جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ |
رواں برس جرمنی میں ’خاموش ہیرو‘ کا بین الاقوامی میڈیا ایوارڈ ’بامبی‘ پاکستان میں گزشتہ پچاس برسوں سے جذام کے مرض کے خلاف برسر پیکار خاتون ڈاکٹر روتھ فاؤ کو دیا گیا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر جذام کی مشہور ڈاکٹر روتھ فاؤ کو یہ میڈیا پرائز جرمنی کے شہر ڈوسلڈورف ميں منعقدہ ايک تقريب ميں دیا گیا، جہاں دنیا بھر سے ٹیلی وژن اور فلم کی ایک ہزار سے زائد شخصیات جمع تھیں۔ جرمنی کے بین الاقوامی ٹیلی وژن اور میڈیا ایوارڈز یعنی بامبی انعامات جرمنی میں ایمی ایوارڈز کے برابر ہیں۔ یہ ایوارڈز فلم، ٹیلی وژن، موسیقی، کھیل اور اسی طرح دیگر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کو دیے جاتے ہیں۔ رواں برس 19 کیٹیگریز میں یہ انعامات دیے گئے ہيں۔ امسالہ ’خاموش ہیرو‘ کا ایوارڈ 83 سالہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کو دیا گیا۔ اس کے علاوہ ’بامبی ایوارڈ‘ حاصل کرنے والوں میں خلاء سے چھلانگ لگانے والے فیلیکس باؤم گارٹنر اور ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ سلمیٰ ہائیک شامل ہیں۔
روتھ فاؤ کی 50 سالہ کوششوں کی وجہ سے پاکستان میں جذام کے مریضوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس مرض پر ابھی تک پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر جذام کی مشہور ڈاکٹر روتھ فاؤ کو یہ میڈیا پرائز جرمنی کے شہر ڈوسلڈورف ميں منعقدہ ايک تقريب ميں دیا گیا، جہاں دنیا بھر سے ٹیلی وژن اور فلم کی ایک ہزار سے زائد شخصیات جمع تھیں۔ جرمنی کے بین الاقوامی ٹیلی وژن اور میڈیا ایوارڈز یعنی بامبی انعامات جرمنی میں ایمی ایوارڈز کے برابر ہیں۔ یہ ایوارڈز فلم، ٹیلی وژن، موسیقی، کھیل اور اسی طرح دیگر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کو دیے جاتے ہیں۔ رواں برس 19 کیٹیگریز میں یہ انعامات دیے گئے ہيں۔ امسالہ ’خاموش ہیرو‘ کا ایوارڈ 83 سالہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کو دیا گیا۔ اس کے علاوہ ’بامبی ایوارڈ‘ حاصل کرنے والوں میں خلاء سے چھلانگ لگانے والے فیلیکس باؤم گارٹنر اور ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ سلمیٰ ہائیک شامل ہیں۔
روتھ فاؤ کی 50 سالہ کوششوں کی وجہ سے پاکستان میں جذام کے مریضوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس مرض پر ابھی تک پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کی دہشت کے بعد ڈاکٹر روتھ فاؤ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر دیں گی۔ جرمنی کے سابق دارالحکومت بون میں ڈاکٹر بننے کے دوران سن 1957ء میں انہوں نے Daughters of the Heart of Mary نامی کلیسائی گروپ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ یہ مسیحی تنظیم فرانسیسی انقلاب کے دوران قائم کی گئی تھی۔ ڈاکٹر فاؤ کا پاکستان جانا اور وہاں فلاحی کام کرنا محض ایک اتفاق تھا۔
سن 1960ء میں انہیں بھارت میں کام کرنے کے لیے جانا تھا لیکن ویزے کے مسائل کی وجہ سے انہیں کراچی میں پڑاؤ کرنا پڑا۔ اسی دوران انہیں جذام سے متاثرہ افراد کی ایک کالونی میں جانے کا موقع ملا۔ مریضوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان میں ہی رہیں گی اور ایسے مریضوں کی مدد کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ مریضوں کی حالت قابل رحم تھی۔ وہاں کے باتھ روم گندگی سے بھرے پڑے تھے اور مریضوں کے جسموں پر جوئیں رینگ رہی تھیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ چوہے ان کے جسموں کو کاٹ رہے ہوتے تھے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ لوگ ابھی تک پتھر کے زمانے میں رہتے ہیں اور جانوروں کی طرح رینگتے ہیں۔ وہ لوگ اپنی قسمت سے مطمئن تھے لیکن یہ ان کی قسمت نہیں تھی۔ وہ اس سے بہت بہتر اور خوش زندگی گزار سکتے تھے۔‘‘
اس کے بعد سن 1963ء میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کا قائم کردہ کلینک جلد ہی جذام سے متاثرہ افراد کے لیے ايک دو منزلہ ہسپتال میں تبدیل ہو گیا اور رفتہ رفتہ پاکستان بھر میں اس کی شاخیں کھول دی گئیں۔ ان کے قائم کیے گئے ہسپتال میں نہ صرف ڈاکٹروں کو تربیت دی گئی بلکہ ہزاروں مریضوں کا علاج بھی کیا گیا۔ ان کی انہی کاوشوں سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نے سن 1968ء میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ایک قومی پروگرام کا آغاز بھی کیا تھا۔
سن 1960ء میں انہیں بھارت میں کام کرنے کے لیے جانا تھا لیکن ویزے کے مسائل کی وجہ سے انہیں کراچی میں پڑاؤ کرنا پڑا۔ اسی دوران انہیں جذام سے متاثرہ افراد کی ایک کالونی میں جانے کا موقع ملا۔ مریضوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان میں ہی رہیں گی اور ایسے مریضوں کی مدد کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ مریضوں کی حالت قابل رحم تھی۔ وہاں کے باتھ روم گندگی سے بھرے پڑے تھے اور مریضوں کے جسموں پر جوئیں رینگ رہی تھیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ چوہے ان کے جسموں کو کاٹ رہے ہوتے تھے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ لوگ ابھی تک پتھر کے زمانے میں رہتے ہیں اور جانوروں کی طرح رینگتے ہیں۔ وہ لوگ اپنی قسمت سے مطمئن تھے لیکن یہ ان کی قسمت نہیں تھی۔ وہ اس سے بہت بہتر اور خوش زندگی گزار سکتے تھے۔‘‘
اس کے بعد سن 1963ء میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کا قائم کردہ کلینک جلد ہی جذام سے متاثرہ افراد کے لیے ايک دو منزلہ ہسپتال میں تبدیل ہو گیا اور رفتہ رفتہ پاکستان بھر میں اس کی شاخیں کھول دی گئیں۔ ان کے قائم کیے گئے ہسپتال میں نہ صرف ڈاکٹروں کو تربیت دی گئی بلکہ ہزاروں مریضوں کا علاج بھی کیا گیا۔ ان کی انہی کاوشوں سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نے سن 1968ء میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ایک قومی پروگرام کا آغاز بھی کیا تھا۔
سن 1929ء میں جرمن شہر لائپزگ میں پیدا ہونے والی روتھ فاؤ اس وقت 17 برس کی تھیں، جب انہوں نے مشرقی جرمنی سے سرحد پار کر کے مغربی جرمنی آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ماضی کے مغربی جرمنی میں داخلے کے لیے وہ مسلسل دو دن اور دو راتیں چلتی رہی تھیں۔ خوشحال زندگی گزارنے کے لیے اتنی مشکلات کا سامنا کرنے والی روتھ فاؤ آج پاکستانی صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے روتھ فاؤ کہتی ہیں، ’’مجھے پاکستان میں کبھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔ میں نے لوگوں کی خدمت کے لیے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں بھی کام کیا ہے، جہاں زیادہ تر لوگ مجھے میرے کام کی وجہ سے جانتے ہیں اور کبھی بھی کسی نے میرے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔‘‘
جرمن میڈیا پرائز پاکستان کی ’خاموش ہیرو‘ کے نام
جرمن میڈیا پرائز پاکستان کی ’خاموش ہیرو‘ کے نام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکتہ
جواب دیںحذف کریںبے شمار ایسے لوگ دنیا میں موجود ہیں جنہوں نے لوگوں کی خدمت کو زندگی کا شعار بنا لیا، اپنا وطن اور گھر بار چھوڑ کر دور دراز کسی خطے میں انسانیت کی فلاح کے لئے خود کو وقف کردیا۔ پاکستانی قوم یقیناً خوش نصیب ہے جسے اتفاق سے ایسی ہستی میسر آگئی جس نے اپنی ساری زندگی جذام کے پاکستانی مریضوں کے علاج کے لئے پاک سرزمین پر گزار دی۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ یقیناً کسی ایوارڈ کی خواہش مند نہیں ہوں گی لیکن حکومت کو چاہیے کہ ان کی بے پایاں خدمات کے اعتراف میں انہیں پاکستان کا اعلیٰ ترین اعزاز عطا کرے۔