سول ہسپتال کراچی کی ان گیارہ عیسائی نرسوں کو علاج کے بعد اسپتال سے فارغ کردیا گیا ہے جن کے بارے کہا جارہا ہے کہ انہیں رمضان میں سرعام کھانے پینے پر سزا کے طور پر کسی نے چائے میں زہر ملا کر پلا دیا تھا۔ تاہم پاکستان کی عیسائی برادری کے راہنماؤں اور متعدد مسیحی تنظیموں نے اس واقعے پر سخت احتجاج کرتے ہوئے واقعے کی شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کرانے کا پرزور مطالبہ کیا ہے۔
واقعہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب اس وقت پیش آیا جب یہ نرسیں ہاسٹل کے کمرے میں چائے پی رہی تھیں کہ چائے پیتے ہی ان کی حالت خراب ہوگئی جس پر انہیں فوری طور پر ایمرجنسی وارڈ میں داخل کرایا گیا۔ ان میں سے تین نرسوں کی حالت زیادہ خراب تھی جس کے سبب انہیں آئی سی یو آئی سی یو منتقل کرنا پڑا۔
متاثرہ نرسوں کے اہل خانہ اور مسیحی تنظیموں نے اس شبہے کا اظہار کیا ہے کہ انہیں عیسائی ہونے کے سبب جان بوجھ کر زہر دیا گیا اور زہر دینے کی وجہ صرف یہ ہے کہ رمضان میں نرسوں کے کھلے عام کھانے پینے پر سخت اعتراض کیا گیا تھا۔
متاثرہ نرسوں میں سے ایک نرس نے بیان دیا ہے کہ چائے اس کی ایک ساتھی نے بنائی تھی جسے پیتے ہی ان کی حالت خراب ہوگئی تاہم ہسپتال کے سینیئر عہدیداروں کا کہنا ہے کہ چائے ان نرسوں سے ازخود بنائی تھی۔
پولیس سرجن کمال شیخ اور سول ہسپتال کے اسسٹنٹ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شکیل ملک واقعے کی مختلف زاویوں سے تحقیق کررہے ہیں۔ تحقیق کے دوران اس نکتے پر سب سے زیادہ توجہ دی جارہی ہے کہ کہیں واقعہ مذہبی رقابت کا نتیجہ تو نہیں۔
ادھر میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر قرار عباسی نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے تمام نرسوں کا طبی معائنہ کرنے کے بعد واقعے کی اطلاع عیدگاہ تھانے میں جمع کرادی ہے جس پر پولیس مزید کارروائی کرے گی۔
ڈاکٹر قرار عباسی نے بتایا کہ زہریلی چائے کے نمونے، برتن اوردیگر ساز و سامان کراچی کے نجی ہسپتال آغا خان کی لیبارٹری کو کیمیائی چانچ پڑتال کی غرض سے بھجوادیئے ہیں۔ رپورٹ جلد ہی متوقع ہے۔
واقعے پر رکن پارلیمنٹ سلیم کھوکھر نے اظہار افسوس اوررمضان میں سر عام کھانے پینے کی سزا کے طور پر نرسوں کو زہر دینے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ رات کے وقت پیش آیا تھا اور رات میں کسی کا روزہ نہیں ہوتا۔ تاہم انہوں نے میڈیا کو بریفنگ کے دوران کہا کہ سرکاری حکام اور پولیس کی مشترکہ ٹیموں کے ذریعے اس واقعے کی تحقیقات ہونی چاہئے۔
دوسری جانب واقعے پر عیسائی برادری میں خاصا غم و غصہ ہے۔ اس حوالے سے مسیحی برادری کے افراد کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ بھی کرچکے ہیں۔ کچھ راہنماؤں کی جانب سے سول ہسپتال کی انتظامیہ پر واقعے کو چھپانے کا بھی الزام لگایا گیا ہے تاہم ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سعید قریشی نے واقعے میں ہسپتال کے کسی بھی فرد کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد کیا ہے۔
مسیحی راہنما جاوید مائیکل کا کہنا ہے کہ واقعے کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کریں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسیحی برادری مسلمانوں کے عقائد کا احترام کرتی ہے اور پورے رمضان کھلے عام کھانے پینے سے اجتناب برتی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے عہدیدار عبدالحئی نے بھی واقعے کی مذمت کی ہے۔
زہریلی چائے بدستور معمہ، نرسیں ہسپتال سے فارغ
واقعہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب اس وقت پیش آیا جب یہ نرسیں ہاسٹل کے کمرے میں چائے پی رہی تھیں کہ چائے پیتے ہی ان کی حالت خراب ہوگئی جس پر انہیں فوری طور پر ایمرجنسی وارڈ میں داخل کرایا گیا۔ ان میں سے تین نرسوں کی حالت زیادہ خراب تھی جس کے سبب انہیں آئی سی یو آئی سی یو منتقل کرنا پڑا۔
متاثرہ نرسوں کے اہل خانہ اور مسیحی تنظیموں نے اس شبہے کا اظہار کیا ہے کہ انہیں عیسائی ہونے کے سبب جان بوجھ کر زہر دیا گیا اور زہر دینے کی وجہ صرف یہ ہے کہ رمضان میں نرسوں کے کھلے عام کھانے پینے پر سخت اعتراض کیا گیا تھا۔
متاثرہ نرسوں میں سے ایک نرس نے بیان دیا ہے کہ چائے اس کی ایک ساتھی نے بنائی تھی جسے پیتے ہی ان کی حالت خراب ہوگئی تاہم ہسپتال کے سینیئر عہدیداروں کا کہنا ہے کہ چائے ان نرسوں سے ازخود بنائی تھی۔
پولیس سرجن کمال شیخ اور سول ہسپتال کے اسسٹنٹ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شکیل ملک واقعے کی مختلف زاویوں سے تحقیق کررہے ہیں۔ تحقیق کے دوران اس نکتے پر سب سے زیادہ توجہ دی جارہی ہے کہ کہیں واقعہ مذہبی رقابت کا نتیجہ تو نہیں۔
ادھر میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر قرار عباسی نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے تمام نرسوں کا طبی معائنہ کرنے کے بعد واقعے کی اطلاع عیدگاہ تھانے میں جمع کرادی ہے جس پر پولیس مزید کارروائی کرے گی۔
ڈاکٹر قرار عباسی نے بتایا کہ زہریلی چائے کے نمونے، برتن اوردیگر ساز و سامان کراچی کے نجی ہسپتال آغا خان کی لیبارٹری کو کیمیائی چانچ پڑتال کی غرض سے بھجوادیئے ہیں۔ رپورٹ جلد ہی متوقع ہے۔
واقعے پر رکن پارلیمنٹ سلیم کھوکھر نے اظہار افسوس اوررمضان میں سر عام کھانے پینے کی سزا کے طور پر نرسوں کو زہر دینے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ رات کے وقت پیش آیا تھا اور رات میں کسی کا روزہ نہیں ہوتا۔ تاہم انہوں نے میڈیا کو بریفنگ کے دوران کہا کہ سرکاری حکام اور پولیس کی مشترکہ ٹیموں کے ذریعے اس واقعے کی تحقیقات ہونی چاہئے۔
دوسری جانب واقعے پر عیسائی برادری میں خاصا غم و غصہ ہے۔ اس حوالے سے مسیحی برادری کے افراد کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ بھی کرچکے ہیں۔ کچھ راہنماؤں کی جانب سے سول ہسپتال کی انتظامیہ پر واقعے کو چھپانے کا بھی الزام لگایا گیا ہے تاہم ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سعید قریشی نے واقعے میں ہسپتال کے کسی بھی فرد کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد کیا ہے۔
مسیحی راہنما جاوید مائیکل کا کہنا ہے کہ واقعے کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کریں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسیحی برادری مسلمانوں کے عقائد کا احترام کرتی ہے اور پورے رمضان کھلے عام کھانے پینے سے اجتناب برتی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے عہدیدار عبدالحئی نے بھی واقعے کی مذمت کی ہے۔
زہریلی چائے بدستور معمہ، نرسیں ہسپتال سے فارغ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔