منگل, جولائی 24, 2012

دنیا کا تصور ۔۔۔ ’’آہیں، سسکیاں، بھوک، پریشانی، جنگیں، تباہی‘‘

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ دنیا میں سازشیں ہی سازشیں ہیں، ہر شخص اقتدار چاہتا ہے، ہر شخص شہنشاہ ہے، پُرہوس اور ڈاکو ہے، زندگی کس قدر غیرمحفوظ ہے۔ بازاروں، گلیوں اور سڑکوں پر موت گھومتی ہے، انسانی زندگی بے حقیقت ہے، کوئی اس کا احترام نہیں کرتا، کوئی قدر نہیں، کوئی اخلاق نہیں، کوئی کسی کا دوست نہیں۔

 کیا لوگوں کا مذہب دولت نہیں بن چکا ہے؟ ایمان ہی دولت، جگہ جگہ دولت کی پوجا ہوتی ہے اور زرپرستی میں ایمان مکمل ہوتا ہے۔ ایمان میں کھوٹ ہے یا دولت کے لئے سب کچھ، اخلاقیات تک بھول گئے ہیں، انسانوں کے نزدیک دولت سے بڑھ کوئی چیز نہیں رہی، دولت کے حصول کے لئے سب کچھ بھول بیٹھے ہیں، کوئی رشتہ، کوئی تہذیب نہیں، دولت ہی خدا ہے، زرپرستی، ہوس پرستی کے علاوہ کسی اور معبود کی پوجا نہیں کی جاتی۔

کیا دنیا تباہی کے نزدیک ہے؟ اگر نہیں تو زندگی کا وجود کیا ہے؟ ’’آہیں، سسکیاں، بھوک، پریشانی، جنگیں، تباہی۔‘‘ یہ سب جمع کردی جائیں تو آج کی دنیا کا تصور مکمل ہوجاتا ہے۔

اوول ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ کی فتح

فاسٹ بولر ڈیل سٹین جنوبی افریقہ کی فتح میں اہم کردار ادا کیا
انہوں نے دوسری اننگز میں پانچ وکٹیں لیں
اوول میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں جنوبی افریقہ نے انگلینڈ کو ایک اننگز اور بارہ رنز سے شکست دے دی ہے۔

میچ کے آخری دن انگلینڈ کو اننگز کی شکست سے بچنے کے لیے دو سو باون رنز کی برتری ختم کرنا تھی لیکن اس کی پوری ٹیم دو سو چالیس رنز بنا کر پویلین لوٹ گئی۔

ہاشم آملہ کی ٹرپل سنچری اور گریم سمتھ اور ژاک کیلس کی سنچریوں کی بدولت جنوبی افریقہ نے اپنی پہلی اننگز صرف دو وکٹوں کے نقصان پر چھ سو سینتیس رنز بنا کر ڈیکلیئر کردی تھی اور اسے انگلینڈ پر دو سو باون رنز کی برتری حاصل ہوئی تھی۔

آخری دن انگلینڈ کو یہ برتری ختم کرنے کے لیے مزید ایک سو پچاس رنز درکار تھےجبکہ اس کی چھ وکٹیں باقی تھیں تاہم انگلش بلے باز اس مجموعے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔

انگلش بلے بازوں میں سے ایئن بیل پچپن اور میتھیو پرائر چالیس رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے ڈیل سٹین نے پانچ جبکہ عمران طاہر نے تین وکٹیں لے کر اپنی ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔

بدھ کو شروع ہونے والے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور پہلی اننگز میں تین سو پچاسی رنز بنائے تھے جن میں ایلسٹر کک کے ایک سو پندرہ رنز بھی شامل تھے۔

اس فتح کے نتیجے میں جنوبی افریقہ کو تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل ہوگئی ہے۔

اوول ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ کی فتح

روہنگیا مسلمان جائیں تو جائیں کہاں؟

زہرہ خاتون کے باپ کو ان کے سامنےگولی مار دی گئی
جون میں مغربی برما میں اپنی آنکھوں کے سامنے باپ کی ہلاکت دیکھنے والی زہرہ خاتون اب بھی صدمے سے چور ہیں۔

بنگلہ دیش کے جنوب مغربی شہر ٹیکناف کے ماہی گيروں کے ایک گاؤں میں چھّپر کی ایک جھونپڑی میں بیٹھی زہرہ نے اپنی غم کی داستان یوں بتائی ’میرے والد کو برما کے فوجیوں نے میری آنکھوں کے سامنے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ ہمارا پورا گاؤں تباہ کردیا گيا۔ ہم اپنی جان بچانے کے لیے بھاگے، ہمیں اب بھی پتہ نہیں ہے کہ میری ماں کا کیا ہوا۔‘

زہرا ان روہنگیا مسلمانوں میں سے ایک ہیں جو برما کے مغربی صوبہ رکھنی میں فرقہ وارنہ تشدد کے بعد کسی طرح جان بچا کر سرحد پار کرکے بنگلہ دیش میں آگئي ہیں۔ تیس سالہ زہرہ اپنی داستان سناتے ہوئے کئی بار رو پڑیں۔

ان کا کہنا تھا کہ برما کے اکثریتی بدھوں اور اقلیتی مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں کے دوارن ان کےگاؤں پر بھی حملہ کیا گيا۔ اس حملے میں تقریباً اسّی لوگ ہلاک ہوئے اور سینکڑوں لوگ بےگھر ہوگئے۔

برما میں چونکہ بیرونی صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے اس لیے ماوارئے عدالت قتل، گرفتاریوں اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق کی خبروں کی آزادانہ تحقیق مشکل ہے۔

زہرہ خان نے بتایا ’ہم چھ روز تک پانی میں ہی پھرتے رہے۔ ہم اپنے بچوں کو کئی دن کھانا تک نہیں کھلا سکے۔ جب ہم نے بنگلہ دیش پہنچنے کی کوشش کی تو ہمیں اس کی اجازت نہیں ملی، ہمیں نہیں معلوم کہ ہم پناہ کہاں لیں‘۔

مغربی برما میں تقریباً آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمان آباد ہیں۔ برما کے حکام کا دعویٰ ہے کہ روہنگیا حال ہی میں برصغیر سے نقل مکانی کرکے وہاں پہنچے ہیں۔

لیکن ڈھاکہ کا اصرار ہے کہ ان لوگوں کا تعلق برما سے ہے اس لیے بنگلہ دیش میں انہیں آنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس کا کہنا ہے کہ تقریباً چار لاکھ روہنگیا پہلے ہی سے غیرقانونی طور پر بنگلہ دیش میں رہ رہے ہیں۔

جون سے اب تک بنگلہ دیش نے پندرہ سو سے زیادہ برمی مسلمانوں کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا ہے کہ ان کی مدد کرنا اس کے بس میں نہیں ہے۔ لیکن زہرہ خان کی طرح کئی دیگر مہاجرین کسی طرح بنگلہ دیش میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

لیکن اجڑے ہوئے برمی مسلمانوں کے بنگلہ دیش میں داخلے کو روکنے کے لیے بنگلہ دیشی بارڈر سکیورٹی فورسز نے گشت میں اضافہ کردیا ہے۔ 

بنگلہ دیش میں برمی مسلمانوں کے کیمپس بنیادی سہولیات سے محروم ہیں
لیکن برما کے مسلمان مجبور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بدھ اکثریت نے ان کے گاؤں کا نشانہ بنایا تو سکیورٹی فورسز نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔

سیدہ بیگم کہتی ہیں ’فساد میں میرے شوہر کو ہلاک کردیا گیا۔ برما کی پولیس صرف مسلمانوں پر گولی چلا رہی تھی اور بدھوں پر نہیں۔ فوج چھت پر سے تماشہ دیکھ رہی تھیں لیکن اس نے مداخلت تک نہیں کی۔‘

تو برما کے مسلمان اس کشمکش میں مبتلا ہیں کہ اپنے ملک میں وہ محفوظ نہیں اور پڑوسی ان کی مدد نہیں کرسکتے۔ جو بنگلہ دیش میں ہیں بھی وہ کیمپوں میں اور انہیں غیرملکی مانا جاتا ہے۔ وہ جن کیمپوں میں مقیم ہیں وہاں بجلی اور پانی جیسی بنیادی ضروریات بھی نہیں ہیں۔

برما کے صدر تھین سین نے اس بارے میں حال ہی میں ایک بیان جاری کرکے برمی مسلمانوں کی تشویش میں مزید اضافہ کر دیا کہ ان مسلمانوں کو کسی تیسرے ملک میں آباد کرنا چاہیے۔

روہنگیا مسلمان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا تعلق برما سے ہے اور وہ اس شرط پر اپنے ملک جانے کے لیے تیار ہیں اگر ان کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔

کوکس بازار کے پاس کوٹوپلانگ کیمپ میں رہنے والے روہنگیا مسلمان احمد حسن کہتے ہیں ’ہمیں صدر کے بیان پر تشویش ہے۔ ہمارا تعلق برما سے ہے اور ہم اپنے گاؤں واپس جانا چاہتے ہیں۔ مہاجر کیمپ میں اس طرح رہنا بہت مشکل ہے۔ ہم برما جانے کو تیار ہیں اگر ہماری سکیورٹی کی ضمانت دی جائے۔‘

اس تنازع میں غریب برمی مسلمان پھنسے ہوئے ہیں اور مشکلات سے دوچار ہیں۔

روہنگیا مسلمان جائیں تو جائیں کہاں؟

ایچ آئی وی پازیٹو، عاصم اشرف

پاکستانی میں پہلی بار ایک ایچ آئی وی پازیٹو شوہر اور ایچ آئی وی نگیٹو بیوی
 کے ہاں صحتمند بیٹی کی پیدائش
اِس حوالے سے ہم نے ایک پاکستانی نوجوان عاصم اشرف سے لاہور میں رابطہ قائم کیا، جنھیں 18سال کی عمر میں پتہ چلا کہ وہ ایچ آئی وی پازیٹو ہیں۔

وہ پاکستان میں رہنما فیملی پلاننگ ایسو سی ایشن میں ایچ آئی وی ایڈز سے متعلق Coordinator ہیں۔

عاصم کی شادی ایک ایچ آئی وی نگیٹو خاتون، روبینہ سے ہوئی۔

عاصم پاکستان کے وہ پہلے ایچ آئی وی پازیٹو شخص ہیں جن کے ہاں شادی کے پانچ سال بعد ایک بیٹی نے جنم لیا۔ اُن کی بیٹی اور بیوی دونوں ایچ آئی وی نگیٹو ہیں۔

ایچ آئی وی پازیٹو، عاصم اشرف سے خصوصی انٹرویو

پیر, جولائی 23, 2012

ائیر کنڈیشنر کے ایک سو دس سال

ایک سو دس سال قبل یعنی سترہ جولائی سن انیس سو دو کو نیو یارک کے علاقے بروکلن میں واقع ایک اشاعت گھر میں نصب ائیر کنڈشننگ نظام کا استعمال شروع کیا گیا تھا۔ ائیر کنڈیشنر کے موجد ولیس ہیوی لینڈ کی عمر اس وقت صرف پچیس سال تھی، انہوں نے اپنے بنائے گئے آلے کا نام "ہوا کی پروسیسنگ کرنے والا آلہ" رکھا تھا۔ پہلا ائیر کنڈیشنر انسانوں کی سہولیت کے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اشاعت گھر میں نمی کم کی جائے جو اخبارات اور کتابوں کی اشاعت کے عمل پر بری طرح اثر انداز ہوتی تھی۔ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں ٹیکسٹائل ملز میں ائیر کنڈشننگ نظام کا وسیع پیمانے پر استعمال شروع کیا گیا تھا جبکہ سن انیس سو چودہ میں امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر مینیاپولیس میں ایک گھر میں پہلا ائیر کنڈیشنر نصب کیا گیا تھا۔

بشار الاسد کی اہلیہ روس میں نہیں، ماسکو

اسماء الاسد
روس نے جمعے کے روز انٹرنیٹ پر سامنے آنے والی ان چہ میگوئیوں کو ’افواہیں‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے، جن میں کہا جارہا ہے کہ بشار الاسد کی اہلیہ غالباً ملک سے فرار ہوکر روس پہنچ چکی ہیں۔

اسماء الاسد کو گزشتہ کافی عرصے سے عوامی سطح پر نہیں دیکھا گیا ہے اور گزشتہ کچھ روز سے انٹرنیٹ پر سماجی رابطے کی مختلف ویب سائٹس میں یہ کہا جارہا تھا کہ وہ ملک میں تشدد کی لہر میں اضافے کے تناظر میں فرار ہوکر روس میں پناہ لے چکی ہیں۔

روسی وزارت خارجہ کے ترجمان Alexander Lukashevich نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’میں چاہوں گا کہ ایسی افواہوں پر کوئی بات ہی نہ کروں۔ میرے خیال میں یہ غلط اطلاعات کا ایک جال ہے، جس کے بارے میں میں آپ سے کہوں گا کہ آپ اس میں نہ پھنسیں‘۔

انہوں نے ان اطلاعات کو بھی مسترد کردیا کہ بشارالاسد روس میں ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی تھیں کہ ملکی وزیردفاع کی دمشق میں ہلاکت کے بعد بشار الاسد بھی روس فرار ہوچکے ہیں۔ روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اسد رواں ہفتے دمشق میں اعلٰی سرکاری عہدیداروں کی ایک بم حملے میں ہلاکت کے بعد سرکاری ٹی وی پر نظر آئے تھے۔

ادھر فرانس میں متعین روسی سفیرالیگزینڈرے اورلوف نے جمعے کے روز کہا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد غالباً ’مہذب انداز‘ سے عہدہ صدارت چھوڑنے کے لیے تیار ہوں گے۔ ایک فرانسیسی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے اورلوف کا کہنا تھا، ’میرے خیال میں جو کچھ شام میں ہوچکا ہے، اس کے بعد بشار الاسد کا اقتدار میں رہنا مشکل ہوگا۔‘

دوسری جانب دمشق حکومت نے روسی سفیر کی جانب سے بشار الاسد کے اقتدار سے الگ ہونے سے متعلق سامنے آنے والے بیان کو سختی سے رد کردیا ہے۔ دمشق وزارت اطلاعات کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ بیان ’حقیقت کے برخلاف‘ ہے۔

پاکستان میں پنچایت کا ایک اور انسانیت سوز فیصلہ

پاکستانی حکومت کی جانب سے غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود جرگہ اور پنچایت اب بھی لوگوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کررہا ہے۔ خانیوال میں ایک خاتون مبینہ طور پر پنچایت کے حکم پر اینٹیں مار کر ہلاک کردی گئی ہے۔

اطلاعات کے مطابق پانچ بچوں کی ماں 25 سالہ مریم بی بی نے مبینہ طور پر علاقے کے ایک با اثر شخص کے کھیتوں سے گھاس کاٹ لیا تھا جس پر ایک پنچایت بلائی گئی اور بعد میں مریم بی بی کو قتل جبکہ اس کے شوہر کو اغوا کرلیا گیا۔

خانیوال کے واقعے کے حوالے سے مقامی ذرائع ابلاغ پر خبروں کی اشاعت کے بعد سپریم کورٹ نے معاملے کا از خود نوٹس لیا ہے۔ جمعے کو اپنی کارروائی میں عدالت نے پنجاب پولیس کو فوری طور پر ملزمان گرفتار کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ دوسری صورت میں صوبائی پولیس کے سربراہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔

اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیمیں ایک مرتبہ پھر سراپا احتجاج بن گئی ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف کارکن ثمر من اللہ نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں سب سے بڑی فکر و تشویش کی بات یہ ہے کہ جہاں عورتوں سے متعلق فیصلے آتے ہیں، وہاں ہمارے سامنے جو اعداد و شمار ہیں، ان کے مطابق جرگوں اور پنچایتوں کے فیصلوں میں بہت زیادہ زیادتی ہوتی ہے۔ جیسے ابھی پنجاب کا واقعہ ہوا ہے، جہاں ایک عورت کو اینٹوں سے مارا گیا یا جہاں بلوچستان میں عورتوں کو زندہ دفنایا گیا۔ یہ وہ مقدمات ہیں، جہاں اگر رسمی پنچایت نہیں تو اس علاقے کے بڑے فیصلہ کرلیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ سزا مناسب ہے‘۔ ثمر من اللہ کا کہنا ہے کہ جب تک ان واقعات کے ساتھ سختی سے نہیں نمٹا جائے گا یہ کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے۔

خیال رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے 23 اپریل 2004ء کو اپنے ایک فیصلے میں جرگوں کو غیرقانونی قرار دیا تھا جبکہ کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے بھی کوہستان میں مبینہ طور پر جرگے کے ہاتھوں 5 خواتین کے قتل سے متعلق ایک مقدمے کے دوران کہا تھا کہ پنچایتیں اور جرگے غیرقانونی ہیں۔

اوول: میچ پر جنوبی افریقہ کی گرفت مضبوط

اوول ٹیسٹ کے چوتھے روز دوسری اننگز میں انگلینڈ کی ٹیم مشکلات کا شکار ہے۔

انگلینڈ کو جنوبی افریقہ کی پہلی اننگز کی دو سو باون رنز کی برتری ختم کرنے کے لیے مزید ایک سو پچاسی رنز درکار ہیں جبکہ اس کی چھ وکٹیں باقی ہیں۔

اس سے قبل چوتھے دن چائے کے وقفے پر جنوبی افریقہ نے اپنی پہلی اننگز صرف دو وکٹوں کے نقصان پر چھ سو سینتیس رنز بنا کر ڈیکلیئر کردی ہے۔

چوتھے دن کی خاص بات ہاشم آملہ کی ٹرپل سنچری اور ژاک کیلس کی سنچری تھی۔ ان دونوں بلے بازوں کے درمیان تیسری وکٹ کے لیے تین سو ستتر رن کی شراکت ہوئی۔

چوتھے دن جنوبی افریقہ نے دو وکٹوں کے نقصان پر چار سو تین رنز سے اننگز شروع کی تو ہاشم آملہ کو ڈبل سنچری بنانے کے لیے اٹھارہ رنز درکار تھے جو انہوں نے باآسانی حاصل کرلیے۔

کھانے کے وقفے کے بعد ہاشم آملہ نے عمدہ بلے بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ڈبل سنچری کو ٹرپل سنچری میں تبدیل کیا۔ کیریئر کی پہلی ٹرپل سنچری انہوں نے چونتیس چوکوں کی مدد سے مکمل کی۔

ان کے ساتھی ژاک کیلس نے تیئیس چوکوں کی مدد سے ایک سو بیاسی رنز بنائے۔ یہ کیلس کی تینتالیسویں ٹیسٹ سنچری ہے اور وہ اس ٹیسٹ میں سنچری بنانے والے تیسرے جنوبی افریقی بلے باز ہیں۔

اتوار, جولائی 22, 2012

کیا دنیا صرف لڑکیوں کیلئے ہے؟


روسی اولمپک ٹیم لندن کے لیے روانہ

روس کی اولمپک ٹیم کی لندن کے لیے روانگی سے پہلے ماسکو میں لال چوک پر ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں وزیر برائے کھیل ویتالی متکو، قومی اولپمک کمیٹی کے صدر الیکساندر ژوکوو اور کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ انہوں نے گم نام سپاہی کی قبر پر پھول چڑھائے جس کے بعد کریملن میں ان کی ملاقات صدر مملکت ولادی میر پوتین سے ہوئی۔ پوتین نے تمنا کی کہ ہمارے کھلاڑیوں کی کامیابیوں کے اعزاز میں لندن کے اولمپک ٹھکانوں کے اوپر روس کا جھنڈا لہرایا جائے اور روس کا قومی ترانہ سنایا جائے۔ صدر مملکت نے یقین سے کہا کہ ٹیم کے اراکین کامیابی حاصل کرنے کے قابل ہیں۔

لندن اولمپسک میں روسی ٹیم سینتیس مقابلوں میں سے چونتیس مقابلوں میں حصہ لیں گے۔ روسی وفد میں چار سو چھتیس کھلاڑی شامل ہیں۔ روس کا اولمپک کھیلوں میں سب سے زیادہ تمغے حاصل کرنے والے تین اولین ممالک میں شامل ہونے کا منصوبہ ہے۔

سمتھ اور آملہ کی شاندار سنچریاں

اوول ٹیسٹ کے تیسرے دن کے اختتام پر جنوبی افریقہ نے دو وکٹوں کے نقصان پر چار سو تین رنز بنائے تھے۔ جنوبی افریقہ نے تیسرے دن کے کھیل کا آغاز ایک وکٹ کے نقصان پر چھیاسی رنز سے کیا تھا۔

جنوبی افریقہ کے کپتان گریم سمتھ اور ہاشم آملہ نے عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنچریاں سکور کیں۔ سمتھ ایک سو اکتیس رن بنا کر آؤٹ ہوئے جبکہ آملہ ایک سو بیاسی رن پر ناٹ آؤٹ تھے۔

سمتھ دنیا کے ساتویں کھلاڑی بن گئے ہیں جنہوں نے اپنے سوویں ٹیسٹ میں سنچری سکور کی ہے۔ کھیل کے اختتام پر آملہ کے ساتھ ژاک کالس بیاسی رن کے ساتھ کریز پر موجود تھے۔

جنوبی افریقہ کی پہلی وکٹ ایک اور دوسری دو سو ساٹھ رن پر گری۔

اس سے پہلے انگلینڈ کی پوری ٹیم تین سو پچاسی رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی تھی۔ انگلینڈ کی طرف سے سب سے زیادہ رن ایلسٹر کک نے بنائے جن کا سکور ایک سو پندرہ تھا۔

بدھ کو شروع ہونے والے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے درمیان موجودہ سیریز کے دوران تین ٹیسٹ، پا نچ ایک روزہ اور تین ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے جائیں گے۔

سمتھ اور آملہ کی شاندار سنچریاں

سری لنکا کو بائیس رنز سے شکست

سری لنکا کے شہر ہمبنٹوٹا میں بھارت اور سری لنکا کے مابین پہلے ایک روزہ میچ میں بھارت نے سری لنکا کو بائیس رنز سے شکست دے دی۔

بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ بھارت نے سری لنکا کو جیتنے کے لیے تین سو پندرہ رنز کا ہدف دیا تھا۔ بھارت نے چھ کھلاڑیوں کے نقصان پر تین سو چودہ رنز سکور کیے۔

جواب میں سری لنکا مقررہ اوورز میں 293 رنز بنا سکا اور اس کے نو کھلاڑی آؤٹ ہوئے تھے۔ سری لنکا کی جانب سے سنگاکارا ہی جم کر کھیل پائے اور انہوں نے 133 رنز سکور کیے۔

بھارت کی جانب سے اوپنر سہواگ بدقسمت رہے کہ وہ اپنی سنچری مکمل نہیں کرسکے۔ وہ چھیانوے رنز بنا کر رن آؤٹ ہوئے۔ کوہلی نے عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے سنچری مکمل کی اور انہوں نے ایک سو چھ رنز سکور کیے۔ ان کو پریرا نے آؤٹ کیا۔ رائنا نے بھی عمدہ کھیل پیش کیا اور نصف سنچری مکمل کی۔ ان کو بھی پریرا نے آؤٹ کیا۔

بھارت سری لنکا میں پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلے گا۔

سری لنکا کو بائیس رنز سے شکست

اولمپکس میں پاکستان کے صرف دس تمغے

پاکستان 1948 کے لندن اولمپکس سے 2008 کے بیجنگ اولمپکس تک سوائے ایک اولمپکس کے تمام میں باقاعدگی سے شرکت کرتا رہا ہے۔

افغانستان میں روسی موجودگی کے خلاف جن ملکوں نے 1980 کے ماسکو اولمپکس کا بائیکاٹ کیا تھا ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔
روم اولمپکس 1960ء میں‌ سونے کا تمغہ حاصل کرنے والی پاکستانی ہاکی ٹیم

پندرہ اولمپکس میں پاکستان نے اب تک گیارہ کھیلوں میں حصہ لیا ہے لیکن ان میں سے صرف تین کھیلوں ہاکی، باکسنگ اور پہلوانی میں وہ دس تمغے حاصل کرسکا ہے جن میں تین طلائی چاندی کے تین اور کانسی کے چار تمغے شامل ہیں۔

پاکستان نے تینوں طلائی تمغے ہاکی میں جیتے ہیں۔ اس نے یہ کامیابیاں 1960 کے روم اولمپکس، 1968 کے میکسیکو اولمپکس اور 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس میں حاصل کی ہیں۔ اس کے علاوہ ہاکی میں پاکستان نے چاندی کے تین اور کانسی کے دو تمغے بھی حاصل کیے ہیں۔

پاکستان نے کانسی کے دیگر دو تمغے پہلوانی اور باکسنگ میں جیتے ہیں۔ پہلوانی میں پاکستان کے محمد بشیر نے 1960 کے روم اولمپکس میں 73 کلوگرام کیٹگری میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔

1988 کے سیؤل اولمپکس میں باکسر حسین شاہ مڈل ویٹ کیٹگری میں کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔

سیؤل اولمپکس 1988ء میں حسین شاہ (شہید) وکٹری سٹینڈ پر
ایتھلیٹکس میں پاکستان نے چودہ اولمپکس میں شرکت کی ہے۔ پاکستانی ایتھلیٹس کی سب سے قابل ذکر کارکردگی 1956 کے میلبرن اولمپکس میں رہی جس میں عبدالخالق سو اور دو سو میٹرز کے سیمی فائنل تک پہنچے اور غلام رازق نے ایک سو دس میٹرز ہرڈلز کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی۔ چار ضرب سو میٹرز ریلے میں بھی پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک پہنچی۔

روم اولمپکس میں محمد اقبال ہیمرتھرو میں بارہویں نمبر پر آئے اور غلام رازق ایک بار پھر ایک سو دس میٹرز ہرڈلز کے سیمی فائنل تک پہنچے۔

1996 کے اٹلانٹا اولمپکس سے پاکستان کی خواتین ایتھلیٹس بھی اولمپکس میں شرکت کررہی ہیں۔

شبانہ اختر اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون ایتھلیٹ ہیں۔ انہوں نے اٹلانٹا اولمپکس میں لانگ جمپ میں حصہ لیا تھا۔

1988 کے سول اولمپکس میں جب ہاکی سے میڈل جیتنے کی امید پوری نہ ہوسکی حسین شاہ باکسنگ رنگ سے خوشی کی خبر لے آئے اور انہوں نے کانسی کا تمغہ جیتا۔ وہ مڈل ویٹ میں مکسیکو زائرے اور ہنگری کے باکسرز کو شکست دے کر کوارٹرفائنل میں پہنچے جہاں کینڈا کے باکسر ایگرٹن مارکس نے انہیں شکست دی۔

پاکستانی پارلیمان میں سگے بھائیوں میں اضافہ

سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے سید عبدالقادر گیلانی کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوجانے کے بعد پارلیمان کے ایوان زیریں میں موجود سگے بھائیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔

نو منتخب رکن قومی اسمبلی عبدالقادر گیلانی کے بھائی علی موسٰی گیلانی کچھ عرصہ قبل ہی ضمنی انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور گیلانی برادران سے پہلے یہ یہ اعزاز مسلم لیگ نون اور جمیت علماء اسلام کے ارکان اسمبلی کو حاصل تھا۔

گیلانی برادران سے قبل عام انتخابات میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور ان کے بھائی مولانا عطاء الرحمان ڈیرہ اسماعیل خان سے جبکہ مسلم لیگ نون کے راجہ صفدر اور راجہ اسد جہلم کے دو حلقوں سے بیک وقت رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

مسلم لیگ ن کے رانا تنویر حسین اور ان کے بھائی رانا افضال بھی ایک ہی وقت میں پنجاب کے ضلع شیخوپورہ سے رکن قومی اسمبلی ہیں۔

سنہ انیس سو ترانوے میں مسلم لیگ نون کے قائد نوازشریف اور ان کے بھائی شہبازشریف بھی بیک وقت رکن قومی اسمبلی رہے۔ انیس سو ستانوے میں جب نوازشریف وزیراعظم تھے تو ان کے ایک بھائی عباس شریف رکن قومی اسمبلی اور دوسرے بھائی شہبازشریف وزیراعلٰی پنجاب تھے۔

قومی اسمبلی میں جہاں ایک جماعت سے بیک وقت منتخب ہونے والے سگے بھائی رکن ہیں وہیں ایوان میں ایسے دو سگے بہن بھائی بھی ہیں جو بیک وقت دو مختلف جماعتوں سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔
 
یاسمین رحمان کا تعلق حکمران جماعت پیپلزپارٹی سے ہے جبکہ ان کے بھائی پرویز ملک حزب مخالف کی جماعت مسلم لیگ نون کی جانب سے رکن اسمبلی ہیں۔

پیپلزپارٹی کے خرم جہانگیر وٹو اس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں جبکہ ان کی بہن روبینہ شاہین وٹو رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔

ماضی میں اس کے برعکس پیپلزپارٹی کی مقتول سربراہ بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں اور ان کے بھائی مرتضٰی بھٹو سندھ اسمبلی کے رکن تھے۔

قومی اسمبلی سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ایسے منتخب بہن بھائیوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو بیک وقت سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے رکن چنے گئے ہیں۔

ان میں سب سے نمایاں نام عوامی نیشنل پارٹی کے بلور برادران کا ہے۔ الیاس بلور رکن سینیٹ ہیں جبکہ ان کے بھائی وفاقی وزیر غلام احمد بلور قومی اسمبلی اور سینیئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور خیبر پختونحوا اسمبلی کے رکن ہیں۔

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ قاف کےسربراہ چودھری شجاعت حسین اس وقت سینیٹر ہیں جبکہ ان کے بھائی چودھری وجاہت حسین رکن قومی اسمبلی ہیں۔

مسلم لیگ نون کے ہی خواجہ سعد رفیق قومی اسمبلی کے رکن ہیں جبکہ ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں اس طرح مسلم لیگ نون کے رکن قومی اسمبلی ملک افضل کھوکھر کے بھائی سیف الملوک کھوکھر رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے بھائی احمد مجتبٰی گیلانی بھی ضمنی انتخابات میں رکن پنجاب اسمبلی کامیاب ہوئے۔ اس طرح گیلانی برادران بھی بیک رکن اسمبلی بننے والے بھائیوں میں شامل ہوگئے۔ تاہم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کی باعث یہ اعزاز برقرار نہ رہ سکا۔

مسلم لیگ نون کے کھوسہ برادران کا شمار بھی ان منتخب نمائندگان میں ہوتا ہے جو بیک وقت قومی یا صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں۔ سردار حسام الدین کھوسہ اور ان کے چھوٹے بھائی سردار دوست محمد کھوسہ پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں جبکہ ان کے ایک بھائی سیف الدین کھوسہ قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔

دوست محمد کھوسہ صوبائی وزیر اور وزیراعلٰی پنجاب بھی رہ چکے ہیں۔

سنہ دو ہزار دو میں منتخب والی اسمبلی میں سمیرا ملک اور ان کی بہن عائلہ ملک بھی ایک ہی وقت قومی اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔

سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں اپنے آبائی شہر ملتان سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخاب میں حصہ لیا اور دونوں نشستوں پر کامیاب ہوگئے تاہم انہوں نے صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی اور خالی ہونے والی نشست پر اپنے بھائی مرید حسین قریشی کو امیدوار نامزد کیا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔

اس طرح مسلم لیگ نون کے قائد نوازشریف کے داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر ضمنی انتخاب میں اسمبلی کے رکن بنے جبکہ ان کے بھائی طاہرعلی مانسہرہ کی نشست پر کامیاب نہ ہوسکے۔

Journalists threatened by political officer in Waziristan

One of our journalist friend from South Waziristan Agency Farooq Mehsud has been threatened by the assistant political officer of SWA when he tried to confirm a news piece from him relating the return of IDPs of south Waziristan. He was embarrassed and threatened of arrest and serious consequences under the black law of FCR( frontier crimes regulations) which is prevalent in the tribal areas for the last one century.Political administration in the tribal areas have frequently been using this black law against journalists and it has been hanging as the sword of Damocles over the heads of the journalists working in tribal areas, the most dangerous zone for journalists.
 
We want to inform all the authorities concerned that if Farooq Mehsud gets any kind of harm from any quarter, APO south Hamid Khattack would be responsible for it.
 
 
IHSAN DAWAR
president press club
Mirali North Waziristan agency
FATA.

ہفتہ, جولائی 21, 2012

آؤٹ لک کا ٹائم میگزین کو ترکی بہ ترکی جواب

دو ہفتے پہلے امریکی جریدے ٹائم ميگزین کی سرِ ورق کی کہانی میں بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ’انڈراچیور‘ یا اپنے اہداف مکمل طور پر حاصل نہ کر پانے والا رہنما قرار دیا تھا جس کے جواب میں اب بعد ایک بھارتی جریدے نے بالکل اسی طرح اپنے سرِ ورق کی کہانی میں امریکی باراک اوباما کے لیے یہی لفظ استعمال کیے ہیں۔

آؤٹ لک میگزین کے ایڈیٹر نے کہا ہے کہ انہوں نے یہ کوور سٹوری ٹائم میگزین
 کی سٹوری کے جواب میں نہیں کی ہے۔
بھارت کے ایک مقتدر اور مقبول خبری جریدے ’ آؤٹ لک‘ نے اپنے اس ہفتے کے شمارے میں امریکی صدر باراک اوباما کی تصویر صفحہ اول پر شائع کی ہے انہیں ’انڈر اچیور‘ یا ایسا لیڈر قرار دی ہے جو اپنے وعدے پورے نہ کر سکا ہو یا اپنے اہداف حاصل نہ کر پایا ہو۔

ٹائم میگزین نے سولہ جولائی کو شائع ہونے والے شمارے میں لکھا تھا کہ ’انڈیا نیڈز ری بوٹ‘ یعنی بھارت کو نئی شروعات کی ضرورت ہے جیسے ایک کمپوٹر کو بند کر کے دوبارہ شروع کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح ربوٹ۔

بالکل اسی طرز پر آؤٹ لک میگزین نے لکھا ہے ’امریکہ نیڈز ری بوٹ‘ یعنی امریکہ کو نئی شروعات کی ضرورت ہے۔

آؤٹ لک میگزین نے مزید لکھا ہے کہ باراک اوباما نے تبدیلی لانے کا وعدہ کیا تھا اور چار برس گزر جانے کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں آئی، کچھ نہیں ہوا اور اب اوباما کا جادو ختم ہوگیا ہے۔

آؤٹ لک میگزین کے مدیر اعلیٰ کرشنا پرساد نے کہا ہے کہ انہوں نے سرِ ورق کی یہ کہانی ٹائم میگزین کے جواب میں نہیں کی ہے۔اور نہ ہی اسے ’ جیسے کو تیسا‘ کہا جانا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے یہ کوور سٹوری منموہن سنگھ کی حمایت میں نہیں کی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بہت دن سے کوشش کررہے تھے کہ باراک اوباما پر ایک سرِ ورق کی رپورٹ کریں۔ ہمارے میگزین کی توجہ تو باراک اوباما ہیں نہ کہ ٹائم کی سٹوری جو انہوں نے منموہن سنگھ کے بارے میں کی تھی۔

انہوں نے مزید کہا ’ہم امریکہ کے انتخابات کا مختلف زاویوں سے جائزہ لینا چاہتے تھے اور اوباما کی گزشتہ چار برسوں کی کارکردگی کا پر تنقیدی نظر ڈالنا چاہتے ہیں، بس!'

کرشنا پرساد کا کہنا تھا ’اگر آپ باراک اوباما کو بھارتی نظریے اور غیر امریکی نظرریے سے دیکھیں گے تو آپ سمجھیں گے کہ جیسے منموہن سنگھ ناکام ثابت ہوئے ہیں اسی طرح سے باراک اوباما بھی ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ چاہے آپ کو یہ بات اچھی لگے یا نہیں۔‘ 
ٹائم میگزین نے منموہن سنگھ کی لیڈرشپ پر سوال اٹھائے تھے
انہوں نے ان الزامات کو تردید کی کہ انہوں نے اوباما کے بارے میں یہ کوور سٹوری حکومت کے دفاع میں کی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا ’ کچھ دن بات ہوسکتا ہے کہ ہم برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے بارے میں اسی طرح کی سٹوری کریں۔ ہم بی بی سی کی طرح دنیا کو غیر جذباتی نظریے سے دیکھتے ہیں اور اس کے بارے میں کہانیاں کرتے ہیں۔‘

ٹائم میگزین کی سٹوری کے بعد آؤٹ لک میگزین کی سٹوری فیس بک اور ٹوئٹر پر بے حد مقبول ہو رہی ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ آؤٹ لک نے ٹائم میگزین کو ’ کرارا جواب دیا ہے‘ وہیں بعض کا کہنا ہے کہ ’ یہ اچھے حسِ مزاح کی مثال ہے۔‘

وہیں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ’بھارتی میڈیا اور خود بھارتی اپنے بارے میں کچھ برا سننا پسند نہیں کرتے ہیں۔‘

آؤٹ لک کا ٹائم میگزین کو ترکی بہ ترکی جواب

لندن اولمپکس: عربی میں پوسٹر، عربوں کے لیے ہی مبہم

لندن میں منعقد ہونے والے اولمپکس کھیلوں سے پہلے مختلف زبانوں میں تیار کیے گئے سکیورٹی پوسٹرز میں عربی زبان کا پوسٹر ایسا ہے جو عربی جاننے والوں کی سمجھ میں بھی نہیں آ رہا۔

اس اشتہار کو بنانے والی ٹرین کمپنی کو اس کے لیے تنقید کا سامنا ہے۔

فرسٹ کیپٹل کنیکٹ نامی کمپنی نے انگریزی اور دیگر سات زبانوں میں تیار کیے گئے ان پوسٹرز کو تیرہ ریلوے سٹیشنوں کو بھیجا تھا تاکہ انہیں اولمپکس کھیلوں سے پہلے وہاں لگایا جاسکے۔

لیکن عرب اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کونسل کا کہنا ہے کہ یہ پوسٹر ’ایک مذاق ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ پوسٹر میں عربی کو جس طرح سے لکھا گیا ہے اس میں عربی کے الفاظ کو جوڑا نہیں گیا ہے۔

وہیں پوسٹر بنانے والی کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان اشتہارات کو مدد کرنے کی نیت سے بنایا گیا ہے۔

اولمپکس کھیلوں کے دوران لوگوں کو یہ وارننگ دینے والا پوسٹر کہ وہ اپنے سامان کو لاوارث نہ چھوڑیں کئی سٹیشنوں پر لگایا گیا ہے۔ ان میں کنگز کراس، سٹی ٹیمز لنک اور فیرنگڈن ریلوے سٹیشن شامل ہیں۔

عرب اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کونسل کے ڈائریکٹر کرس ڈوئل کا کہنا ہے ’یہ بہت خراب پوسٹر ہے۔ اگر اس کو درست نہیں کیا گیا تو بہت سارے عربی زبان جاننے والے کہیں گے یہ کیا مذاق ہے‘۔

فرسٹ کیپٹل کنیکٹ کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس پوسٹر کا انگریزی زبان سے عربی میں ترجمہ کیا گیا ہے اور ترجمہ کرنے کا کام ایک پروفیسر نے کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پوسٹر بناتے وقت ہمارے سپلائر نے غلط فونٹ کا استعمال کیا جس سے پوسٹر کی تحریر بے معنی ہوگئی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ کمپنی جلد ہی ان پوسٹرز کو دوبارہ صحیح تحریر میں شائع کرے گی۔

عربی میں پوسٹر، عربوں کے لیے ہی مبہم