پاکستانی حکومت کی جانب سے غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود جرگہ اور پنچایت اب بھی لوگوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کررہا ہے۔ خانیوال میں ایک خاتون مبینہ طور پر پنچایت کے حکم پر اینٹیں مار کر ہلاک کردی گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق پانچ بچوں کی ماں 25 سالہ مریم بی بی نے مبینہ طور پر علاقے کے ایک با اثر شخص کے کھیتوں سے گھاس کاٹ لیا تھا جس پر ایک پنچایت بلائی گئی اور بعد میں مریم بی بی کو قتل جبکہ اس کے شوہر کو اغوا کرلیا گیا۔
خانیوال کے واقعے کے حوالے سے مقامی ذرائع ابلاغ پر خبروں کی اشاعت کے بعد سپریم کورٹ نے معاملے کا از خود نوٹس لیا ہے۔ جمعے کو اپنی کارروائی میں عدالت نے پنجاب پولیس کو فوری طور پر ملزمان گرفتار کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ دوسری صورت میں صوبائی پولیس کے سربراہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔
اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیمیں ایک مرتبہ پھر سراپا احتجاج بن گئی ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف کارکن ثمر من اللہ نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں سب سے بڑی فکر و تشویش کی بات یہ ہے کہ جہاں عورتوں سے متعلق فیصلے آتے ہیں، وہاں ہمارے سامنے جو اعداد و شمار ہیں، ان کے مطابق جرگوں اور پنچایتوں کے فیصلوں میں بہت زیادہ زیادتی ہوتی ہے۔ جیسے ابھی پنجاب کا واقعہ ہوا ہے، جہاں ایک عورت کو اینٹوں سے مارا گیا یا جہاں بلوچستان میں عورتوں کو زندہ دفنایا گیا۔ یہ وہ مقدمات ہیں، جہاں اگر رسمی پنچایت نہیں تو اس علاقے کے بڑے فیصلہ کرلیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ سزا مناسب ہے‘۔ ثمر من اللہ کا کہنا ہے کہ جب تک ان واقعات کے ساتھ سختی سے نہیں نمٹا جائے گا یہ کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے۔
خیال رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے 23 اپریل 2004ء کو اپنے ایک فیصلے میں جرگوں کو غیرقانونی قرار دیا تھا جبکہ کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے بھی کوہستان میں مبینہ طور پر جرگے کے ہاتھوں 5 خواتین کے قتل سے متعلق ایک مقدمے کے دوران کہا تھا کہ پنچایتیں اور جرگے غیرقانونی ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔