ہریانہ میں گذشتہ سال عصمت دری کے 733 واقعات درج ہوئے لیکن بہت سے واقعات درج ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ بھارت کے دارالحکومت دلی سے متصل ریاست ہریانہ کا ایک روایتی گاؤں ڈبرا ہے جس کی گلیاں تنگ ہیں اور کھلی نالیاں ہیں وہاں کے مکانات اینٹ اور گارے کے بنے ہوئے ہیں۔ بچے دھول میں کھیلتے ہیں اور مرد کنارے بیٹھے بیڑی اور حقہ پیتے رہتے ہیں۔ حالانکہ اس غریب کسان قصبے میں زیادہ لوگ باہر سے نہیں آتے ہیں لیکن ایک مکان کے باہر دو پولیس والے پہرے پر کھڑے ہیں اور اندر ایک سولہ سالہ لڑکی بیٹھی ہے۔ اس کے گرد کئی دوسری خواتین موجود ہیں۔ اس لڑکی کے لیے ہی وہاں پولیس کے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ چھہ ہفتے قبل وہ گلیوں سے گزرتی ہوئی کام پر جا رہی تھی جب کچھ لوگوں نے اس کو اغواء کر لیا تھا۔
اس نے کسی قسم کے احساسات کا اظہار کیے بغیر سپاٹ لہجے میں کہا کہ ’وہ لوگ مجھے گھسیٹ کر کار میں لے گئے اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی او مجھے ندی کے کنار ے لے گئے اور سات لوگوں نے باری باری میری عصمت دری کی اور باقی دیکھتے رہے۔‘ اس کی مصیبت وہیں ختم نہیں ہوئی۔ ان لوگوں نے اس واقعے کو اپنے موبائل فون پر ویڈیو کی صورت میں ریکارڈ کیا اور اس سخت گیر سماج میں اسے پھیلا دیا۔ لڑکی کے چچازاد بھائی نے کہاکہ’ان کے والد نے شرم کے مارے زہر کھا لیا۔ ہم لوگ انہیں ہسپتال لے گئے لیکن اس وقت تک کافی دیر ہو چکی تھی اور ہم انہیں نہی بچا سکے۔‘ اب تک نو مبینہ حملہ آور اور اغوا کرنے والے گرفتار ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی کچھ لوگ فرار ہیں۔
اس نے کسی قسم کے احساسات کا اظہار کیے بغیر سپاٹ لہجے میں کہا کہ ’وہ لوگ مجھے گھسیٹ کر کار میں لے گئے اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی او مجھے ندی کے کنار ے لے گئے اور سات لوگوں نے باری باری میری عصمت دری کی اور باقی دیکھتے رہے۔‘ اس کی مصیبت وہیں ختم نہیں ہوئی۔ ان لوگوں نے اس واقعے کو اپنے موبائل فون پر ویڈیو کی صورت میں ریکارڈ کیا اور اس سخت گیر سماج میں اسے پھیلا دیا۔ لڑکی کے چچازاد بھائی نے کہاکہ’ان کے والد نے شرم کے مارے زہر کھا لیا۔ ہم لوگ انہیں ہسپتال لے گئے لیکن اس وقت تک کافی دیر ہو چکی تھی اور ہم انہیں نہی بچا سکے۔‘ اب تک نو مبینہ حملہ آور اور اغوا کرنے والے گرفتار ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی کچھ لوگ فرار ہیں۔
خواتین کے خلاف پورے بھارت میں عصمت دری اور جنسی استحصال کے واقعات ہوتے ہیں لیکن ہریانہ ان میں الگ اس لیے ہے کہ وہاں سماج کا رویہ اس کے تئیں مختلف ہے۔ بھارت کے دارالحکومت دلی کے قریب اس علاقے میں ابھی بھی مردوں کی اجارہ داری ہے۔ دیہی ضلع جند میں ایک گاؤں کی ایک پنچایت جاری ہے۔ ایک بڑے سے ہال میں معمر حضرات چارپائی پر بیٹھے حقہ پی رہے ہیں اور ان میں کوئی بھی خاتون نہیں ہے۔ جیسا کہ صدیوں سے ہوتا آیا ہے وہ لوگ سماجی امور، خواتین اور حالیہ عصمت دری پر فیصلہ دیں گے۔
گاؤں کے ایک بزرگ سریش کوتھ نے کہاکہ’میں آپ کو عصمت دری کی اصل وجہ بتاتا ہوں۔ آپ دیکھیں اخباروں اور ٹیلی ویژن پر کیا دکھایا جا رہا ہے۔ نصف عریاں خواتین۔ یہ چیزیں ہیں جو ہمارے بچوں کو خراب کر رہی ہیں۔ آخر کار یہ بھارت ہے کوئی یورپ تو نہیں۔‘
ایسی تنقید بھی ہو رہی تھیں جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کھاپ برادری پنچایت ہے جس میں سارے مرد ہیں اور یہ سماجی اور سیاسی طور کافی مضبوط ہیں۔
ایسی تنقید بھی ہو رہی تھیں جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کھاپ برادری پنچایت ہے جس میں سارے مرد ہیں اور یہ سماجی اور سیاسی طور کافی مضبوط ہیں۔
عصمت دری کا شکار ڈبرا کی لڑکی نے کہا کہ لڑکیوں نے اس واقعے کے بعد ڈر سے سکول جانا چھوڑ دیا ہے اور وہ بہت زیادہ خوفزدہ ہیں۔
بھارت میں عصمت دری عام کیوں؟
بھارت میں عصمت دری عام کیوں؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔