئی خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں، ”آپ PMDC پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں اپنی شکایت کا اندراج تو کروا سکتے ہیں تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ پاکستان میں جو یہ معاملہ چل رہا ہے اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے‘‘۔
آپریشن سے پیدا ہونے والے بچوں کو غیر معمولی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے |
ملتان کے ایک پرائیوٹ کلینک میں ماہر گائناکالوجسٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی ڈاکٹر غزالہ اعوان کا کہنا ہے کہ اگر کسی وجہ سے غیر ضروری آپریشن کا مشورہ دیا جا رہا ہے تو ان خواتین کو چاہئے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں ماہرین سے صلاح و مشورہ کیا کریں، ”سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو کیونکہ قدرتی یا آپریشن سے کی جانے والی ولادت کا کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا اس لئے بہتر ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں موجود کنسلٹنٹس سے مشورہ لیں‘‘۔
ڈاکٹر شیر شاہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ خواتین کو چاہئے کہ وہ ابتداء سے ہی کوشش کریں کہ ایسے ہسپتال سے رجوع کریں جس کے بارے میں وہ مطمئن ہوں۔
آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش پر ڈاکٹر کیوں مُصر
ڈاکٹر شیر شاہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ خواتین کو چاہئے کہ وہ ابتداء سے ہی کوشش کریں کہ ایسے ہسپتال سے رجوع کریں جس کے بارے میں وہ مطمئن ہوں۔
آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش پر ڈاکٹر کیوں مُصر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔