یقیناً آپ شارٹ میسج سروس (ایس ایم ایس ) کےبارے میں نہ صرف جانتے ہونگے بلکہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کو روزانہ ڈھیروں ایس ایم ایس بھی کرتے ہونگے۔
بیس سال قبل 3 دسمبر 1992 کو برطانیہ میں نیل پاپورتھ نے Vodafone کے ملازم رچرڈ جاروس کو اپنے کمپیوٹر کے ذریعے Merry Christmas کا پیغام بھیجا جسے رچرڈ نے اپنے Orbitel 901 فون پر وصول کیا۔ لیکن رچرڈ انہیں واپس مبارک باد کا جواب نہ بھیج سکے کیونکہ اس وقت Reply کی آپشن دستیاب نہیں تھی جسے 1993 میں نوکیا کے پہلے فون میں شامل کیا گیا۔
ایس ایم ایس کے لیے 160 حروف کے معیار کو اپنایا گیا جس کی بنیاد GSM کے سربراہ جرمن سائنسدان فرائڈہلیم ہلبرانڈ نے رکھی ، ان کے مطابق 128 بائٹس کے میسج میں زیادہ زیادہ سے 160 حروف کو سمویا جاسکتا تھا اور عام طور پر اتنے حروف اپنا مدعا سمجھانے کے لیے کافی ہیں۔
گو کہ آج کل ایس ایم ایس کے متبادل بہت سی سروسز دستیاب ہیں جو کم قیمت ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ فیچرز بھی فراہم کررہی ہیں لیکن دنیا بھر میں آج بھی کروڑوں لوگ ایس ایم ایس سروس استعمال کررہے ہیں، خاص کر پاکستان میں گذشتہ چند سالوں کے دوران ایس ایم ایس کے رجحان میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جس کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی۔
ایس ایم ایس کے لیے 160 حروف کے معیار کو اپنایا گیا جس کی بنیاد GSM کے سربراہ جرمن سائنسدان فرائڈہلیم ہلبرانڈ نے رکھی ، ان کے مطابق 128 بائٹس کے میسج میں زیادہ زیادہ سے 160 حروف کو سمویا جاسکتا تھا اور عام طور پر اتنے حروف اپنا مدعا سمجھانے کے لیے کافی ہیں۔
گو کہ آج کل ایس ایم ایس کے متبادل بہت سی سروسز دستیاب ہیں جو کم قیمت ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ فیچرز بھی فراہم کررہی ہیں لیکن دنیا بھر میں آج بھی کروڑوں لوگ ایس ایم ایس سروس استعمال کررہے ہیں، خاص کر پاکستان میں گذشتہ چند سالوں کے دوران ایس ایم ایس کے رجحان میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جس کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔