پاکستانی ماہرین نے دوا کے ذریعے تھیلے سیمیا کا علاج دریافت کرلیا۔ یہ کامیابی پاکستانی ڈاکٹروں نے 10 سالہ تحقیق کے بعد حاصل کی ہے۔ معروف امراض خون ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی اور ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری کے مطابق Hydronyurea دوا کے استعمال کروانے سے (جو کہ کسی دوسرے مرض میں استعمال کروائی جاتی ہے) تھیلے سیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں میں خون چڑھانے کا انحصار کم یا بالکل ختم دیکھا گیا۔ تحقیق میں پاکستان میں تھیلے سیمیا کا باعث بننے والی جنیاتی خرابیوں میں سے 5 کی موجودگی میں د وا کے حوصلہ افزاءنتائج نظر آئے۔ پاکستان میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز (این آئی بی ڈی) میں تھیلے سیمیا کے 152 مریضوںمیں سے 41 فیصد کو خون چڑھانے سے نجات مل گئی جبکہ 39 فیصد مریضوں میں انتقال خون کی ضرورت نصف رہ گئی جبکہ باقی 20 فیصد مریضوں میں اس دوا کی وجہ سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ یہ تحقیق امریکا سے شائع ہونے والے طبی جریدے ”جنرل آف پیڈیاٹرک ہیماٹولوجی آن کالوجی“ میں 2011ء میں شائع ہوچکی ہے۔ ماہر امراض خون برائے اطفال ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے اس تحقیق کا آغاز اپریل 2003ء میں 23 مریضورں میں اس دوا کے استعمال سے کیا جبکہ انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی اسی تحقیق پر کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ دوا خون کی بیماری SICK-E-CELL-DISEASES کے لئے گزشتہ 20 سالوں سے امریکی ادارے (ایف ڈی اے) سے منظور شدہ ہے اس دوا کے استعمال سے این آئی بی ڈی میں تھیلے سیمیا کے 152 مریض بچوں میں سے 41 فیصد کو خون چڑھانے سے نجات مل گئی جبکہ 39 مریضوں میں انتقال خون کی ضرورت نصف رہ گئی تاہم 20 فیصد مریضوں میں اس دوا کی وجہ سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔ اس دوا کے استعمال کے بعد خون نہ لگنے کی و جہ سے کسی بھی مریض کی تلی (Spleen) یا جگر کے حجم میں اضافہ نہیں دیکھا گیا جبکہ چہرے کی بناوٹ میں بہتری، کھیل کود میں بچوں کی دلچسپی، بھوک اور وزن میں بھی اضافہ ہوا۔ مزید تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں الفا تھیلے سیمیا اور بی ٹا تھیلے سیمیا (خلیوں کے اندر موجود پروٹین کا نام) کے امراض کی ایک ہی شخص میں موجودگی 37 فیصد سامنے آئی ہے۔ الفا تھیلے سیمیا کے اعداد و شمار اس سے قبل پاکستان میں دستیاب نہیں تھے۔ اس تحقیق کے بعد تھیلے سیمیا کے مریض کی جنیاتی تشخیص لازمی قرار دی جانی چاہئے۔ اگر جنیاتی طور پر بی ٹا تھیلے سیمیا کی جنین میں تبدیلی یا الفا تھیلے سیمیا کی موجودگی پائی جائے تو اس دوا کے استعمال سے انتقال خون کے عمل کو بند یا کم کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ہر سال پانچ سے 8 ہزار تک بی ٹا تھیلے سیمیا کے مریض پیدا ہوتے ہیں جبکہ 9.8 ملین (carrier) جو خود تو صحت مند ہوتے ہیں مگر ان کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے آنے و الے بچوں میں یہ شدید بیماری منتقل کرسکتے ہیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ دوا بین الاقوامی اداروں سے منظوری حاصل نہیں کرلیتی ہے اس دوا کا استعمال صرف اور صرف تحقیق کے لئے خون کے امراض کے ماہر ڈاکٹرز کی نگرانی میں ہونا چاہئے۔
ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی کے مطابق تھیلے سیمیا کے مریضوں میں جین میں پائی جانے و الی خرابی کا مطالعہ کرکے ہی تھیلے سیمیا کے مریضوں کا بہتر علاج ممکن ہوسکتا ہے۔ ہیموگلوبین ایف کے اضافے کے بعد روزمرہ کی زندگی کو بہتر، انتقال خون کی ضرورت میں کمی اور جسم میں فولاد میں کمی واقع ہوسکتی ہے اس موضوع پر مزید تحقیقی عمل جاری ہے۔ ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے تھیلے سیمیا کے متعلق بتایا کہ خون کے سرخ خلیوں میں ہیموگلوبین کے بننے کی صلاحیت متاثر ہونے سے 6 ماہ کی عمر تک خون کی شدید کمی واقع ہوجاتی ہے چنانچہ ان بچوں کو زندہ رہنے کے لئے مستقل خون چڑھانا پڑتا ہے۔ یہ عمل ساری ز ندگی جاری رہتا ہے۔ مستقل خون چڑھنے یا چڑھانے کی وجہ سے ان بچوں کے خون میں فولاد کی زیادتی، ہیپاٹائٹس بی، سی اور ایچ آئی وی / ایڈز جیسے مرض ہوسکتے ہیں چنانچہ اگر خون لگانے کی بجائے تھیلے سیمیا یعنی سرخ خلیوںمیں ہیموگلوبین بننے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے دوا دی جائے تو متاثرہ بچے درج بالا پیچیدگیوں (جو خون چڑھانے سے پیدا ہوتی ہیں) سے بچ سکتا ہے اور وہ نسبتاً صحت مند لمبی عمر حاصل کرسکتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔