یورپ کے 20 شہروں میں ڈینگی فیور پھیلانے کا باعث بننے والے، ایشین ’ٹائیگرمچھر‘ طبی محققین کے لیے گہری تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔
جنوبی فرانس کی ہوا بند لیبارٹری میں سائنسدان انگلی کے ناخن کے برابر سائز کے اُن مچھروں پر تحقیق کررہے ہیں جو ڈینگی فیور کے خطرات یورپی ممالک تک لانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ جالی دار پنجروں میں بند یہ مچھر ایشیائی ٹائیگر یا ایشیائی شیر مچھر کہلاتے ہیں اور ان میں معتدل یورپ میں ڈینگی فیور اور دیگر امراض پھیلانے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
یہ مچھر سب سے پہلے البانیا میں 1979ء میں پائے گئے تاہم رفتہ رفتہ سفید اور کالی دھاری والے ان ایشیائی مچھروں نے بحر روم پر واقعے ممالک اور شمالی اور مغربی یورپی ممالک میں گھر بنا لیا ہے۔ اس بارے میں مچھروں پر کنٹرول کے سب سے بڑے فرانسیسی ادارے کے حشریات دان ’ژاں ببٹسٹ فیر‘ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ڈینگی فیور کے خطرات والے یہ مچھر 20 یورپی ممالک میں پائے گئے ہیں اور انہوں نے معتدل آب و ہوا والے شمالی یورپی ممالک جرمنی، بلجیم اور ہالینڈ میں میں بھی اپنی کالونیز بنا لی ہیں۔
فرانسیسی حشریات دان ’ژاں ببٹسٹ فیر‘ کے بقول، ’جتنے زیادہ مچھر ہوں گے اتنے زیادہ خطرات پائے جائیں گے‘۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مچھروں کا لاطینی نام Aedes albopictus ہے اور یہ بہت سے اقسام کے وائرس پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک ڈینگی وائرس بھی ہے جو haemorrhagic fever یا جریان خون سے متعلق مہلک بخار کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح مغربی نیل کے وائرس سینٹ لوئس اینسیفالیٹیس اور’چیکُن گونیا‘ جیسی جوڑوں کی نہایت تکلیف دہ بیماری کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ Aedes albopictus ایک بیمار شخص کا خون چوس کر اسے مرض زا وائرس تک منتقل کردیتا ہے۔
جنوبی فرانس کی ہوا بند لیبارٹری میں سائنسدان انگلی کے ناخن کے برابر سائز کے اُن مچھروں پر تحقیق کررہے ہیں جو ڈینگی فیور کے خطرات یورپی ممالک تک لانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ جالی دار پنجروں میں بند یہ مچھر ایشیائی ٹائیگر یا ایشیائی شیر مچھر کہلاتے ہیں اور ان میں معتدل یورپ میں ڈینگی فیور اور دیگر امراض پھیلانے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
یہ مچھر سب سے پہلے البانیا میں 1979ء میں پائے گئے تاہم رفتہ رفتہ سفید اور کالی دھاری والے ان ایشیائی مچھروں نے بحر روم پر واقعے ممالک اور شمالی اور مغربی یورپی ممالک میں گھر بنا لیا ہے۔ اس بارے میں مچھروں پر کنٹرول کے سب سے بڑے فرانسیسی ادارے کے حشریات دان ’ژاں ببٹسٹ فیر‘ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ڈینگی فیور کے خطرات والے یہ مچھر 20 یورپی ممالک میں پائے گئے ہیں اور انہوں نے معتدل آب و ہوا والے شمالی یورپی ممالک جرمنی، بلجیم اور ہالینڈ میں میں بھی اپنی کالونیز بنا لی ہیں۔
فرانسیسی حشریات دان ’ژاں ببٹسٹ فیر‘ کے بقول، ’جتنے زیادہ مچھر ہوں گے اتنے زیادہ خطرات پائے جائیں گے‘۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مچھروں کا لاطینی نام Aedes albopictus ہے اور یہ بہت سے اقسام کے وائرس پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک ڈینگی وائرس بھی ہے جو haemorrhagic fever یا جریان خون سے متعلق مہلک بخار کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح مغربی نیل کے وائرس سینٹ لوئس اینسیفالیٹیس اور’چیکُن گونیا‘ جیسی جوڑوں کی نہایت تکلیف دہ بیماری کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ Aedes albopictus ایک بیمار شخص کا خون چوس کر اسے مرض زا وائرس تک منتقل کردیتا ہے۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے منطقہ حارہ کے ممالک سے یورپ آنے والے یہ ایشیائی شیر مچھر ان ملکوں کے علاقائی امراض کے وائرس کو یورپ کے باشندوں میں پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔ 2007ء میں اٹلی میں ٹائیگر موسکیٹیوز اندرون ملک پیدا ہونے والی بیماری ’چیکُن گونیا‘ کا سبب بنے تھے۔ اُدھر 2010ء میں کروشیا میں علاقائی سطح پر منتقل ہونے والے ڈینگی وائرس کے 10 واقعات سامنے آئے تھے۔ اُسی سال جنوبی فرانس میں ان دونوں بیماریوں کے دو دو کیسز سامنے آئے جو یورپ بھر میں خطرے کی گھنٹی ثابت ہوئے۔
فرانسیسی محققین اور بشریات دانوں نے فرانس کے گرد و نواح میں 1500 ایسے مقامات کا پتہ لگایا ہے جہاں ایشیائی ٹائیگر مچھروں نے انڈے دینے کے لیے جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ ماہرین اسے یورپ کے سرد ماحول میں میں ڈینگی وائرس کی جائے پیدائش کی موجودگی کی ایک واضح نشانی سمجھ رہے ہیں۔ رواں برس مئی سے اب تک فرانس میں باہر سے آئے ہوئے افراد میں ڈینگی اور ’چیکُن گونیا‘ کے 267 مبینہ کیسز سامنے آچکے ہیں۔
فرانس کے Pasteur Institute سے منسلک بشریات دان ’آنا بیلا فیل لوکس‘ کا کہنا ہے،’’اگر آپ کے ارد گرد کوئی مچھر نہ بھی ہو تب بھی کہیں نا کہیں اُن کے انڈے موجود ہوسکتے ہیں جو اگلی بارشوں کے منتظر رہتے ہیں‘‘۔
ایشیائی مچھروں کا یورپی شہروں پر حملہ
فرانسیسی محققین اور بشریات دانوں نے فرانس کے گرد و نواح میں 1500 ایسے مقامات کا پتہ لگایا ہے جہاں ایشیائی ٹائیگر مچھروں نے انڈے دینے کے لیے جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ ماہرین اسے یورپ کے سرد ماحول میں میں ڈینگی وائرس کی جائے پیدائش کی موجودگی کی ایک واضح نشانی سمجھ رہے ہیں۔ رواں برس مئی سے اب تک فرانس میں باہر سے آئے ہوئے افراد میں ڈینگی اور ’چیکُن گونیا‘ کے 267 مبینہ کیسز سامنے آچکے ہیں۔
فرانس کے Pasteur Institute سے منسلک بشریات دان ’آنا بیلا فیل لوکس‘ کا کہنا ہے،’’اگر آپ کے ارد گرد کوئی مچھر نہ بھی ہو تب بھی کہیں نا کہیں اُن کے انڈے موجود ہوسکتے ہیں جو اگلی بارشوں کے منتظر رہتے ہیں‘‘۔
ایشیائی مچھروں کا یورپی شہروں پر حملہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔