حضرت علی رضی اللہ عنہ بچپن سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوشِ تربیت میں پلے تھے اور جس قدر ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے مطلع ہونے کا موقع ملا تھا اور کسی کو نہیں ملا۔ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی نسبت کثیر الروایت کیوں ہیں؟ فرمایا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دریافت کرتا تھا تو بتاتے تھے۔ اور چپ رہتا تھا تو خود ابتدا کرتے تھے۔
اس کے ساتھ ذہانت، قوتِ استنباط، ملکۂ استخراج ایسا بڑھا ہوا تھا کہ عموماً صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اعتراف کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عام قول تھا کہ خدا نہ کرے کہ کوئی مشکل مسئلہ آن پڑے اور علی رضی اللہ عنہ ہم میں موجود نہ ہوں۔ عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ خود مجتہد تھے مگر کہا کرتے تھے کہ جب ہم کو علی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ مل جائے تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔
(ابو حنیفہ سے اقتباس)
اس کے ساتھ ذہانت، قوتِ استنباط، ملکۂ استخراج ایسا بڑھا ہوا تھا کہ عموماً صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اعتراف کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عام قول تھا کہ خدا نہ کرے کہ کوئی مشکل مسئلہ آن پڑے اور علی رضی اللہ عنہ ہم میں موجود نہ ہوں۔ عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ خود مجتہد تھے مگر کہا کرتے تھے کہ جب ہم کو علی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ مل جائے تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔
(ابو حنیفہ سے اقتباس)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔