جمعہ, جون 29, 2012

زندگی

زندگی برف کی مانند ہے، اسے اللہ کے حکم کے مطابق گزارو

ورنہ

یہ پگھل تو رہی ہے، ختم بھی ہوجائے گی۔

ایک قبرستان کے باہر لکھا تھا؛
’’کبھی ہم ایسے تھے جیسے آج تم ہو

اور

کل تم ایسے ہوجاؤ گے جیسے آج ہم ہیں۔

میڈیکل غزل

چلو آﺅ اب موسم کا مزہ چکھیں

تمام دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں

تم سے ملنے کی اب کیا جستجو کریں

طبیعت زیادہ خراب ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں

ہماری چاہت کا کچھ تو خیال کریں

سیرپ کو اچھی طرح ہلا کر استعمال کریں

دل میرا ٹوٹ گیا اُٹھی جب اُس کی ڈولی

وہ ہنس کے بولی کھا لینا ڈسپرین کی گولی

سدا یہ دل تیرا آرزو مند رہے گا

جمعہ کے روز کلینک بند رہے گا

بیوی

بیوی آتی ہے ہیر کی طرح
میٹھی ہوتی ہے کھیر کی طرح
نمکین ہوتی ہے پنیر کی طرح

چند ماہ بعد

چبھتی ہے تیر کی طرح
کر دیتی ہے فقیر کی طرح

اور

نظر رکھتی ہے شبیر کی طرح

Our Body Parts Remind Us How To Live

we have 2 eyes
and
one tongue, which means
we need to look twice and talk once.

we have 2 ears and one mouth,
so we need to listen more
than we talk.

we have 2 hands
and one stomach
so we need to work twice as much as we eat.

we have 2 major brain parts, left and right and one heart,
so we need to think twice but trust only once.

اللہ تبارک و تعالٰی کے محبوب کون ہیں؟؟؟


1۔ اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ آل عمران، آیت نمبر 146

2۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ المُمتحنَہ، آیت نمبر 8

3۔ بے شک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ آل عمران، آیت نمبر 159

4۔ بے شک اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ البقرہ، آیت نمبر 222

جمعرات, جون 28, 2012

کلرکہار، اسلام آباد کے قریب خوب صورت سیاحتی مقام

جھیل کا بوٹنگ پوائنٹ
کلرکہار ضلع چکوال کی تحصیل اور خوب صورت سیاحتی مقام ہے جو چکوال شہر سے جنوب مغرب کی جانب تقریباً 25 کلو میٹر کے فاصلے پر اسلام آباد، لاہور موٹر وے کے ساتھ سرگودھا خوشاب سڑک پر واقع ہے۔ کلرکہار سطح سمندر سے 3 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے، کلرکہار میں کیڈٹ کالج، فضائیہ انٹر کالج اور فوج فائونڈیشن ہسپتال بھی قائم کیا گیا ہے۔ کلرکہار کی مقبولیت کی بنیادی وجہ  وہاں موجود باغات میں آزاد پھرتے مور اور بڑے رقبہ پر جھیل، لوکاٹ، ناشپاتی اور انار کے باغات ہیں۔ ان باغات میں کیلے کے درخت بھی موجود ہیں۔ درختوں سے پھل توڑنے کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ سرکار باغات کا ٹھیکہ دیتی ہے اور ٹھیکہ دار کے لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کلرکہار میں گلاب کے باغ بھی ہیں جن سے عرق نکال کر فروخت کیا جاتا ہے۔ عرق گلاب کی بوتلیں چوک میں واقع دکانوں پر فروخت کے لئے موجود ہیں۔ درختوں میں ”مور“ کھلے عام آزاد پھرتے بہت مشہور ہیں۔ مزار کی پہاڑی سے مشرق کی جانب پہاڑی تک ایک لفٹ بھی لگائی گئی ہے جس سے وادی اور جھیل کا خوب صورت نظارہ ملتا ہے۔ 

تخت بابری اور جھیل کا راستہ
کلرکہار میں تخت بابری بہت مشہور جگہ ہے جو انار کے باغ میں واقع ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے کشمیر جاتے ہوئے یہاں ٹھرائو کیا اور اپنی فوج سے خطاب کیا تھا۔

گرمیوں میں موسم کافی گرم اور سردیوں میں سرد ہوتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر ایک مزار بھی ہے جہاں اکثر لوگ فاتحہ خوانی کے لئے جاتے ہیں۔ جس پہاڑی پر مزار واقع ہے اس کے دامن میں پانی کا چشمہ ہے جہاں سے ہر وقت پانی نکلتا رہتا ہے۔ یہ پانی ایک نالے کے ذریعے جھیل تک پہنچایا جاتا ہے، نالے کے اوپر پانی کے راستے میں حمام بنائے گئے ہیں جہاں عام لوگوں کو غسل کرنے کی اجازت ہے۔

آزاد گھومتا 'مور'
لوکاٹ اور انار کے باغات کے ساتھ ہی راستہ جھیل کی طرف جاتا ہے۔ جھیل جانے کے لئے پہلے صرف ایک راستہ تھا، جہاں سے داخلہ تھا وہیں سے واپسی بھی ہوتی تھی جس کے باعث چھٹی کے روز خاص طور پر گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور پیدل چلنے والوں کے ہجوم کی وجہ سے سیاحوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ٹریفک جام ہوجاتی تھی لیکن اب سڑک جھیل کے گرد مکمل اور مناسب چوڑی کردی گئی ہے، ایک طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف سے موٹر وے انٹر چینج کے قریب مرکزی سڑک پر پہنچا جا سکتا ہے۔ جھیل پر سہولتوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔ ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب کا موٹل اور ریسٹورنٹ، گیسٹ ہاﺅسز اور ایک چھوٹا پارک بھی بنایا گیا ہے۔ بچوں کی دلچسپی کے لئے جھولے اور دیگر چیزیں بھی موجود ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء، گفٹ شاپس اور دستکاریوں کے مختلف سٹال بھی لگائے گئے ہیں۔ جھیل مین بوٹنگ سے بھی لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے، جھیل کی سیر اور بوٹنگ کے دوران سب سے خوب صورت نظارہ وہ ہوتا ہے جب آپ کی کشتی کے قریب کئی مرغابیاں تیرتی اور غوطہ خوری کرتی نظر آئیں گی۔

جھیل کے ساتھ جھولے اور پارکنگ
چکوال سے کلرکہار اور خوشاب جاتے ہوئے راستے میں پہاڑی علاقوں میں کئی موڑ کافی خطرناک ہیں جس کے باعث کئی مہلک حادثات ہو چکے ہیں۔ پہلے سڑک کافی تنگ اور خراب تھی لیکن اب چوڑی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پہاڑ کاٹ کر کئی موڑ ختم اور کئی کافی چوڑے کئے گئے ہیں۔ موٹر وے بننے سے کلرکہار کی شہرت اور سیاحوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے کیوں کہ دور دراز سے لوگ ایک روز کی تفریح کے لئے بہ آسانی پہنچ سکتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا روزگار بڑھا ہے اور اس سیاحتی مقام کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔

کلرکہار سے مشرق کی جانب ایک سڑک چوآسیدن شاہ جانے کے لئے ہے جس کے راستہ میں مشہور جگہ ”کٹاس“ ہے جس کے مشہور ہونے کی وجہ وہاں ہندوﺅں کے پرانے مندروں کا ایک سلسلہ ہے۔ ان مندروں کے ساتھ پانی کا ایک چشمہ بھی ہے جسے ”گنگا کی آنکھ“ کہا جاتا ہے۔ کلرکہار چوآسیدن شاہ روڈ کے ارد گرد علاقہ میں کوئلہ کی بہت ساری کانیں بھی ہیں، اسی سے متعلق ایک سرکاری سکول بھی یہاں قائم کیا گیا ہے۔

چکوال سرگودھا خوشاب روڈ
کلرکہار سے چوآسیدن شاہ جاتے ہوئے سڑک پر سیمنٹ کے کئی کارخانے قائم کئے گئے ہیں، جن میں ”لفارجے سیمنٹ“ پیداوار کے لحاظ سے ایشیاء کا سب سے بڑا سیمنٹ کا کارخانہ ہے، اس کا پرانا نام ”چکوال سیمنٹ فیکٹری“ تھا جو مصر کی ایک کمپنی نے خرید لی ہے۔ اس کے علاوہ ”ڈی جی سیمنٹ“ اور ”بیسٹ وے سیمنٹ“ کے کارخانے ہیں۔ ان کارخانوں کے قیام سے روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ”ڈی جی خان سیمنٹ“ اور ”بیسٹ وے سیمنٹ“ کے کارخانے پرویز مشرف کے دور میں قائم ہوئے۔

++++++++++

چوآسیدن شاہ کے قریب "کٹاس راج" میں 'گنگا کی آنکھ' اور مندر

کلرکہار میں لفٹ

تخت بابری اصلی حالت میں

احمق ہیں جو کہتے ہیں محبت کی جگہ ہے

احمق ہیں جو کہتے ہیں محبت کی جگہ ہے
دنیا تو فقط اہلِ تجارت کی جگہ ہے

فرعونوں کی بستی ہے یہاں دب کے نہ رہنا
نخوت کی تکبّر کی رعونت کی جگہ ہے

ظاہر ہے یہاں تم بھی کبھی خوش نہ رہو گے
اک درد کا مسکن ہے اذیّت کی جگہ ہے

آسانی سے ملتی نہیں جینے کی اجازت
پھر سوچ لو دنیا بڑی ہمّت کی جگہ ہے

اے دل تجھے اک بوسہ بھی مشکل سے ملے گا
یہ حسن کا بازار ہے دولت کی جگہ ہے

یہ سوچ کے خاموشی سے ہر ظلم سہا ہے
اپنوں سے نہ غیروں سے شکایت کی جگہ ہے

خود اپنی ہی مخلوق کو برباد کرو گے
افسوس کی یہ بات ہے حیرت کی جگہ ہے

دل میرا کسی حال میں خوش رہ نہیں سکتا
جلوت کا مکاں ہے نہ یہ خلوت کی جگہ ہے

راحت کا یہاں کوئی تصور نہیں ملتا
معلوم ہے سب کو یہ مصیبت کی جگہ ہے

انجام کا سوچو گے تو بے چین پھرو گے
آرام سے سو جاؤ یہ غفلت کی جگہ ہے

پاگل ہو جو کرتے ہو یہاں عشق کی تلقین
دنیا تو ہر اک شخص سے نفرت کی جگہ ہے

جاتے ہوئے کہتے ہیں ہر اک بار پرندے
کچھ شرم کرو یہ بھی سکونت کی جگہ ہے

بس شرط ہے یہ دل میں محبت ہو کسی کی
صحرا ہی نہیں شہر بھی وحشت کی جگہ ہے

جانے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں اب
دیکھو یہ زمیں کیسی قیامت کی جگہ ہے

آئے ہو تو جاؤ گے یہاں بچ نہ سکو گے
یہ موت کی منزل ہے ہلاکت کی جگہ ہے

اے اہل جنوں آؤ یہاں کچھ نہیں رکھا
ناداں ہیں یہ سب لوگ حماقت کی جگہ ہے

کس بات پہ غمگین ہوں کس بات پہ میں خوش
ذلت کی جگہ ہے نہ یہ عزت کی جگہ ہے

صحرا کی طرف اس لئے جاتا ہے مرا دل
دنیا میں یہ دنیا سے بغاوت کی جگہ ہے
احمد فواد

تین اہم عہدوں کی ہم نام شخصیات

پاکستان کے تین اعلٰی ترین عہدوں پر فائز شخصیات ’ہم نام‘ ہیں جبکہ اس سے قبل صدر کے عہدے پر فائز شخص بھی انہی کا ہم نام تھا۔

حسن اتفاق ہے کہ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف کا نام اشفاق ’پرویز‘ کیانی ہے۔

وزیراعظم کا نام راجہ ’پرویز‘ اشرف ہے ۔

جس شخصیت کو ملک کے پہلے نائب وزیراعظم کا عہدہ دیا گیا ہے اس کا نام چوہدری ’پرویز‘ الہٰی ہے، جبکہ اس سے قبل ملک کے اعلٰی ترین صدارتی عہدے پر جنرل (ر) ’پرویز‘ مشرف فائز تھے۔


بدھ, جون 27, 2012

چین: خواتین کو نازیبا لباس سے گریز کی ہدایت

شنگھائی (اے ایف پی) چین کے صنعتی شہر سنگھائی کے سب وے آپریٹر نے خواتین سے کہا ہے کہ وہ باوقار لباس پہنیں تاکہ کوئی مرد انہیں ہراساں نہ کرے اور وہ لوگوں کی بدنظر سے محفوظ رہیں۔ آپریٹر نے اپنے بلاگ پر کم لباس والی ایک خاتون کی تصویر لگائی ہے اور خواتین سے کہاہے کہ خود اپنا احترام کرتے ہوئے نازیبا لباس پہننے سے گریز کریں۔

پینٹ کے ڈبوں میں موجود ٹوکن کا مالک کون؟؟؟


Look At this Photo......


اللہ کی چاہت

اے اِبن آدم
ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے
پس اگر تُو نے
اپنے آپ کو سپرد کردیا اُس کے
جو میری چاہت ہے
تو میں بخش دوں گا تجھ کو وہ بھی جو تیری چاہت ہے
اور اگر تو نے نافرمانی کی اُس کی
جو میری چاہت ہے
تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اُس میں
جو تیری چاہت ہے
پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے

امیر ہونے کا ایک کامیاب نسخہ

بھائی جان میں نے تین کروڑ بیس لاکھ روپے کی دوکان خرید لی ہے۔

جمعہ 26 جنوری کو جب شرجیل نے لاہور سے فون کیا تو اتنا جوش وخروش میں تھا کہ میرا حال احوال دریافت کرنا بھی بھول گیا۔ پوچھا کہ اس وقت کہاں ہیں؟
”کراچی میں‘‘ میں نے جواب دیا دو دن بعد لاہور پہنچوں گا۔

بولا ”لاہور پہنچتے ہی مجھے فون کیجئے گا‘‘ میں نے حامی بھر لی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کامیانی پر مجھے اطمینان قلب محسوس ہوا۔ دس سال قبل شرجیل نے ’’ایم ایس سی‘‘ کرلی تو خاندانی حالات کے باعث جاب یا بزنس اس کی شدید ضرورت تھی۔ شرجیل ایک روز کہنے لگا بھائی جان کوئی ٹھوس اور قابل عمل حل بتائیں کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجاؤں۔ میں نے توقف اور غوروخوض کے بعد کہا تین دن بعد میں اسلام آباد جارہا ہوں میرے ساتھ چلنا۔

اور پھر ہم بزرگ دوست ’’قاضی صاحب‘‘ کے پاس گئے۔ قاضی صاحب حکیم اور روحانی دانشور ہیں۔ قاضی صاحب کو مسئلہ بتایا تو بڑے اطمینان سے مسئلہ سنتے رہے۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی تو بولے شرجیل صاحب آپ حوصلہ مند دکھائی دیتے ہیں۔ آپ دو کام کریں کوئی چھوٹا موٹا دھندا کرلیں اور دوسرا یہ کہ جو بھی کریں اس میں اللہ تعالٰی کو اپنے ساتھ بزنس پاٹنر بنالیں۔ شرجیل نے میری طرف اور میں نے شرجیل کی طرف دیدے پھاڑ کر دیکھا۔ قاضی صاحب نے سلسہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا ”یہ کام مردوں کا ہے، صرف عزم با لجزم رکھنے والا مرد ہی کرسکتا ہے اگر کاروبار کے نیٹ پرافٹ میں پانچ فیصد اللہ تعالٰی کا شیئر رکھ کر اللہ تعالی کے بندوں کو دے دیا کریں اور کبھی بھی اس میں ہیرا پھیری نہ کریں تو لازماً آپ کا کاروبار دن رات چوگنی ترقی کرتا رہے گا۔

واپسی پر لگتا تھا شرجیل اس پر عمل نہیں کرے گا لیکن اس نے کمال حیرت سے عمل کر دکھایا۔

مجھے یاد ہے یہ 1997 کا سال تھا ،اس کے پاس صرف ایک ہزار روپیہ تھا، اس نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا، اُسی ایک ہزار روپے سے اس نے بچوں کے پانچ سوٹ خریدے اور انارکلی بازار میں ایک شیئرنگ سٹال پر رکھ دیے۔

دو دن میں تین سو روپے پرافٹ ہواتھا تین سو روپے میں سے اس نے پانچ پرسنٹ اللہ تعالی کی راہ میں دے دیئے تھے۔ پھر اور سوٹ خریدتا اور اصل منافع میں سے پانچ پرسنٹ اللہ تعالی کے نام کا شیئر مخلوق پر خرچ کرتارہا۔ یہ پانچ پرسنٹ بڑھتے بڑھتے چھ ماہ بعد 75 روپے روزانہ کے حساب سے نکلنے لگے یعنی روزانہ کی آمدنی تقریبا سات سو روپے ہوگئی ایک سال بعد ڈیڑھ سو روپے، تین سال بعد روزانہ پانچ پرسنٹ کے حساب سے تین سو روپے نکلنے لگے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تین سال بعد اسے روزانہ چھ ہزار بچنا شروع ہوگئے تھے۔ اب سٹال چھوڑ کر اس نے دکان لے لی تھی۔ جب فون آیا تو میرا پہلا سوال یہی تھا کہ اب روزانہ پانچ پرسنٹ کتنا نکل رہا ہے؟

اس نے بتایا کہ روزانہ ایک ہزار نکل آتا ہے جو خلق خدا پر خرچ کردیتا ہے۔ گویا اب آمدنی روزانہ بیس ہزار روپے ہے۔ یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ ”بزنس‘‘ میں اس نے آج تک بےایمانی نہیں کی۔

قاضی صاحب نے بتایا تھا کہ جس کاروبار میں اللہ تعالٰی کو پارٹنر بنالیا جائے یعنی اللہ تعالٰی کی مخلوق کا حصہ رکھ لیا جائے وہ ہمشہ پھلتا پھولتا ہے۔ بشرطیکہ انسان کہ اندر تکبر نہ ہو ”عاجزی ہو‘‘۔ انہوں نے سچ ہی کہا تھا کہ کاروبار اتنا چل نکلتا ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب بندہ سوچتا ہے، میرا کافی روپیہ لوگوں میں مفت میں تقسیم ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ دولت مند بننے کا یہ نسخہ انہیں بزرگوں سے منتقل ہوا ہے اور کبھی بھی یہ نسخہ ناکام نہیں ہوا۔۔۔۔۔ ماشاء اللہ
ہماری زبان میں اصطلاح ہے ”دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنا‘‘۔ آیئے جائزہ لیتے ہیں کہ دنیا کے امیر ترین افراد کا کیا وطیرہ ہے۔

51 سالہ ٹی وی میزبان ”اوہراہ دنفرے‘‘ ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی مالک ہے وہ سالانہ ایک لاکھ ڈالر بے سہارا بچوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کرتی ہے۔۔۔۔ دولت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اٹلی کے سابق وزیراعظم ’’سلویا برلسکونی‘‘ اپنے ملک کے سب سے امیر اور دنیا کے دس امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ مشہور زمانہ فٹبال کلب ”اے سی میلان‘‘ انہی کی ملکیت ہے۔ وہ دس ارب ڈالر کے مالک ہیں، سالانہ تقریبا پانچ کروڑ ڈالر غریب ملکوں کو بھیجتے ہیں۔۔۔ دولت میں اضافہ ہورہا ہے۔ کمپیوٹر پرسنیلٹی ”بل گیٹس‘‘ اس وقت دنیا کے امیر ترین شخص ہیں ان کی دولت کا اندازہ 96 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، وہ اپنی آرگنائزیشن ’’بل اینڈ اگیٹس فاونڈیشن‘‘ کے پلیٹ فارم سے سالانہ 27 کروڑ ڈالر انسانی فلاحی کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔۔۔۔ دولت تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ مشہورومعروف یہودی ”جارج ساروز‘‘ دس ارب ڈالر سے زائد کے مالک ہیں ہر سال دس کروڑ ڈالر انسانی فلاحی اداروں کو دیتے ہیں۔۔۔ دولت میں اضافہ ہورہا ہے۔

اور جہاں تذکرہ دولت وثروت کا ہوتو اس وقت مکمل نہیں ہوتا جب تک یہودی قوم کا تذکرہ نہ کیا جائے۔

قارئین کرام کےلئے یہ بات بڑی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ صرف ایک کروڑ یہودی دنیا کی 60 پرسنٹ دولت کے مالک ہیں جب کہ چھ ارب انسان 40 پرسنٹ دولت پر تصرف رکھتے ہیں۔ نیز انٹرنیشنل پرنٹ اور میڈیا کے اہم ترین 90 پرسینٹ ادارے ان کے ہیں مثلاً آئی ایم ایف، نیویارک ٹائمز، فنانشل ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، ریڈرزڈائجسٹ، سی این این، فاکس ٹی وی، وال سڑیٹ جرنل، اے ایف پی، اے پی، سٹار ٹی وی کے چاروں سٹیشن سب یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ شائد ہم میں سے چند ایک نے ہی اس بات پر غور کیا ہوکہ یہودیوں کی دن دوگنی رات چوگنی دولت بڑھنے کا راز کیا ہے؟

عقدہ یہ کھلا کہ ہزاروں سال سے یہ قوم اس بات پر سختی سے قائم ہے کہ ہر یہودی اپنی آمدنی کا 20 پرسنٹ لازمی طور پر انسانی فلاحی کاموں پر خرچ کرتا ہے۔

پاکستان میں ایک مثال منشی محمد کی بھی ہے۔
آپ بہت غریب تھے، بڑی مشکل سے گزربسر ہوتی تھی ایک دن آپ نے فیصلہ کرلیا کہ اپنی آمدنی کا 4 پرسینٹ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کروں گا۔

آپ بازار میں کھڑے ہوکر کپڑا بیچنے لگے اور باقاعدگی سے اپنے منافع کا 4 پرسینٹ اللہ کے بندوں پر خرچ کرنا شروع کردیا۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے ایک پاور لوم لگالی اور تھوڑے ہی عرصہ میں ترقی کرتے ہوئے فیکٹری کے مالک بن گئے۔ آپ نے اپنے منافع کے 4 پرسنٹ کو مستحق مریضوں پر خرچ کرنا شروع کردیا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ منشی محمد نے چار کروڑ روپے کی لاگت سے منشی محمد ہسپتال لاہور بنا کرحکومت کے حوالے کردیا، اس ہسپتال کا افتتاح جرنل محمد ضیاء الحق نے کیا تھا۔

کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت موسٰی علیہ اسلام کے زمانے میں دو بھائی تھے جنہیں ایک وقت کا کھانا میسرآتا تھا تو دوسرے وقت فاقہ کرنا پڑتا تھا۔ ایک دن انہوں نے حضرت موسٰی علیہ اسلام کی خدمت میں عرض کیا، ’’آپ جب کوہ طور پر تشریف لے جائیں تو اللہ تعالٰی سے عرض کریں کہ ہماری قسمت میں جو رزق ہے وہ ایک ہی مرتبہ عطا کردیا جائے تاکہ ہم پیٹ بھر کر کھالیں‘‘ چنانچہ بارگاہ الہیٰ میں دعا قبول ہوئی اور دوسرے دن انسانی شکل میں فرشتوں کے ذریعے تمام رزق دونوں بھائیوں کو پہنچا دیا گیا۔

انہوں نے پیٹ بھر کر تو کھایا لیکن رزق خراب ہونے کے ڈر سےانہوں نےتمام رزق اللہ تعالٰی کے نام پر مخلوق خدا میں تقسیم کردیا۔ اگلے دن پھر ملائکہ کے ذریعے انہیں رزق مہیا کردیا گیا جو کہ شام کو پھر مخلوق خدا میں تقسیم کردیا گیا اور روزانہ ہی خیرات ہونے لگی۔

حضرت موسٰی علیہ اسلام نے باگاہ خداوندی میں عرض کیا۔۔۔۔ یا باری تعالٰی ان دونوں بھائیوں کی قسمت میں تو تھوڑاسا رزق تھا۔ پھر یہ روزانہ انہیں بہت سا رزق کیسے ملنے لگ گیا؟

ندا آئی اے موسٰی جو شخص میرے نام پر رزق تقسیم کررہا ہے اسے میں وعدے کے مطابق دس گنا رزق عطا کرتا ہوں۔ یہ روزانہ میرے نام پر خیرات کرتے ہیں اور میں روزانہ انہیں عطا کرتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
’’جو شخص میرے نام پر ایک درہم خرات کرتا ہے اس میں دس درہم عطا کرتا ہوں۔ جو ایک بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے، اسے دس کا کھانا ملتا ہے۔ اپنے رزق کو بڑھاؤ گھٹاو نہیں‘‘۔

یہ شنید نہیں۔۔۔ دید ہے کہ اصل منافع میں سے پانچ فیصد ہمیشہ اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرنے والا بہت جلد دولت مند بن جاتا ہے۔

China Mobile Secret Codes

If you have any China Mobile or any other Korean Make Mobile and language is set to China or other than English. You can use the following trick to bring it to English.

*#0000# this will bring your China mobiles to default language English- Enjoy.

China Mobile Secret Codes;
*#06# - Displays your IMEI. No need to tap Call.
*#33# - Bar All Outgoing Calls Deactivated.
*#67# - CallForward When bussy Deactivated.
*#61# - Call Forward When not reply Deactivated.
*#30# - call Id presentation Provided.
*#147# - Factory Mode.
*#258# - Engineer's Mode.Default user code : 1122, 3344, 1234, 5678
Engineer mode : *#110*01#
Factory mode : *#987#
Enable COM port : *#110*01# -> Device -> Set UART -> PS Config -> UART1/115200
Restore factory settings : *#987*99#
LCD contrast : *#369#
Software version : *#800#
Software version : *#900#
Set default language : *#0000# Send
Set English language : *#0044# Send
Set English language (new firmware) : *#001# Send
Default user code : 1122, 3344, 1234, 5678
apply at own risk

دل کی بند شریانیں کھولنے کا گھریلو علاج

دل کی شریانیں بند ہوجائیں تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ بائی پاس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں ایک ایسا نسخہ جو دل کی بند شریانوں کو جادو کی طرح کھول دے گا اور دل کے ڈاکٹروں کو بھی حیران کردے گا۔
ایک کپ لیموں کا رس، ایک کپ ادرک کا رس، ایک کپ لہسن کا رس اور ایک کپ سیب کا سرکہ لے لیں۔ ان سب کو ایک برتن میں ڈال کی دھیمی آنچ پر آدھے گھنٹے تک پکنے دیں۔ جب یہ محلول تین کپ رہ جائے تو اتار کر ٹھنڈا کرلیں اور اس میں تین پیالی شہد ملا لیں۔ خوب مکس کر کے بوتل میں رکھ لیں اور روزانہ نہار میں تین کھانے کے چمچ یہ محلول پئیں۔ چند دنوں میں دل کی بند شریانیں کھل جائیں گی آزمائش شرط ہے۔

Stray dog completes 1700 km China race

A stray dog has completed a 1700km journey across China after joining a cycle race from Sichuan province to Tibet.
The dog, nicknamed "Xiaosa", joined the cyclists after one of them gave him food.
He ran with them for 24 days, covering up to 60km a day, and climbing 12 mountains.
Cyclist Xiao Yong started a blog about Xiaosa's adventures, which had attracted around 40,000 fans by the end of the race.
Yong now hopes to adopt Xiaosa.

To see video click on the link below.

Stray dog completes 1700km China race

ایک مرتبہ درود پڑھنے پر اللہ کی دس رحمتیں

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے
  • جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالٰی اس پر دس مرتبہ رحمتیں بھیجتا ہے
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ