اقوام متحدہ نے فلسطینی کو غیر رکن مبصر ملک کا درجہ دے دیا ہے۔ جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی اتھارٹی کا درجہ بڑھائے جانے کی تجویز پر ہونی والی ووٹنگ میں 193 ممالک میں سے 138 ممالک نے قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا۔ اسرايل، امریکہ اور کینیڈا سمیت نو ممالک نے اس تجویز کے خلاف ووٹ ڈالا جب کہ 41 ممالک نے اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کیا۔
ووٹنگ سے پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب میں فلسطینی رہنما محمود عباس نے کہا، ’آج اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ فلسطین کے پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری کرے۔‘ انہوں نے مزید کہا ’پیسنٹھ سال پہلے آج ہی کے دن اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی نے قرارداد 181 کو منظوری دے کر فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا اور اسرائيل کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ دے دیا تھا۔‘
اقوام متحدہ میں قرارداد منظور ہونے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے پر جشن کا ماحول تھا۔ لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر نغمے گائے، آتش بازی کی اور گاڑیوں کے ہارن بجا كر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ اسرائيل کے سفیر نے ووٹنگ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’اس تجویز سے امن کو کوئی فروغ نہیں ملے گا بلکہ اس سے امن کو دھچكا ہی لگے گا اسرائيلي لوگوں کا اسرائيل سے چار ہزار سال پرانا تعلق اقوام متحدہ کے کسی فیصلے سے ٹوٹنے والا نہیں ہے۔‘ امریکہ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو اسرائيل کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنی چاہیے اور اس طرح اقوام متحدہ میں یک طرفہ اقدامات کے ذریعے ریاست کا درجہ حاصل نہیں کرنا چاہیے۔ برطانیہ اور جرمنی نے اس تجویز کے لیے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، لیکن دونوں ملک فلسطینیوں کی اس تجویز کے لائے جانے سے خوش نہیں تھے۔ لیکن اقوام متحدہ میں اس تجویز کو بھارت سمیت فرانس، روس، چین اور جنوبی افریقہ جیسے کئی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ گزشتہ سال فلسطینی اتھارٹی نے مکمل رکنیت حاصل کرنے کے لئے اقوام متحدہ میں درخواست دی تھی لیکن سلامتی کونسل میں امریکہ نے اس تجویز کو ویٹو کر دیا تھا اور فلسطینیوں کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ اس سے پہلے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے رکن ممالک سے کہا کہ وہ فلسطینی انتظامیہ کی کامیابیوں کو تسلیم کریں۔
غیر مبصر رکن کی حیثیت حاصل کرنے کے بعد اب فلسطین کو اقوامِ متحدہ کے اداروں میں شمولیت حاصل ہو جائے گی جن میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف بھی شامل ہے۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی بیت المقدس کے علاقوں کو فلسطینی ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے جن علاقوں پر اسرائیل نے سنہ 1967 میں قبضہ کر لیا تھا۔
فلسطین اقوام متحدہ کا غیر مبصر رکن بن گیا
ووٹنگ سے پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب میں فلسطینی رہنما محمود عباس نے کہا، ’آج اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ فلسطین کے پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری کرے۔‘ انہوں نے مزید کہا ’پیسنٹھ سال پہلے آج ہی کے دن اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی نے قرارداد 181 کو منظوری دے کر فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا اور اسرائيل کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ دے دیا تھا۔‘
اقوام متحدہ میں قرارداد منظور ہونے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے پر جشن کا ماحول تھا۔ لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر نغمے گائے، آتش بازی کی اور گاڑیوں کے ہارن بجا كر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ اسرائيل کے سفیر نے ووٹنگ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’اس تجویز سے امن کو کوئی فروغ نہیں ملے گا بلکہ اس سے امن کو دھچكا ہی لگے گا اسرائيلي لوگوں کا اسرائيل سے چار ہزار سال پرانا تعلق اقوام متحدہ کے کسی فیصلے سے ٹوٹنے والا نہیں ہے۔‘ امریکہ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو اسرائيل کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنی چاہیے اور اس طرح اقوام متحدہ میں یک طرفہ اقدامات کے ذریعے ریاست کا درجہ حاصل نہیں کرنا چاہیے۔ برطانیہ اور جرمنی نے اس تجویز کے لیے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، لیکن دونوں ملک فلسطینیوں کی اس تجویز کے لائے جانے سے خوش نہیں تھے۔ لیکن اقوام متحدہ میں اس تجویز کو بھارت سمیت فرانس، روس، چین اور جنوبی افریقہ جیسے کئی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ گزشتہ سال فلسطینی اتھارٹی نے مکمل رکنیت حاصل کرنے کے لئے اقوام متحدہ میں درخواست دی تھی لیکن سلامتی کونسل میں امریکہ نے اس تجویز کو ویٹو کر دیا تھا اور فلسطینیوں کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ اس سے پہلے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے رکن ممالک سے کہا کہ وہ فلسطینی انتظامیہ کی کامیابیوں کو تسلیم کریں۔
غیر مبصر رکن کی حیثیت حاصل کرنے کے بعد اب فلسطین کو اقوامِ متحدہ کے اداروں میں شمولیت حاصل ہو جائے گی جن میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف بھی شامل ہے۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی بیت المقدس کے علاقوں کو فلسطینی ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے جن علاقوں پر اسرائیل نے سنہ 1967 میں قبضہ کر لیا تھا۔
فلسطین اقوام متحدہ کا غیر مبصر رکن بن گیا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔