پاکستان کےصدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے پہلے ملک گیر اتفاق رائے پیدا کرنا انتہائی ضرروری ہوتا ہے جو اب ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتخاب کے قریب سیاسی جماعتیں دائیں بازو کے ووٹوں کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں اس لیے کسی آپریشن کے لیے مطلوبہ اتفاق رائے ممکن نہیں۔
اتوار کو ایوان صدر میں صحافیوں کی تنظیم سیفما کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں سوات اور جنوبی وزیرستان میں کامیاب آپریشن اسی وجہ سے ہو پائے تھے کہ ان کی حکومت نے ملک میں اتفاق رائے حاصل کر لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بغیر اتفاق رائے کے کسی آپریشن کا شروع کرنا خطرات سے خالی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو آپریشن شروع کرنے کا مشورہ دے رے ہیں انہیں یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ ملک میں کتنے مدرسے ہیں اور انہیں متحد ہوتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔
ملالہ پر طالبان کے حملے کے حوالے سے صدر زرداری نے کہا کہ حکومت نے ملالہ یوسفزئی کو سکیورٹی کی پیشکش کی تھی لیکن ان کے والد نے سکیورٹی لینے سے انکار کردیا تھا۔ صدر نے کہا کہ اگر ملالہ کے والد سکیورٹی کی پیشکش کو قبول بھی کر لیتے تو بھی ملالہ کی حفاظت کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا سکیورٹی لینے کی صورت میں شدت پسند بڑا حملہ کرتے جس میں ان کی جان بھی جا سکتی تھی۔
انہوں نے کہا جب ایک پولیس اہلکار نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ہلاک کردیا تو اس مقدمے کو چلانے کے لیے حکومت کے لیے وکیل تلاش کرنا مشکل ہوگیا جبکہ دوسری جانب ایک سابق چیف جسٹس نے خود کو قادری کی پیروی کے لیے پیش کردیا۔
انہوں نے کہا کہ چین کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ وہ مرحومہ بینظر بھٹو کے ساتھ تھے جب جمہوری طاقتوں نے پاکستان کو امداد کی یقین دہانیاں کرائیں لیکن جب وقت آیا تو ایسی شرطیں عائد کیں جن کو پورا کرنا شاید پاکستان کے بس میں ہی نہیں ہے۔
شدت پسندوں کے خلاف آپریشن ممکن نہیں: صدر زرداری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔