پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں عدالت نے ایک عیسائی بچی پر قرآنی قاعدہ جلانے کا الزام لگانے والوں میں شامل مسجد کے پیش امام کو بھی توہین مذہب کے الزام میں جیل بھجوا دیا ہے۔ پیش امام پر بچی کو پھنسانے کے لیے شواہد تبدیل کرنے اور اس کے لیے قرآن کی توہین کرنے کے الزام ہے۔ اسلام آباد کے نواحی گاؤں میرا جعفر کی مقامی مسجد کے امام حافظ خالد جدون کو پولیس نے سنیچر کی شب گرفتار کیا تھا۔
اسی گاؤں کی میرا جعفر کی رہائشی رمشاء نامی چودہ سالہ عیسائی بچی کو توہینِ مذہب کے الزامات کا سامنا ہے۔ انہیں تقریباً دو ہفتے قبل مبینہ طور پر قرآنی آیات پر مبنی کاغذ جلانے پر حراست میں لیا گیا تھا۔
اسلام آباد میں ہمارے نامہ نگار ذوالفقار علی سے رمنا پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او قاسم ضیاء نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حافظ خالد جدون کا نام توہینِ مذہب کی دفعہ دس سو پچانوے بی کے تحت درج اسی ایف آئی آر میں شامل کیا گیا ہے جس کے تحت رمشاء کو حراست میں لیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ حافظ خالد جدون پر رمشاء کی گرفتاری کو ممکن بنانے کے لیے شواہد تبدیل کرنے کا الزام بھی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ خالد جدون کی گرفتاری انہی کی مسجد کے نائب امام اور منتظم حافظ ملک محمد زبیر کی جانب سے ایک مقامی مجسٹریٹ کے سامنے سنیچر کو دیے گئے حلفیہ بیان کے نتیجے میں عمل میں آئی ہے۔ پولیس کے مطابق محمد زبیر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مسجد کے پیش امام جدون نے راکھ سے بھرے ہوئے شاپنگ بیگ میں خود ہی قرآنی اوراق ڈال دیے تھے۔
گرفتاری کے بعد امام مسجد کو اتوار کو سخت سکیورٹی میں اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جس نے انہیں چودہ دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔ پیشی کے موقع پر خالد جدون نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک شخص کے بیان پرانھیں پھنسایا گیا ہے اور یہ کہ وہ بے گناہ ہیں۔
مقدمے کے تفتیشی افسر منیر حسین جعفری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس بیان حلفی کے بعد مزید دو افراد نے بھی بیانِات حلفی دیے ہیں جس میں اس الزام کو دہرایا گیا ہے۔
اس سے پہلے ایک حکومتی طبی بورڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ رمشاء کی عمر چودہ برس ہے تاہم ذہنی لحاظ سے وہ اس سے کم عمر ہیں۔
اس ہفتے کے آغاز میں اسلام آباد کی مقامی عدالت نے رمشاء کے جوڈیشل ریمانڈ میں چودہ دن کی توسیع کر کے اُنہیں واپس جیل بھجوا دیا تھا۔ رمشاء کی ضمانت کی درخواست ایک مقامی سیشن کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔
رمشا کیس: ’امام مسجد توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار‘
اسی گاؤں کی میرا جعفر کی رہائشی رمشاء نامی چودہ سالہ عیسائی بچی کو توہینِ مذہب کے الزامات کا سامنا ہے۔ انہیں تقریباً دو ہفتے قبل مبینہ طور پر قرآنی آیات پر مبنی کاغذ جلانے پر حراست میں لیا گیا تھا۔
اسلام آباد میں ہمارے نامہ نگار ذوالفقار علی سے رمنا پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او قاسم ضیاء نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حافظ خالد جدون کا نام توہینِ مذہب کی دفعہ دس سو پچانوے بی کے تحت درج اسی ایف آئی آر میں شامل کیا گیا ہے جس کے تحت رمشاء کو حراست میں لیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ حافظ خالد جدون پر رمشاء کی گرفتاری کو ممکن بنانے کے لیے شواہد تبدیل کرنے کا الزام بھی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ خالد جدون کی گرفتاری انہی کی مسجد کے نائب امام اور منتظم حافظ ملک محمد زبیر کی جانب سے ایک مقامی مجسٹریٹ کے سامنے سنیچر کو دیے گئے حلفیہ بیان کے نتیجے میں عمل میں آئی ہے۔ پولیس کے مطابق محمد زبیر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مسجد کے پیش امام جدون نے راکھ سے بھرے ہوئے شاپنگ بیگ میں خود ہی قرآنی اوراق ڈال دیے تھے۔
گرفتاری کے بعد امام مسجد کو اتوار کو سخت سکیورٹی میں اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جس نے انہیں چودہ دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔ پیشی کے موقع پر خالد جدون نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک شخص کے بیان پرانھیں پھنسایا گیا ہے اور یہ کہ وہ بے گناہ ہیں۔
مقدمے کے تفتیشی افسر منیر حسین جعفری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس بیان حلفی کے بعد مزید دو افراد نے بھی بیانِات حلفی دیے ہیں جس میں اس الزام کو دہرایا گیا ہے۔
اس سے پہلے ایک حکومتی طبی بورڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ رمشاء کی عمر چودہ برس ہے تاہم ذہنی لحاظ سے وہ اس سے کم عمر ہیں۔
اس ہفتے کے آغاز میں اسلام آباد کی مقامی عدالت نے رمشاء کے جوڈیشل ریمانڈ میں چودہ دن کی توسیع کر کے اُنہیں واپس جیل بھجوا دیا تھا۔ رمشاء کی ضمانت کی درخواست ایک مقامی سیشن کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔
رمشا کیس: ’امام مسجد توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔