اس کا جغرافیائی محل وقوع، مچھلی اور تیل و گیس کے بڑے ذخائر اسے بہت زیادہ پرکشش بنانے کی اہم ترین وجوہات ہیں۔ خاص طور سے اس کے ارد گرد واقع اُن دس ریاستوں کے لیے۔
بحیرہ جنوبی چین، چین کے جنوب میں واقع ایک سمندر ہے۔ یہ بحر الکاہل کا حصہ اور سنگاپور سے لے کر آبنائے تائیوان تک 35 لاکھ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ پانچ ابحار ’اقیانوس، کاہل، ہند، منجمد جنوبی، منجمد شمالی‘ کے بعد بڑا آبی جسم ہے۔
اس کا جغرافیائی محل وقوع، مچھلی اور تیل و گیس کے بڑے ذخائر اسے بہت زیادہ پرکشش بنانے کی اہم ترین وجوہات ہیں۔ خاص طور سے اس کے ارد گرد واقع اُن دس ریاستوں کے لیے یہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جو اس کے کچھ حصوں کے دعوے دار ہیں۔ ان میں چین، تائیوان، فلپائن، ملائیشیا، برونائی، ویتنام، انڈونیشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ اور کمپبوڈیا شامل ہیں۔
بحیرہ جنوبی چین میں سینکڑوں جزائر اور ساحلی سنگستان پائے جاتے ہیں۔ ویتنامی اسے مشرقی سمندر کہتے ہیں۔ جزائر کے سب سے زیادہ متنازعہ گروپوں میں ’پاراسل جزائر‘، جنہیں چین میں Xisha اور ویتنام میں ہوانگ سا کے طور پر جانا جاتا ہے، اسپراٹلی جزائر جنہیں چین میں نانشا کوانڈو، ویتنام میں ترونگ سا جبکہ فلپائن میں کاپولان یا کالایان کہا جاتا ہے۔ یہ سمندر باقی دنیا کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو مشرقی ایشیا سے ملاتا ہے۔ چین کی تیل کی قریب تمام برآمدات جنوبی چین کے سمندر سے پہنچتے ہیں جبکہ چین سے یورپ اور افریقہ جانے والی تمام برآمدات شمال کی سمت سے جاتی ہیں۔
برلن میں قائم انٹر نیشنل سکیورٹی امور کے ایک ماہر ’گیرہارڈ وِل‘ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’سٹریٹیجک اور ملٹری اعتبار سے جنوبی چین کے سمندر کی ایک اہم پوزیشن ہے جو نہ صرف جنوبی مشرقی ایشیا بلکہ اس کے آس پاس کے علاقوں کو کنٹرول کرنے کے ضمن میں بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
مچھلیوں کی کثرت
بحیرہ جنوبی چین میں بہت بڑی تعداد میں مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے مطابق جنوبی چین کے سمندر سے دنیا بھر میں مچھلیوں کے سالانہ حصول کا 10 فیصد حاصل ہوتا ہے۔ تاہم بتایا گیا ہے کہ مچھلیوں کا بہت زیادہ شکار اب اس سمندر سے مچھلیوں کی تعداد میں تیزی سے کمی کا سبب بن رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ماہی گیروں کو اس پانی کی گہرائی میں جانے پر مجبور کیا جاتا ہے جہاں ان کا تصادم پانی کی حفاظت کرنی والی فورسز سے ہو تا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حالیہ سالوں میں بحیرہ جنوبی چین کے پانی سے مچھلیاں نکالنے والے ماہی گیروں کی گرفتاریاں اور ان کی کشتیوں کو نقصان پہنچانے جیسے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ مختلف ملکوں کی سکیورٹی فورسز ایک دوسرے کے ماہی گیروں پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔ مچھلی نہ صرف انسانوں کے لیے پروٹین کے حصول کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے بلکہ یہ ماہی گیری اقتصادی شعبے کی ایک اہم شاخ بن چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2010ء میں ویتنام کی مجموعی قومی پیداوار کا 7 فیصد ماہی گیری کے ذریعے حاصل ہوا۔ فلپائن کے قریب ڈیڑھ ملین باشندے ماہی گیری کے ذریعے اپنا روزگار کماتے ہیں۔
بحیرہ جنوبی چین غیر معمولی دلچسپی کا مرکز
اس کا جغرافیائی محل وقوع، مچھلی اور تیل و گیس کے بڑے ذخائر اسے بہت زیادہ پرکشش بنانے کی اہم ترین وجوہات ہیں۔ خاص طور سے اس کے ارد گرد واقع اُن دس ریاستوں کے لیے یہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جو اس کے کچھ حصوں کے دعوے دار ہیں۔ ان میں چین، تائیوان، فلپائن، ملائیشیا، برونائی، ویتنام، انڈونیشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ اور کمپبوڈیا شامل ہیں۔
بحیرہ جنوبی چین میں سینکڑوں جزائر اور ساحلی سنگستان پائے جاتے ہیں۔ ویتنامی اسے مشرقی سمندر کہتے ہیں۔ جزائر کے سب سے زیادہ متنازعہ گروپوں میں ’پاراسل جزائر‘، جنہیں چین میں Xisha اور ویتنام میں ہوانگ سا کے طور پر جانا جاتا ہے، اسپراٹلی جزائر جنہیں چین میں نانشا کوانڈو، ویتنام میں ترونگ سا جبکہ فلپائن میں کاپولان یا کالایان کہا جاتا ہے۔ یہ سمندر باقی دنیا کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو مشرقی ایشیا سے ملاتا ہے۔ چین کی تیل کی قریب تمام برآمدات جنوبی چین کے سمندر سے پہنچتے ہیں جبکہ چین سے یورپ اور افریقہ جانے والی تمام برآمدات شمال کی سمت سے جاتی ہیں۔
برلن میں قائم انٹر نیشنل سکیورٹی امور کے ایک ماہر ’گیرہارڈ وِل‘ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’سٹریٹیجک اور ملٹری اعتبار سے جنوبی چین کے سمندر کی ایک اہم پوزیشن ہے جو نہ صرف جنوبی مشرقی ایشیا بلکہ اس کے آس پاس کے علاقوں کو کنٹرول کرنے کے ضمن میں بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
مچھلیوں کی کثرت
بحیرہ جنوبی چین میں بہت بڑی تعداد میں مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے مطابق جنوبی چین کے سمندر سے دنیا بھر میں مچھلیوں کے سالانہ حصول کا 10 فیصد حاصل ہوتا ہے۔ تاہم بتایا گیا ہے کہ مچھلیوں کا بہت زیادہ شکار اب اس سمندر سے مچھلیوں کی تعداد میں تیزی سے کمی کا سبب بن رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ماہی گیروں کو اس پانی کی گہرائی میں جانے پر مجبور کیا جاتا ہے جہاں ان کا تصادم پانی کی حفاظت کرنی والی فورسز سے ہو تا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حالیہ سالوں میں بحیرہ جنوبی چین کے پانی سے مچھلیاں نکالنے والے ماہی گیروں کی گرفتاریاں اور ان کی کشتیوں کو نقصان پہنچانے جیسے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ مختلف ملکوں کی سکیورٹی فورسز ایک دوسرے کے ماہی گیروں پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔ مچھلی نہ صرف انسانوں کے لیے پروٹین کے حصول کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے بلکہ یہ ماہی گیری اقتصادی شعبے کی ایک اہم شاخ بن چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2010ء میں ویتنام کی مجموعی قومی پیداوار کا 7 فیصد ماہی گیری کے ذریعے حاصل ہوا۔ فلپائن کے قریب ڈیڑھ ملین باشندے ماہی گیری کے ذریعے اپنا روزگار کماتے ہیں۔
بحیرہ جنوبی چین غیر معمولی دلچسپی کا مرکز
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔