بھارتی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کی اس رپورٹ کے بعد کہ شمال مشرق کے باشندوں کے خلاف اشتعال انگیزی پھیلانے میں پاکستان کے انٹرنیٹ صارفین کا کردار بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا، اب ایک اور اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے کہا ہے کہ حکومت نے جو ویب پیجز بلاک کیے ہیں ان میں سے بیس فیصد کے پیچھے ہندو انتہا پسندوں کا ہاتھ تھا۔
اخبار کے مطابق ’سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس پر پاکستان کی جانب سے مذہبی منافرت پھیلائے جانے کے الزام پر ہنگامے میں ایک بات نظر انداز کردی گئی ہے اور وہ یہ کہ جو ویب پیج حکومت نے بلاک کیے ہیں ان میں سے تقریباً بیس فیصد مذہبی تفریق پیدا کرنے کے لیے ہندو شدت پسندوں نے اپ لوڈ کیے تھے۔‘
ٹائمز آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ان سائٹس پر ’مسلمانوں کے ہاتھوں بوڈو قبائلیوں کے ساتھ مبینہ زیادتیوں کی فرضی تصاویر اور ویڈیو شائع کی گئی ہیں اور ان کے ساتھ اشتعال انگیز کیپشن لگائے گئے ہیں۔‘
یہ بات پہلے بھی کہی جا رہی تھی کہ اتنے بڑے پیمانے پر افواہیں پھیلانے میں ہندو انتہا پسندوں کا ہاتھ بھی ہوسکتا ہے۔
اخبار نے اپنے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ کئی پیجز پر تبتی لوگوں کی خود سوزی کی تصایر شائع کی گئی ہیں لیکن انہیں اس انداز میں پیش کیا گیا ہے جیسے یہ غیرقانونی طور پر شمال مشرق میں بسنے والے مسلمانوں کے ہاتھوں ’آسامی ہندوؤں‘ پر زیادتی کے واقعات ہوں۔
بدھ کی شام سرکاری ذرائع نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈین ایکسپریس نے جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ صحیح صورتحال کی عکاسی نہیں کرتے اور یہ کہ داخلہ سیکریٹری نے جو بیان دیا تھا وہ ’حقائق پر مبنی تھا۔‘
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ایجنسیوں کو اس بات کے سراغ بھی ملے ہیں کہ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے والے بہت سے ایس ایم ایس پیغامات بھی ہندو تنظیموں نےبھیجے تھے تاہم حکومت کی جانب سے ابھی اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا گيا ہے۔
اخبار نے ایک مثال دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بنگلور سے حال ہی میں یہ اطلاع ملی تھی کہ تین خواتین ایک ٹرین کو بم کے دھماکے سے اڑانے کی سازش کر رہی ہیں لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اطلاع دینے والا شخص ہندو انتہاپسند تنظیم بجرنگ دل کا کارکن تھا۔
ان افواہوں سے ملک میں پیدا شدہ صورتحال پر پارلیمان میں بحث کےدوران بہار کے سابق وزیر اعلی لالو پرساد یادو نے کہا تھا کچھ طاقتیں اس نازک صورتحال سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہیں لیکن انہوں نے ان طاقتوں کی نشاندہی نہیں کی تھی۔
افواہیں پھیلانے میں ہندو تنظیموں کا ہاتھ
اخبار کے مطابق ’سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس پر پاکستان کی جانب سے مذہبی منافرت پھیلائے جانے کے الزام پر ہنگامے میں ایک بات نظر انداز کردی گئی ہے اور وہ یہ کہ جو ویب پیج حکومت نے بلاک کیے ہیں ان میں سے تقریباً بیس فیصد مذہبی تفریق پیدا کرنے کے لیے ہندو شدت پسندوں نے اپ لوڈ کیے تھے۔‘
ٹائمز آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ان سائٹس پر ’مسلمانوں کے ہاتھوں بوڈو قبائلیوں کے ساتھ مبینہ زیادتیوں کی فرضی تصاویر اور ویڈیو شائع کی گئی ہیں اور ان کے ساتھ اشتعال انگیز کیپشن لگائے گئے ہیں۔‘
یہ بات پہلے بھی کہی جا رہی تھی کہ اتنے بڑے پیمانے پر افواہیں پھیلانے میں ہندو انتہا پسندوں کا ہاتھ بھی ہوسکتا ہے۔
اخبار نے اپنے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ کئی پیجز پر تبتی لوگوں کی خود سوزی کی تصایر شائع کی گئی ہیں لیکن انہیں اس انداز میں پیش کیا گیا ہے جیسے یہ غیرقانونی طور پر شمال مشرق میں بسنے والے مسلمانوں کے ہاتھوں ’آسامی ہندوؤں‘ پر زیادتی کے واقعات ہوں۔
بدھ کی شام سرکاری ذرائع نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈین ایکسپریس نے جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ صحیح صورتحال کی عکاسی نہیں کرتے اور یہ کہ داخلہ سیکریٹری نے جو بیان دیا تھا وہ ’حقائق پر مبنی تھا۔‘
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ایجنسیوں کو اس بات کے سراغ بھی ملے ہیں کہ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے والے بہت سے ایس ایم ایس پیغامات بھی ہندو تنظیموں نےبھیجے تھے تاہم حکومت کی جانب سے ابھی اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا گيا ہے۔
اخبار نے ایک مثال دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بنگلور سے حال ہی میں یہ اطلاع ملی تھی کہ تین خواتین ایک ٹرین کو بم کے دھماکے سے اڑانے کی سازش کر رہی ہیں لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اطلاع دینے والا شخص ہندو انتہاپسند تنظیم بجرنگ دل کا کارکن تھا۔
ان افواہوں سے ملک میں پیدا شدہ صورتحال پر پارلیمان میں بحث کےدوران بہار کے سابق وزیر اعلی لالو پرساد یادو نے کہا تھا کچھ طاقتیں اس نازک صورتحال سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہیں لیکن انہوں نے ان طاقتوں کی نشاندہی نہیں کی تھی۔
افواہیں پھیلانے میں ہندو تنظیموں کا ہاتھ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔