بدھ, اگست 15, 2012

برما: روہنگیا مسلمانوں کے لیے سکول کھولنے پر غور

برما کے صدر تھین سین نے کہا ہے کہ ان کی حکومت اقلتی روہنگیا مسلمانوں میں تعلیم کی شرح بہتر بنانے کے لیے وہاں سکول کھولے گی۔

روہنگیا مسلمان، بودھ اکثریتی ریاست پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ان پر مظالم ڈھا رہی ہے۔

وائس آف امریکہ کی برمی سروس کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں صدر تھین سین نے کہا کہ مختلف کمیونٹیز کے درمیان انسانی حقوق کے احترام اور ہم آہنگی کے فروغ میں مدد کے لیے تعلیم ایک اہم ذریعہ ہے۔

پیر کے روز برما کے دارلحکومت نے پیٹاؤ میں لیے گئے اس انٹرویو میں برما کے صدر نے روہنگیا مسلمانوں کے بنگالی کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ان کے علاقوں میں صرف دینی مدرسے ہیں اور بقول ان کے وہاں صحیح تعلیم کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت روہنگیا کے لیے سکول کھولے گی اور انہیں جدید تعلیم فراہم کرنے کے اقدامات کرے گی۔ اور جب وہ تعلیم حاصل کرلیں گے تو وہ اچھے اور برے میں صحیح تمیز کرسکیں گے۔

برما کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو، جن کی تعداد آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے، اپنا شہری تسلیم کرنے اور شہریت دینے سے انکار کرتی ہے۔ اکثر برمی باشندوں کا خیال ہے کہ روہنگیا بنگلہ دیش سے آنے والے غیرقانونی تارکین وطن ہیں۔

مسٹر تھین سین نے یہ بھی کہا کہ وہ برما کے شہریت سے متعلق برما کے 1982 کے قانون کو تبدیل کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جس کے تحت تارکین وطن کی تیسری نسل کو برما کی شہریت حاصل کرنے کا استحقاق حاصل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت حالیہ فسادات کے متاثرین کی مدد کررہی ہے اور انسانی حقوق سے متعلق برما کے آزاد کمشن سے شورش کی تحقیقات کرنے کے لیے کہا ہے۔

مئی میں پھوٹ پڑنے والے فسادات کے نتیجے میں دونوں کمیونیٹز کے 77 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے لیے کسی غیرملکی کمشن کی ضرورت نہیں ہے۔
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔