ایک طرف سستے کیمرہ فونز کی دستیابی اور اس پر طُرّہ یہ کہ ہمارے نوجوانوں میں کسی گمبھیر صورتحال سے نمٹنے کے حوالے سے عدم آگہی، نتیجتاً ایسے مسائل کا سامنا جن کا خاص طور پر وہ لڑکیاں تصور بھی نہیں کرسکتیں، جو اپنے دوستوں کو نجی لمحات کی وڈیوز یا تصاویر بنانے کی با آسانی اجازت دے دیتی ہیں۔
ہم نے ماضی میں بھی اس حوالے سے ایک تحریر پیش کی تھی، جس میں لڑکیوں سے التجا کی گئی تھی کہ وہ کسی بھی فرد کو، چاہے وہ اُن کا دوست، کزن، رشتہ دار اور خاندان ہی کا فرد کیوں نہ ہو، اپنی تصاویر لینے یا وڈیو بنانے کی اجازت نہ دیں۔ کسی کو بھی نہیں، حتیٰ کہ اپنے منگیتر اور شوہر کو بھی۔ اسی طرح کا معاملہ ایم ایم ایس کا بھی ہے، اپنی نجی تصاویر اور وڈیوز کبھی کسی کو نہ بھیجیں۔
اس پر سختی سے عمل نہ کرنے یا لاپرواہی بہت تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ وجہ: یہ جان لیں کہ موبائل فون یا میموری کارڈ سے ڈیلیٹ کی گئی وڈیوز اور تصاویر نکالی جا سکتی ہیں اور کسی غلط ہاتھ میں بھی جا سکتی ہیں۔ یہ بات اپنے پلّو سے باندھ لیں کہ کسی بھی شخص کو اپنے نجی لمحات ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دینی۔ اور اس پر سختی سے کاربند رہیں، چاہے اس کا آپ کے رشتہ و تعلقات پر اثر کیوں نہ پڑے۔
ہمیں اپنے اہل خانہ اور دوستوں، خصوصاً گاؤں دیہات میں رہنے والے افراد میں اس بات کا شعور اجاگر کرنا ہوگا۔ شاید اس موضوع پر براہ راست گفتگو کرنا موزوں نہ لگے، یا پھر اس قدر آسان نہ ہو، لیکن اس کا ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایسے مضامین کے لنکس اُن کو ای میل کریں جن میں نجی وڈیوز کی تباہ کاریوں کی وضاحت کی گئی ہو اور یوں وہ خود اُن کے نتائج پڑھیں۔
اے آر وائی نیوز نے حال ہی میں اس حوالے سے ایک پروگرام کیا تھا، جس میں اک ایسی لڑکی کو مدعو کیا گیا تھا، جس کی وڈیو بنا کر دوست نے بلیک میل کیا تھا اور یوں لڑکی کو اس کے تمام شیطانی احکامات ماننا پڑے۔ اس کے علاوہ ایک ایسا شخص بھی پروگرام میں آیا جس کی لڑکی نے انہی وجوہات کی بناء پر خود کشی کر لی تھی۔
اس وڈیو کو خود دیکھئے اور اسے اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ شیئر کیجیے
ہم نے ماضی میں بھی اس حوالے سے ایک تحریر پیش کی تھی، جس میں لڑکیوں سے التجا کی گئی تھی کہ وہ کسی بھی فرد کو، چاہے وہ اُن کا دوست، کزن، رشتہ دار اور خاندان ہی کا فرد کیوں نہ ہو، اپنی تصاویر لینے یا وڈیو بنانے کی اجازت نہ دیں۔ کسی کو بھی نہیں، حتیٰ کہ اپنے منگیتر اور شوہر کو بھی۔ اسی طرح کا معاملہ ایم ایم ایس کا بھی ہے، اپنی نجی تصاویر اور وڈیوز کبھی کسی کو نہ بھیجیں۔
اس پر سختی سے عمل نہ کرنے یا لاپرواہی بہت تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ وجہ: یہ جان لیں کہ موبائل فون یا میموری کارڈ سے ڈیلیٹ کی گئی وڈیوز اور تصاویر نکالی جا سکتی ہیں اور کسی غلط ہاتھ میں بھی جا سکتی ہیں۔ یہ بات اپنے پلّو سے باندھ لیں کہ کسی بھی شخص کو اپنے نجی لمحات ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دینی۔ اور اس پر سختی سے کاربند رہیں، چاہے اس کا آپ کے رشتہ و تعلقات پر اثر کیوں نہ پڑے۔
ہمیں اپنے اہل خانہ اور دوستوں، خصوصاً گاؤں دیہات میں رہنے والے افراد میں اس بات کا شعور اجاگر کرنا ہوگا۔ شاید اس موضوع پر براہ راست گفتگو کرنا موزوں نہ لگے، یا پھر اس قدر آسان نہ ہو، لیکن اس کا ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایسے مضامین کے لنکس اُن کو ای میل کریں جن میں نجی وڈیوز کی تباہ کاریوں کی وضاحت کی گئی ہو اور یوں وہ خود اُن کے نتائج پڑھیں۔
اے آر وائی نیوز نے حال ہی میں اس حوالے سے ایک پروگرام کیا تھا، جس میں اک ایسی لڑکی کو مدعو کیا گیا تھا، جس کی وڈیو بنا کر دوست نے بلیک میل کیا تھا اور یوں لڑکی کو اس کے تمام شیطانی احکامات ماننا پڑے۔ اس کے علاوہ ایک ایسا شخص بھی پروگرام میں آیا جس کی لڑکی نے انہی وجوہات کی بناء پر خود کشی کر لی تھی۔
اس وڈیو کو خود دیکھئے اور اسے اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ شیئر کیجیے
ویڈیو دیکھنے کے لئے کلک کریں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔