جمعہ, اگست 31, 2012

سانپ کے کاٹے کا نیا علاج: پاکستانی سائنسدان کامیاب

پاکستانی سائنسدانوں نے کچھ ایسے سانپوں کے کاٹے کا علاج دریافت کرلیا ہے جن کا طریاق امریکا اور یورپ میں بھی نہیں ملتا ہے۔

سرکاری ڈاﺅ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسس کے سائنسدانوں کے مطابق چونکہ پاکستان میں ملنے والے سانپ امریکی اور یورپی سانپوں سے مختلف ہوتے ہیں لہذا ان کا طریاق بھی باہر سے نہیں منگایا جاسکتا۔ اب تک جتنے بھی طریاق درآمد کیے جاتے رہے ہیں وہ پاکستانی سانپوں کی کئی اقسام کے کاٹے کا علاج نہیں کر پاتے تھے۔ ڈاؤ یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر عمر فاروق کے مطابق پاکستان میں چار اقسام کے سانپ پائے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان میں سے کئی اقسام کا علاج باہر سے منگائی ہوئی ادویات نہیں کر پاتیں۔ اسی لیے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ طریاق یہیں تیار کئے جائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طریاق کو بلجیم کی تجربہ گاہوں میں پرکھا گیا ہے اور وہاں ان کی قوت بین الاقوامی میعار کے مطابق پائی گئی ہے۔

سندھ میں کئی ایسے علاقے پائی جاتے ہیں جہاں ہر سال ہزاروں افراد سانپوں سے ڈسے جاتے ہیں اور ان میں سے کئی اس وجہ سے مر بھی جاتے ہیں۔ چونکہ پاکستانی سانپوں کے زہر کا طریاق نہیں پایا جاتا تھا لہذا یہاں مرنے والوں کی شرح زیادہ رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہر سال یہاں سیکڑوں افراد سانپوں سے ڈسے جاتے ہیں۔ مقامی لوگ اس مصیبت سے ہمیشہ کے خائف رہے ہیں اور اسی وجہ سے اس علاقے میں ایک عرصے تک سانپوں کو پوجا جاتا رہا ہے۔ اسلام آنے کے بعد یہاں لوگوں نے سانپوں کو خدا ماننا تو بند کردیا تھا لیکن ان کا خوف بہرحال ختم نہیں ہوا تھا۔

پروفیسر عمر فاروق کہتے ہیں کہ اس طریاق کی تیاری میں پاکستانی سائنسدانوں نے یہاں پائے جانے والے چاروں اقسام کے سانپوں کے زہر کو گھوڑوں پر آزمایا اور یوں اب ان کے پاس کئی گھوڑے پائے جاتے ہیں جو سانپ کے کاٹے سے مکمل طور پر محفوظ ہوگئے ہیں۔ اب انہی گھوڑوں سے یہ طریاق نکالا گیا ہے۔ ان کو یقین ہے کہ ہر چند کہ باقاعدہ اس دوا کا بنایا جانا شروع تو نہیں ہوا ہے لیکن ایک دفعہ بازار میں آجانے کے بعد یہ طریاق سندھ اور پنجاب میں پائے جانے والی اس بڑی مشکل سے لوگوں کو بچا سکے گا۔


سانپ کے کاٹے کا نیا علاج: پاکستانی سائنسدان کامیاب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔