صوبہ سندھ کا صحرائے تھر بنجر ہونے کے باوجود اپنے آپ میں بہت دلکش ہے۔ خاص کر یہاں کے حیوانات۔ اوران حیوانات میں بھی سرفہرست ہے مور۔
مگر گذشتہ کچھ عرصے سے صحرائے تھر کے مور موت کے شکنجے میں گرفتار ہیں اور پچھلے انیس بیس دنوں میں 100 سے زائد مور ہلاک ہوچکے ہیں۔ ابتدا میں تو پتہ ہی نہیں چلا کہ ماجرہ کیا ہے پھر معلوم ہوا کہ ان میں ”رانی کھیت“ نامی بیماری پھوٹ پڑی ہے۔ اب سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ کہیں وہ اس صحرا سے ختم ہی نہ ہوجائیں۔
موروں کی ہلاکت کی سب سے پہلی اطلاع ملی تھر کے علاقے مٹھی سے۔ وہاں دیکھتے ہی دیکھتے کئی مور ہلاک ہوگئے۔ محکمہ جنگلی حیات کو اطلاع ملی تو انہوں نے کئی دن تحقیق میں گزار دیئے۔ اسی دوران کچھ ماہرین نے بتایا کہ موروں کو رانی کھیت کا جان لیوا مرض لاحق ہوگیا ہے۔
ابھی مٹھی میں معاملہ سنبھالا ہی نہیں تھا کہ یکے بعد دیگرے علاقے کی دس تحصیلوں سے بھی موروں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہونے لگیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مٹھی کے دیہاتوں کے بعد اب یہ بیماری ڈیپلو اور ننگر پارکر تحصیلوں تک پہنچ چکی ہے جہاں کے دس دیہات میں قریب ڈیڑھ درجن مور ہلاک ہوچکے ہیں۔
ادھر محکمہ وائلڈ لائف حکام نے متاثرہ دیہاتوں میں ادویات کی فراہمی کا سلسلہ شروع کردیا تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ متاثرہ دیہاتوں میں وائلڈ لائف کی ٹیمیں اور ادویات ضرورت سے کم ہیں۔
محکمہ وائلڈ لائف ذرائع کے مطابق اس بیماری کا دورانیہ 2 سے 18 دن تک کا ہوتا ہے اس لئے مٹھی سمیت جن علاقوں میں پہلے مرحلے میں ہی یہ بیماری پھیلی تھی وہاں اب ہلاکتوں میں واضح کمی آرہی ہے۔
اس بیماری نے وباء کی شکل اختیار کرکے اسلام کوٹ اورنوکوٹ کے مختلف دیہاتوں کو گھیرا ہوا ہے جہاں سے اب تک ایک درجن سے زائد موروں کی ہلاکت کی اطلاعات مل چکی ہیں جبکہ پورے تھر میں مجموعی تعداد ایک سو سے بڑھ چکی ہے۔
محکمہ پولٹری کی جانب سے پورے ضلع میں بھیجی جانے والی چارٹیموں میں صرف ایک ہی ماہر ڈاکٹر شامل ہے۔ صوبائی وزیروائلڈ لائف دیا رام اسرانی نے اپنے دورہ تھر کے دوران میڈیا کو یہ بتایا تھا کہ تھر میں اب تک ہلاک ہونے والے موروں کی تعداد صرف 11 ہے، جسے مقامی آبادی نے مسترد کردیا تھا۔
مقامی افراد کے مطابق صرف ببوگاؤں میں 33 سے زیادہ مور مرچکے ہیں۔ صوبائی وزیر نے مور بچاؤ مہم مزید تیز کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
سرکاری اعداد و شما ر کے مطابق تھرپارکر میں پائے جانے والے موروں کی تعداد 7 ہزارسے زیادہ ہے۔ دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ جنگل میں آزاد گھومنے والے موروں کو صرف چار ٹیموں کے ذریعے دوا پہنچانا مشکل کام ہے۔ اگر فوری طورپر بڑے پیمانے پر مہم شروع نہ کی گئی تو موروں کی نسل ختم ہوجائے گی۔
اس وقت بھی تھرپا رکر کے پیراکی، تھرپارکر ضلع کی یونین کونسل کلوئی، بھٹارو، مہرانو اور کھیتلاری میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہے اور گاؤں خان محمد لاشاری، بابن کوہ اور گرڑابہ کے مور بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ اگر فوری طور پر مور بچاؤ مہم میں تیزی نہ لائی گئی تو صحرائے تھر میں بڑے پیمانے پر مور ہلاک ہوسکتے ہیں۔
صحرائے تھر کا خوب صورت پرندہ ’مور‘ ۔۔ موت کے ہاتھوں بے بس
مگر گذشتہ کچھ عرصے سے صحرائے تھر کے مور موت کے شکنجے میں گرفتار ہیں اور پچھلے انیس بیس دنوں میں 100 سے زائد مور ہلاک ہوچکے ہیں۔ ابتدا میں تو پتہ ہی نہیں چلا کہ ماجرہ کیا ہے پھر معلوم ہوا کہ ان میں ”رانی کھیت“ نامی بیماری پھوٹ پڑی ہے۔ اب سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ کہیں وہ اس صحرا سے ختم ہی نہ ہوجائیں۔
موروں کی ہلاکت کی سب سے پہلی اطلاع ملی تھر کے علاقے مٹھی سے۔ وہاں دیکھتے ہی دیکھتے کئی مور ہلاک ہوگئے۔ محکمہ جنگلی حیات کو اطلاع ملی تو انہوں نے کئی دن تحقیق میں گزار دیئے۔ اسی دوران کچھ ماہرین نے بتایا کہ موروں کو رانی کھیت کا جان لیوا مرض لاحق ہوگیا ہے۔
ابھی مٹھی میں معاملہ سنبھالا ہی نہیں تھا کہ یکے بعد دیگرے علاقے کی دس تحصیلوں سے بھی موروں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہونے لگیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مٹھی کے دیہاتوں کے بعد اب یہ بیماری ڈیپلو اور ننگر پارکر تحصیلوں تک پہنچ چکی ہے جہاں کے دس دیہات میں قریب ڈیڑھ درجن مور ہلاک ہوچکے ہیں۔
ادھر محکمہ وائلڈ لائف حکام نے متاثرہ دیہاتوں میں ادویات کی فراہمی کا سلسلہ شروع کردیا تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ متاثرہ دیہاتوں میں وائلڈ لائف کی ٹیمیں اور ادویات ضرورت سے کم ہیں۔
محکمہ وائلڈ لائف ذرائع کے مطابق اس بیماری کا دورانیہ 2 سے 18 دن تک کا ہوتا ہے اس لئے مٹھی سمیت جن علاقوں میں پہلے مرحلے میں ہی یہ بیماری پھیلی تھی وہاں اب ہلاکتوں میں واضح کمی آرہی ہے۔
اس بیماری نے وباء کی شکل اختیار کرکے اسلام کوٹ اورنوکوٹ کے مختلف دیہاتوں کو گھیرا ہوا ہے جہاں سے اب تک ایک درجن سے زائد موروں کی ہلاکت کی اطلاعات مل چکی ہیں جبکہ پورے تھر میں مجموعی تعداد ایک سو سے بڑھ چکی ہے۔
محکمہ پولٹری کی جانب سے پورے ضلع میں بھیجی جانے والی چارٹیموں میں صرف ایک ہی ماہر ڈاکٹر شامل ہے۔ صوبائی وزیروائلڈ لائف دیا رام اسرانی نے اپنے دورہ تھر کے دوران میڈیا کو یہ بتایا تھا کہ تھر میں اب تک ہلاک ہونے والے موروں کی تعداد صرف 11 ہے، جسے مقامی آبادی نے مسترد کردیا تھا۔
مقامی افراد کے مطابق صرف ببوگاؤں میں 33 سے زیادہ مور مرچکے ہیں۔ صوبائی وزیر نے مور بچاؤ مہم مزید تیز کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
سرکاری اعداد و شما ر کے مطابق تھرپارکر میں پائے جانے والے موروں کی تعداد 7 ہزارسے زیادہ ہے۔ دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ جنگل میں آزاد گھومنے والے موروں کو صرف چار ٹیموں کے ذریعے دوا پہنچانا مشکل کام ہے۔ اگر فوری طورپر بڑے پیمانے پر مہم شروع نہ کی گئی تو موروں کی نسل ختم ہوجائے گی۔
اس وقت بھی تھرپا رکر کے پیراکی، تھرپارکر ضلع کی یونین کونسل کلوئی، بھٹارو، مہرانو اور کھیتلاری میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہے اور گاؤں خان محمد لاشاری، بابن کوہ اور گرڑابہ کے مور بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ اگر فوری طور پر مور بچاؤ مہم میں تیزی نہ لائی گئی تو صحرائے تھر میں بڑے پیمانے پر مور ہلاک ہوسکتے ہیں۔
صحرائے تھر کا خوب صورت پرندہ ’مور‘ ۔۔ موت کے ہاتھوں بے بس
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔