گزشتہ ہفتے جب ’لندن اولمپکس‘ میں خواتین کی 100 میٹر دوڑ کے ابتدائی مرحلے میں تہمینہ کوہستانی نے ’فِنش لائن‘ پار کی تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
لیکن یہ آنسو اس وجہ سے نہیں تھے کہ وہ اس مقابلے میں سب سے آخری نمبرپر آئی تھیں۔ بلکہ ان کے آبدیدہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ’لندن اولمپکس‘ میں اپنے ملک افغانستان کی نمائندگی کرنے والی واحد خاتون ایتھلیٹ تھیں۔
اس 23 سالہ نوجوان ایتھلیٹ نے پیر کو ’وائس آف امریکہ – اردو سروس‘ کے لندن میں موجود نمائندے عادل شاہ زیب کو انٹرویو میں ان مشکل حالات کا تذکرہ کیا جن سے گزر کر وہ اس مقام تک پہنچیں۔
تہمینہ نے بتایا کہ وہ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے جس سٹیڈیم میں دوڑنے کی مشق کیا کرتی تھیں وہاں نہ صرف انہیں لوگوں کی چبھتی ہوئی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا بلکہ ان پر آوازیں بھی کسی جاتی تھیں۔ تہمینہ کے بقول ان میں سے اکثر لوگ چاہتے تھے کہ وہ گھر ہی سے باہر نہ نکلیں۔
کابل کے ایک ٹیکسی ڈرائیور نے یہ سن کر انہیں سٹیڈیم تک لے جانے سے انکار کردیا تھا کہ وہ لندن میں ہونے والے ’لندن اولمپکس‘ کے مقابلوں میں افغانستان کی نمائندگی کرنے والی واحد خاتون ایتھلیٹ ہوں گی۔
تہمینہ کے بقول اس ٹیکسی ڈرائیور نے انہیں کہا، ”میری ٹیکسی سے اتر جاؤ میں تمہیں تمہاری منزل تک نہیں لے جانا چاہتا کیوں کہ یہ ٹھیک نہیں۔ تم صحیح لڑکی نہیں ہو“۔
سنہ 1990 کی دہائی میں طالبان حکومت کے دوران میں افغان عورتوں کو ملازمت کرنے، تعلیم حاصل کرنے حتی کہ کسی مرد کے بغیر کہیں آنے جانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔
گوکہ 2001ء میں امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان حکومت کے خاتمے کےبعد سے افغان عورتوں کی زندگی میں خاصی تبدیلی آئی ہے، افغان معاشرے میں خواتین کے سرگرم کردار کے خلاف موجود مزاحمت اب بھی شدید ہے۔
لیکن اس کے باوجود تہمینہ کوہستانی کا عزم پختہ ہے اور اپنی ہم وطن عورتوں کے لیے ان کا پیغام ہے کہ وہ گھروں سے نکلیں، ایک دوسرے سے رابطے بڑھائیں اور افغان معاشرے میں خود کو درپیش مشکلات کا مل جل کر مقابلہ کریں۔
گوکہ تہمینہ ’لندن اولمپکس‘ میں اپنے وطن کے لیے کوئی تمغہ تو نہیں جیت پائیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ کھیلوں کی دنیا کے ان سب سے بڑے مقابلوں میں ان کی شرکت سے افغان عورتوں کے لیے امید کا ایک نیا در در ضرور وا ہوا ہے۔
'لندن اولمپکس' کی واحد افغان خاتون ایتھلیٹ
لیکن یہ آنسو اس وجہ سے نہیں تھے کہ وہ اس مقابلے میں سب سے آخری نمبرپر آئی تھیں۔ بلکہ ان کے آبدیدہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ’لندن اولمپکس‘ میں اپنے ملک افغانستان کی نمائندگی کرنے والی واحد خاتون ایتھلیٹ تھیں۔
اس 23 سالہ نوجوان ایتھلیٹ نے پیر کو ’وائس آف امریکہ – اردو سروس‘ کے لندن میں موجود نمائندے عادل شاہ زیب کو انٹرویو میں ان مشکل حالات کا تذکرہ کیا جن سے گزر کر وہ اس مقام تک پہنچیں۔
تہمینہ نے بتایا کہ وہ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے جس سٹیڈیم میں دوڑنے کی مشق کیا کرتی تھیں وہاں نہ صرف انہیں لوگوں کی چبھتی ہوئی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا بلکہ ان پر آوازیں بھی کسی جاتی تھیں۔ تہمینہ کے بقول ان میں سے اکثر لوگ چاہتے تھے کہ وہ گھر ہی سے باہر نہ نکلیں۔
کابل کے ایک ٹیکسی ڈرائیور نے یہ سن کر انہیں سٹیڈیم تک لے جانے سے انکار کردیا تھا کہ وہ لندن میں ہونے والے ’لندن اولمپکس‘ کے مقابلوں میں افغانستان کی نمائندگی کرنے والی واحد خاتون ایتھلیٹ ہوں گی۔
تہمینہ کے بقول اس ٹیکسی ڈرائیور نے انہیں کہا، ”میری ٹیکسی سے اتر جاؤ میں تمہیں تمہاری منزل تک نہیں لے جانا چاہتا کیوں کہ یہ ٹھیک نہیں۔ تم صحیح لڑکی نہیں ہو“۔
سنہ 1990 کی دہائی میں طالبان حکومت کے دوران میں افغان عورتوں کو ملازمت کرنے، تعلیم حاصل کرنے حتی کہ کسی مرد کے بغیر کہیں آنے جانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔
گوکہ 2001ء میں امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان حکومت کے خاتمے کےبعد سے افغان عورتوں کی زندگی میں خاصی تبدیلی آئی ہے، افغان معاشرے میں خواتین کے سرگرم کردار کے خلاف موجود مزاحمت اب بھی شدید ہے۔
لیکن اس کے باوجود تہمینہ کوہستانی کا عزم پختہ ہے اور اپنی ہم وطن عورتوں کے لیے ان کا پیغام ہے کہ وہ گھروں سے نکلیں، ایک دوسرے سے رابطے بڑھائیں اور افغان معاشرے میں خود کو درپیش مشکلات کا مل جل کر مقابلہ کریں۔
گوکہ تہمینہ ’لندن اولمپکس‘ میں اپنے وطن کے لیے کوئی تمغہ تو نہیں جیت پائیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ کھیلوں کی دنیا کے ان سب سے بڑے مقابلوں میں ان کی شرکت سے افغان عورتوں کے لیے امید کا ایک نیا در در ضرور وا ہوا ہے۔
'لندن اولمپکس' کی واحد افغان خاتون ایتھلیٹ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔