سائبریا کے شہر کراسنویارسک میں چائے پینے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا گیا ہے۔ یہاں ایک ہزار افراد کو بیک وقت ایک ہی میز پر بٹھا کر چائے پلائی گئی ہے۔ اس قسم کا پچھلا ریکارڈ برطانیہ میں قائم کیا گیا تھا جہاں چار سو افراد نے ساتھ مل کر چائے پی تھی۔
روس کا سفر کرنے والے غیرملکی لوگ جانتے ہیں کہ روسیوں کو چائے پینے کا انتہائی شوق ہے۔ تاہم چائے روس کے لیے ایک غیرملکی مشروب ہے۔ روس میں ایک عرصے تک خیال کیا جاتا تھا کہ اٹھارہویں صدی میں بادشاہ پیٹر اول یورپ کے سفر سے چائے لے کر آئے تھے۔ لیکن درحقیقت روس میں چائے سولہویں صدی میں چینی تاجروں کے توسط سے پہنچی تھی۔ یہ مشروب روسی لوگوں کو بہت پسند آیا تھا اور اس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ گئی تھی۔
چین سے روس میں چائے کی برآمد میں اضافہ ہوتا رہا۔ چائے کے عوض روس چین کو کپڑے، چمڑا، سمور اور دھاتیں فراہم کرتا تھا۔ چائے کی فروخت کرنے والے تاجروں کو روس اور چین کے درمیان گیارہ ہزار کلومیٹر کا راستہ طۓ کرنے میں چھہ ماہ لگتے تھے۔ شروع میں چائے بہت مہنگی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت میں کمی ہونے لگی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع میں روس کو کالی اور سبز چائے فراہم کی جاتی تھی لیکن سبز چائے روسیوں کو اچھی نہيں لگی تھی اس لیے چین سے سبز چائے کی برآمد بند کر دی گئی تھی۔
انیسویں صدی کے شروع تک چائے بڑے شہروں میں بہت مقبول ہو چکی تھی۔ ساٹھ فی صد چائے کے شوقین دارالحکومت میں رہتے تھے۔ بعد میں چائے پینے کی روایت ملک بھر میں پھیل گئی۔ اعداد و شمار کے مطابق جن علاقوں میں چائے کا استعمال بڑھ جاتا تھا وہاں شراب کے استعمال میں کمی ریکارڈ کی جاتی تھی۔
بیسویں صدی کے اوائل میں روس چائے کے استعمال کے حوالے سے دنیا میں پہلے مقام پر تھا۔ روس میں چائے کے ہزاروں ہوٹل اور چائے کی فروخت کرنے والی متعدد دوکانیں موجود تھیں۔ تاہم روس کی سرزمین پر چائے اگانے کی کوششیں ناکام رہی تھیں اس لیے چین سے چائے کی درآمد جاری رہی۔
روس میں چائے پینے کی کچھ روایات وجود میں آئی تھیں۔ کچھ لوگوں میں لیمون، جڑی بوٹیوں یا شہد کے ساتھ چائے پینے کا شوق پیدا ہوا۔ چائے کے لیے خصوصی برتن بنانے والی صنعت قائم ہو گئی۔ چائے بنانے کے لیے استعمال کئے جانے والا برتن سماوار اس قدر مشہور و معروف ہو گیا تھا کہ سماوار روس کا ایک قومی نشان سمجھا جانے لگا۔ سماوار لوہے سے بنا برتن ہوتا ہے جس کے اندر خلا ہوتا ہے۔ اس خلا میں ایندھن رکھ کر پانی ابالا جاتا ہے۔ سماوار مختلف سائز اور اشکال کے ہوتے ہیں، ان کو مختلف طریقوں سے سجایا جاتا ہے۔ تاہم اب روسی لوگ سماوار کے ذریعے چائے بنانے کی عادت فراموش کر چکے ہیں۔
1917 میں پیش آئے اشتراکی انقلاب کے بعد ملک کے نئے حکام نے چین سے چائے کی درآمد پر روس کے انحصار کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یوں سوویت یونین میں چائے کی صنعت کو ترقی دی جانے لگی تھی۔ بیس اور تیس کے عشرے میں سوویت یونین میں اپنی چائے اگائی گئی۔ چائے کے بڑے بڑے کھیت بنائے گئے۔ چائے کی صنعت میں اولین مقام جارجیا اور آذربائجان کو حاصل تھا۔ یوں سوویت یونین چین سے درآمد کردہ چائے پر انحصار کو کم کرنے کے علاوہ اپنی چائے مختلف ممالک میں برآمد کرنے لگا۔
سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد چائے کے کھیت نئے خودمختار ممالک میں رہ گئے اس لیے روس کو چائے کی درآمد دوبارہ شروع کرنی پڑی۔ آج روس چین، ہندوستان، سری لنکا اور کینیا سے چائے خریدتا ہے۔ روس میں بیاسی فی صد لوگ ہر روز کالی چائے پیتے ہیں اور دو اعشاریہ دو فی صد افراد سبز چائے۔ روس میں چائے کا فی کس روزانہ استعمال آدھا لیٹر ہے۔
مختصر یہ کہ روس میں چائے اگرچہ نہیں اگائی جاتی لیکن ملک میں چائے پینے کی صدیوں پرانی روایت موجود ہے۔
چائے، روسیوں کا پسندیدہ مشروب
روس کا سفر کرنے والے غیرملکی لوگ جانتے ہیں کہ روسیوں کو چائے پینے کا انتہائی شوق ہے۔ تاہم چائے روس کے لیے ایک غیرملکی مشروب ہے۔ روس میں ایک عرصے تک خیال کیا جاتا تھا کہ اٹھارہویں صدی میں بادشاہ پیٹر اول یورپ کے سفر سے چائے لے کر آئے تھے۔ لیکن درحقیقت روس میں چائے سولہویں صدی میں چینی تاجروں کے توسط سے پہنچی تھی۔ یہ مشروب روسی لوگوں کو بہت پسند آیا تھا اور اس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ گئی تھی۔
چین سے روس میں چائے کی برآمد میں اضافہ ہوتا رہا۔ چائے کے عوض روس چین کو کپڑے، چمڑا، سمور اور دھاتیں فراہم کرتا تھا۔ چائے کی فروخت کرنے والے تاجروں کو روس اور چین کے درمیان گیارہ ہزار کلومیٹر کا راستہ طۓ کرنے میں چھہ ماہ لگتے تھے۔ شروع میں چائے بہت مہنگی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت میں کمی ہونے لگی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع میں روس کو کالی اور سبز چائے فراہم کی جاتی تھی لیکن سبز چائے روسیوں کو اچھی نہيں لگی تھی اس لیے چین سے سبز چائے کی برآمد بند کر دی گئی تھی۔
انیسویں صدی کے شروع تک چائے بڑے شہروں میں بہت مقبول ہو چکی تھی۔ ساٹھ فی صد چائے کے شوقین دارالحکومت میں رہتے تھے۔ بعد میں چائے پینے کی روایت ملک بھر میں پھیل گئی۔ اعداد و شمار کے مطابق جن علاقوں میں چائے کا استعمال بڑھ جاتا تھا وہاں شراب کے استعمال میں کمی ریکارڈ کی جاتی تھی۔
بیسویں صدی کے اوائل میں روس چائے کے استعمال کے حوالے سے دنیا میں پہلے مقام پر تھا۔ روس میں چائے کے ہزاروں ہوٹل اور چائے کی فروخت کرنے والی متعدد دوکانیں موجود تھیں۔ تاہم روس کی سرزمین پر چائے اگانے کی کوششیں ناکام رہی تھیں اس لیے چین سے چائے کی درآمد جاری رہی۔
روس میں چائے پینے کی کچھ روایات وجود میں آئی تھیں۔ کچھ لوگوں میں لیمون، جڑی بوٹیوں یا شہد کے ساتھ چائے پینے کا شوق پیدا ہوا۔ چائے کے لیے خصوصی برتن بنانے والی صنعت قائم ہو گئی۔ چائے بنانے کے لیے استعمال کئے جانے والا برتن سماوار اس قدر مشہور و معروف ہو گیا تھا کہ سماوار روس کا ایک قومی نشان سمجھا جانے لگا۔ سماوار لوہے سے بنا برتن ہوتا ہے جس کے اندر خلا ہوتا ہے۔ اس خلا میں ایندھن رکھ کر پانی ابالا جاتا ہے۔ سماوار مختلف سائز اور اشکال کے ہوتے ہیں، ان کو مختلف طریقوں سے سجایا جاتا ہے۔ تاہم اب روسی لوگ سماوار کے ذریعے چائے بنانے کی عادت فراموش کر چکے ہیں۔
1917 میں پیش آئے اشتراکی انقلاب کے بعد ملک کے نئے حکام نے چین سے چائے کی درآمد پر روس کے انحصار کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یوں سوویت یونین میں چائے کی صنعت کو ترقی دی جانے لگی تھی۔ بیس اور تیس کے عشرے میں سوویت یونین میں اپنی چائے اگائی گئی۔ چائے کے بڑے بڑے کھیت بنائے گئے۔ چائے کی صنعت میں اولین مقام جارجیا اور آذربائجان کو حاصل تھا۔ یوں سوویت یونین چین سے درآمد کردہ چائے پر انحصار کو کم کرنے کے علاوہ اپنی چائے مختلف ممالک میں برآمد کرنے لگا۔
سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد چائے کے کھیت نئے خودمختار ممالک میں رہ گئے اس لیے روس کو چائے کی درآمد دوبارہ شروع کرنی پڑی۔ آج روس چین، ہندوستان، سری لنکا اور کینیا سے چائے خریدتا ہے۔ روس میں بیاسی فی صد لوگ ہر روز کالی چائے پیتے ہیں اور دو اعشاریہ دو فی صد افراد سبز چائے۔ روس میں چائے کا فی کس روزانہ استعمال آدھا لیٹر ہے۔
مختصر یہ کہ روس میں چائے اگرچہ نہیں اگائی جاتی لیکن ملک میں چائے پینے کی صدیوں پرانی روایت موجود ہے۔
چائے، روسیوں کا پسندیدہ مشروب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔