بدھ, اکتوبر 10, 2012

کراچی میں دماغ خور کیڑے امیبا کے سبب 10 ہلاکتیں

اسلام آباد — عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے تصدیق کی ہے کہ انسانی دماغ کھانے والا ایک ’امیبیا‘ جولائی سے اب تک کراچی میں دس افراد کی موت کا سبب بن چکا ہے۔ نیگلیریا فاؤلری نامی اس یک خلیائی کیڑے سے متاثرہ افراد کی شرح اموات 98 فیصد سے بھی زائد ہے۔ انسانی آنکھ سے نظر نا آنے والا یہ کیڑا ناک کے ذریعے گندا پانی جسم میں داخل ہونے سے منتقل ہوتا ہے اور کسی ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل نہیں ہوسکتا۔

عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں ایک متعلقہ عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ اس بیماری سے متاثرہ تمام مریضوں نے ہسپتالوں سے رجوع کیا ہے یا نہیں کیونکہ عام لوگ اس بیماری سے آگاہ نہیں جبکہ ہسپتال پہلے ہی محدود وسائل کا شکار ہیں۔

امیبیا نھتنوں کی جھلیوں سےگزر کردماغ تک پہنچتا ہے اور ابتدائی مراحل میں اس کی علامات اتنی شدید نہیں ہوتیں۔ ان میں سر درد، گردن میں اکڑاؤ، بخار اور مریض کے پیٹ میں درد کی شکایات شامل ہیں۔ اس بیماری کا شکار ہونے کے بعد مریض پانچ سے سات دن کے اندر دم توڑ دیتا ہے۔

پاکستانی حکام نے صحت عامہ کے کارکنوں اور عوام میں اس بیماری کے بارے میں آگاہی مہم چلانے کا منصوبہ بنایا ہے، جبکہ اکثر صحت کے مراکز کو پہلے ہی چوکنا کردیا گیا ہے۔

پاکستان: دماغ خور کیڑا 10 افراد کی موت کا سبب


 دماغ کو نقصان پہنچانے والا امیبا، کراچی میں دس افراد ہلاک

 پاکستانی شہر کراچی میں Brain-eating amoeba یا دماغ کو نقصان پہنچانے والے امیبا کی وجہ سے دس افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق رواں سال مئی سے اس جان لیوا انفیکشن کے واقعات منظر عام پر آنا شروع ہوئے۔ 

برین اِیٹنگ امیبا یا نیگلیریا فاؤلیری Naegleria fowleri کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے متاثرین میں موت کی شرح 98 فیصد تک ہوتی ہے۔ طبی ذرائع کے مطابق یہ امیبا ایک ایسا یک خلیاتی جرثومہ ہے، جو صرف گندے پانی میں ہوتا ہے اور یہ ناک کے راستے انسانی دماغ میں داخل ہوتا ہے۔ اس جرثومے میں انسان سے انسانوں کو منتقلی کی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔ عالمی ادارہ صحت کے بیماریوں کے پھیلاؤ سے متعلق انتباہی شعبے کے سربراہ ڈاکٹر موسٰی نے بتایا کہ اس برین اِیٹنگ امیبا سے متاثر ہونے والے تمام مریضوں کا تعلق کراچی سے ہے۔ اس صورت حال میں حکام شہر بھر میں اس جان لیوا انفیکشن کے خلاف مہم شروع کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اس دوران عام شہریوں اور ہیلتھ ورکرز کو اس انفیکشن کی علامات اور اس سے بچاؤ کے طریقوں کے بارے میں بتایا جائے گا۔

ڈاکٹر موسٰی نے مزید بتایا کہ کراچی شہرکے تمام مراکز صحت کو بھی اس بارے میں آگاہ کردیا گیا ہے۔ اس موقع پر شہریوں کو مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ ناک میں بہت اوپر تک پانی ڈالنے سے گریز کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ جو پانی وہ استعمال کررہے ہیں، وہ جراثیم سے پاک ہو۔ ساتھ ہی کسی بھی علامت کے ظاہر ہونے کی صورت میں فوری طورپر ڈاکٹر سے مشورہ بھی کیا جانا چاہیے۔

یہ امیبا ناک کے ذریعے دماغ تک پہنچتا ہے۔ اس جرثومے کے حملے کی علامات میں سر میں شدید درد، گردن کا اکڑ جانا، بخار اور پیٹ میں درد وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹروں کے بقول اس دوران فوری طور پر ماہرین سے رجوع کرنا لازمی ہے ورنہ پانچ سے سات دن کے اندر اندر مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ 

بتایا گیا ہے کہ دماغ کو نقصان پہنچانے والے اس انفیکشن کے پھیلاؤ میں سوئمنگ پولز نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔ ڈاکٹروں کے خیال میں پولز میں کلورین کا نامناسب استعمال اس انفیکشن کی وجہ بن رہا ہے۔ تاہم ڈاکٹر موسٰی نے ان تمام باتوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب نیگلیریا فاؤلیری سے ہلاک ہونے والوں کے بارے میں معلوم کیا گیا، تو ان میں سے زیادہ تر سوئمنگ نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حکام کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کے نمونوں کے معائنے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے۔

امریکا میں بیماریوں کے کنٹرول کے ادارے کے مطابق 2002ء سے 2011 کے دوران امریکا میں 32 افراد اس انفیکشن کا شکار ہوئے تھے۔ 18 ملین کی آبادی والے شہر کراچی میں 2006ء میں بھی برین اِیٹنگ امیبا یا نیگلیریا فاؤلیری کے حملے کے واقعات سامنے آئے تھے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔