گزشتہ دنوں امریکا میں نوجوان طلبہ کے ایک بین الاقوامی مقابلے جینیئس اولمپیاڈ میں ماحولیات کے شعبے میں ایک 15 سالہ پاکستانی نوجوان نے اپنے سائنسی پراجیکٹ پر دوسرا انعام یعنی سلور میڈل حاصل کیا ہے۔
پاکستانی طالب علم شاداب رسول کو جینیئس اولمپیاڈ کے شعبہ ماحولیات میں چاندی کا یہ تمغہ چائے کی استعمال شدہ پتی کی مدد سے صنعتی فضلے سے آلودہ پانی کو قابل استعمال بنانے کے حوالے سے ان کے پراجیکٹ پر دیا گیا۔
سندھ کے شہر خیرپور سے تعلق رکھنے والے پندرہ سالہ شاداب رسول، پاک ترک انٹرنیشنل سکول میں دسویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ ان کا یہ پراجیکٹ امریکا میں بین الاقوامی سطح پر ہائی سکول کے طالب علموں کے درمیان ہونے والے مقابلے GENIUS Olympiad میں شامل تھا۔ اس مقابلے کی مختلف کیٹگریز میں 50 ممالک کے 450 طالبعلموں نے شرکت کی اور اپنے پراجیکٹس پیش کیے۔ خیر پور سے شاداب رسول جبکہ ہری پور سے عبدالدائم دو پاکستانی طالبعلم تھے جنہیں اس مقابلے میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ شاداب بتاتے ہیں، ’’ہم دونوں طالب علموں کے علیحدہ پراجیکٹس تھے۔ ہم نے ججوں کے سامنے اپنی ریسرچ پیش کی۔ اگلے دن اس مقابلے کے نتائج کا اعلان ہوا جس کے مطابق مجھے Environmental Quality کے شعبے میں چاندی کا تمغہ دیا گیا۔‘‘
اپنے پراجیکٹ کی تفصیلات کے حوالے سے شاداب نے بتایا کہ انہوں نے چائے کی پتی کے ذریعے صعنتی فضلے میں موجود چار خطرناک دھاتوں کو کشید کرتے ہوئے ان کا خاتمہ کیا،’’میرے پراجیکٹ کا عنوان تھا
پاکستانی طالب علم شاداب رسول کو جینیئس اولمپیاڈ کے شعبہ ماحولیات میں چاندی کا یہ تمغہ چائے کی استعمال شدہ پتی کی مدد سے صنعتی فضلے سے آلودہ پانی کو قابل استعمال بنانے کے حوالے سے ان کے پراجیکٹ پر دیا گیا۔
سندھ کے شہر خیرپور سے تعلق رکھنے والے پندرہ سالہ شاداب رسول، پاک ترک انٹرنیشنل سکول میں دسویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ ان کا یہ پراجیکٹ امریکا میں بین الاقوامی سطح پر ہائی سکول کے طالب علموں کے درمیان ہونے والے مقابلے GENIUS Olympiad میں شامل تھا۔ اس مقابلے کی مختلف کیٹگریز میں 50 ممالک کے 450 طالبعلموں نے شرکت کی اور اپنے پراجیکٹس پیش کیے۔ خیر پور سے شاداب رسول جبکہ ہری پور سے عبدالدائم دو پاکستانی طالبعلم تھے جنہیں اس مقابلے میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ شاداب بتاتے ہیں، ’’ہم دونوں طالب علموں کے علیحدہ پراجیکٹس تھے۔ ہم نے ججوں کے سامنے اپنی ریسرچ پیش کی۔ اگلے دن اس مقابلے کے نتائج کا اعلان ہوا جس کے مطابق مجھے Environmental Quality کے شعبے میں چاندی کا تمغہ دیا گیا۔‘‘
اپنے پراجیکٹ کی تفصیلات کے حوالے سے شاداب نے بتایا کہ انہوں نے چائے کی پتی کے ذریعے صعنتی فضلے میں موجود چار خطرناک دھاتوں کو کشید کرتے ہوئے ان کا خاتمہ کیا،’’میرے پراجیکٹ کا عنوان تھا
صعنتی فضلے میں چار خطرناک دھاتیں پائی جاتی ہیں جن میں نکل، کیڈمیئم، فینول اور لیڈ شامل ہیں۔ میں نے چائے کی پتی میں موجود بھاری دھاتوں کو جذب کرنے کی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے ان کا خاتمہ کیا۔ جس کے بعد یہ پانی کاشتکاری کے لیے قابل استعمال بن جاتا ہے‘‘۔
شاداب کے مطابق ان کا متعارف کروایا گیا طریقہ کار نہ صرف نہایت مؤثر ہے بلکہ اس پر لاگت بھی کم آتی ہے، ’’ہم نے ٹی بیگ کا استعمال اسی لیے کیا تھا تاکہ اس پر خرچہ کم آئے۔ ورنہ دھاتیں ختم کرنے کے لیے میگنیٹک فیلڈ کے علاوہ اور بھی کئی طریقے ہیں تاہم وہ لاگت کے اعتبار سے خاصے مہنگے ہیں۔ ہم نے اسی لیے چائے کی پتی استعمال کی جس کے باعث یہ پراجیکٹ کم سرمائے میں مکمل ہوسکتا ہے۔‘‘
اس مقابلے میں تمغے حاصل کرنے والے طالبعلوں کو سٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک کی جانب سے سکالر شپ دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جس کے بارے میں شاداب بتاتے ہیں، ’’مجھے جو سکالر شپ دی گئی ہے اس کے بارے میں پاکستانی میڈیا میں بہت بڑھا کر بتایا جارہا ہے۔ مجھے جو سکالر شپ دی گئی ہے وہ پچاس ہزار امریکی ڈالرز ہے جو کہ بیرون ملک تعلیم کے لیے ناکافی ہے۔ مجھے اس کے لیے SAT کے علاوہ ایک اور امتحان بھی پاس کرنا ہوگا ۔ اگر اس کا نتیجہ اچھا آیا تو اس کے بعد سکالر شپ کی رقم میں اضافہ ہوجائے گا۔‘‘
شاداب کے مطابق وہ انٹر کے امتحانات کے بعد سکالر شپ کے لیے امتحان دیں گے تاکہ مزید تعلیم حاصل کرتے ہوئے ملک اور قوم کا نام روشن کر سکیں۔
عالمی سائنس مقابلے میں پاکستانی نوجوان کی کامیابی
شاداب کے مطابق ان کا متعارف کروایا گیا طریقہ کار نہ صرف نہایت مؤثر ہے بلکہ اس پر لاگت بھی کم آتی ہے، ’’ہم نے ٹی بیگ کا استعمال اسی لیے کیا تھا تاکہ اس پر خرچہ کم آئے۔ ورنہ دھاتیں ختم کرنے کے لیے میگنیٹک فیلڈ کے علاوہ اور بھی کئی طریقے ہیں تاہم وہ لاگت کے اعتبار سے خاصے مہنگے ہیں۔ ہم نے اسی لیے چائے کی پتی استعمال کی جس کے باعث یہ پراجیکٹ کم سرمائے میں مکمل ہوسکتا ہے۔‘‘
اس مقابلے میں تمغے حاصل کرنے والے طالبعلوں کو سٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک کی جانب سے سکالر شپ دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جس کے بارے میں شاداب بتاتے ہیں، ’’مجھے جو سکالر شپ دی گئی ہے اس کے بارے میں پاکستانی میڈیا میں بہت بڑھا کر بتایا جارہا ہے۔ مجھے جو سکالر شپ دی گئی ہے وہ پچاس ہزار امریکی ڈالرز ہے جو کہ بیرون ملک تعلیم کے لیے ناکافی ہے۔ مجھے اس کے لیے SAT کے علاوہ ایک اور امتحان بھی پاس کرنا ہوگا ۔ اگر اس کا نتیجہ اچھا آیا تو اس کے بعد سکالر شپ کی رقم میں اضافہ ہوجائے گا۔‘‘
شاداب کے مطابق وہ انٹر کے امتحانات کے بعد سکالر شپ کے لیے امتحان دیں گے تاکہ مزید تعلیم حاصل کرتے ہوئے ملک اور قوم کا نام روشن کر سکیں۔
عالمی سائنس مقابلے میں پاکستانی نوجوان کی کامیابی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔