کئی بچے سکول جانے سے پہلے کی عمر یا سکول کے ابتدائی دنوں میں رات کو نیند میں شدید خوف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی اس حالت کو Night Terror کہتے ہیں اور اب ماہر ڈاکٹروں نے اس سے نمٹنے کا صحیح طریقہ بھی دریافت کرلیا ہے۔
رات کو نیند میں اچانک خوف کا شکار ہونے والے چھوٹے بچے جاگنے کے بعد یک دم چیخنا شروع کردیتے ہیں۔ ماں باپ کے لیے ان کو چپ کرانا انتہائی مشکل ثابت ہوتا ہے۔ ایسے بچے جاگنے اور آنکھیں کھلی ہونے کے باوجود اپنے والدین کی بات نہیں سنتے اور چند واقعات میں تو یہ بچے خود کلامی بھی شروع کردیتے ہیں۔
بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسی حالت میں والدین کو بچے کو گود میں لے کر اس سے آہستہ آواز میں بات کرنی چاہیے۔ بچے کو یہ احساس دلانا چاہیے کہ وہ محفوظ ہے اور وہ خوف کی وجہ سے کسی طرح خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا لے۔
جرمنی میں بچوں کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹروں کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر اُلرِش فیگےلَیر Ulrich Fegeler بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی حالت میں بچوں کو پوری طرح جگانے کی کوشش بھی زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ ’نائٹ ٹیرر‘ کے دوران بچے نیند اور جاگنے کی درمیانی حالت میں ہوتے ہیں۔ انہیں فوری طور پر یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہیں اور ان کے لیے دوبارہ سو جانا بھی مشکل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر فیگے لَیر کے مطابق بچوں کی اس حالت کو طبی زبان میں پاوور نوکٹُرنس Pavor Nocturnus کہتے ہیں۔ یہ حالت عام طور پر پانچ اور پندرہ منٹ کے درمیان تک رہتی ہے۔ پھر متاثرہ بچہ خود بخود دوبارہ سو جاتا ہے۔ اس حالت کا شکار عام طور پر صرف تین سے لے کر چھ فیصد تک بچے ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو رات کے وقت اچانک شدید خوف کا یہ تجربہ سونے کے بعد ایک گھنٹے سے لے کر چار گھنٹے تک کے عرصے کے درمیان کسی وقت ہوتا ہے۔
طبی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ صورتحال کوئی ڈراؤنا خواب دیکھنے کی حالت سے مختلف ہوتی ہے۔ نیند میں اچانک دہشت یا خوف کے شکار بچے صبح جب جاگتے ہیں تو انہیں کچھ یاد نہیں ہوتا۔ نیند میں خرابی کے اس عمل یا disorder کا کسی جسمانی یا نفسیاتی مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے کوئی لمبے عرصے تک باقی رہنے والے اثرات بھی نہیں ہوتے۔
جرمن ماہر Ulrich Fegeler کے بقول یہ حالت اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ بچوں کا اعصابی نظام ابھی نشو و نما کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے اور یہ نیند میں بھی بہت فعال ہوتا ہے۔ عام طور پر اس کی وجہ بچوں میں بہت زیادہ تھکاوٹ بھی ہوتی ہے۔ اس کا سبب کوئی نئی دوائی یا معمول سے ہٹ کر کسی مختلف جگہ یا ماحول میں سونا بھی ہو سکتا ہے۔
بچوں کی بیماریوں کے مشہور ڈاکٹر فیگے لَیر کہتے ہیں، ’’ایسی حالت میں بچوں کو پرسکون انداز میں تسلی دنیا اور انہیں کسی بھی خطرے میں نہ ہونے کا احساس دلانا سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔‘‘ جو بچے ایسے واقعات کا شکار ہوتے ہیں، انہیں ایک مقررہ وقت پر سلا دینا چاہیے اور سونے سے پہلے انہیں ہر قسم کے ذہنی دباؤ سے بچانا چاہیے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچوں میں ’نائٹ ٹیرر‘ کے واقعات پھر بھی کم نہ ہوں تو والدین کو کسی چائلڈ اسپیشلسٹ سے مشورہ کرنا چاہیے۔
بچے اگر خوف سے جاگ جائیں تو کیا کریں؟
رات کو نیند میں اچانک خوف کا شکار ہونے والے چھوٹے بچے جاگنے کے بعد یک دم چیخنا شروع کردیتے ہیں۔ ماں باپ کے لیے ان کو چپ کرانا انتہائی مشکل ثابت ہوتا ہے۔ ایسے بچے جاگنے اور آنکھیں کھلی ہونے کے باوجود اپنے والدین کی بات نہیں سنتے اور چند واقعات میں تو یہ بچے خود کلامی بھی شروع کردیتے ہیں۔
بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسی حالت میں والدین کو بچے کو گود میں لے کر اس سے آہستہ آواز میں بات کرنی چاہیے۔ بچے کو یہ احساس دلانا چاہیے کہ وہ محفوظ ہے اور وہ خوف کی وجہ سے کسی طرح خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا لے۔
جرمنی میں بچوں کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹروں کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر اُلرِش فیگےلَیر Ulrich Fegeler بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی حالت میں بچوں کو پوری طرح جگانے کی کوشش بھی زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ ’نائٹ ٹیرر‘ کے دوران بچے نیند اور جاگنے کی درمیانی حالت میں ہوتے ہیں۔ انہیں فوری طور پر یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہیں اور ان کے لیے دوبارہ سو جانا بھی مشکل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر فیگے لَیر کے مطابق بچوں کی اس حالت کو طبی زبان میں پاوور نوکٹُرنس Pavor Nocturnus کہتے ہیں۔ یہ حالت عام طور پر پانچ اور پندرہ منٹ کے درمیان تک رہتی ہے۔ پھر متاثرہ بچہ خود بخود دوبارہ سو جاتا ہے۔ اس حالت کا شکار عام طور پر صرف تین سے لے کر چھ فیصد تک بچے ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو رات کے وقت اچانک شدید خوف کا یہ تجربہ سونے کے بعد ایک گھنٹے سے لے کر چار گھنٹے تک کے عرصے کے درمیان کسی وقت ہوتا ہے۔
طبی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ صورتحال کوئی ڈراؤنا خواب دیکھنے کی حالت سے مختلف ہوتی ہے۔ نیند میں اچانک دہشت یا خوف کے شکار بچے صبح جب جاگتے ہیں تو انہیں کچھ یاد نہیں ہوتا۔ نیند میں خرابی کے اس عمل یا disorder کا کسی جسمانی یا نفسیاتی مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے کوئی لمبے عرصے تک باقی رہنے والے اثرات بھی نہیں ہوتے۔
جرمن ماہر Ulrich Fegeler کے بقول یہ حالت اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ بچوں کا اعصابی نظام ابھی نشو و نما کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے اور یہ نیند میں بھی بہت فعال ہوتا ہے۔ عام طور پر اس کی وجہ بچوں میں بہت زیادہ تھکاوٹ بھی ہوتی ہے۔ اس کا سبب کوئی نئی دوائی یا معمول سے ہٹ کر کسی مختلف جگہ یا ماحول میں سونا بھی ہو سکتا ہے۔
بچوں کی بیماریوں کے مشہور ڈاکٹر فیگے لَیر کہتے ہیں، ’’ایسی حالت میں بچوں کو پرسکون انداز میں تسلی دنیا اور انہیں کسی بھی خطرے میں نہ ہونے کا احساس دلانا سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔‘‘ جو بچے ایسے واقعات کا شکار ہوتے ہیں، انہیں ایک مقررہ وقت پر سلا دینا چاہیے اور سونے سے پہلے انہیں ہر قسم کے ذہنی دباؤ سے بچانا چاہیے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچوں میں ’نائٹ ٹیرر‘ کے واقعات پھر بھی کم نہ ہوں تو والدین کو کسی چائلڈ اسپیشلسٹ سے مشورہ کرنا چاہیے۔
بچے اگر خوف سے جاگ جائیں تو کیا کریں؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔