’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ امریکی سنٹرل انٹیلی جینس ایجنسی کےلینگ لے کے ہیڈکوارٹر میں کسی جگہ اُس پاکستانی ڈاکٹر کے لئے ایک میڈل آف آنر رکھا ہوا ہے جس نے اس ایجنسی کو ہیپاٹائٹس کےخلاف ایک بوگس سکیم چلا کر ایبٹ آباد میں اوسامہ بن لادن کی پناہ گاہ کا سُراغ لگانے میں مدد کی تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ ڈاکٹر شکیل آفریدی شاید عرصہ دراز تک اپنا یہ میڈل حاصل نہ کرسکے، کیونکہ اس وقت وہ پشاور کے سنٹرل جیل میں 33 سال کی قید تنہائی کی سزا بُھگت رہا ہے۔ یہ سزا اُسے بغاوت کے الزام میں مئی میں سُنائی گئی تھی۔
پاکستان کی آئی ایس آئی کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں آفریدی کو ایک جہادی تنظیم کا رکن ہونے کا مجرم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نے 25 مرتبہ غیرملکی خفیہ ایجنٹوں سے ملاقات کی اور ان سے ہدایات حاصل کیں اور اُنہیں حسّاس نوعیت کی معلومات فراہم کیں یہ جانتے ہوئے کہ ایسا کرکے وہ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کررہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ شاید اس ڈاکٹر نے ٹیکے لگانے کا ایک جعلی پروگرام شروع کرکے اور پاکستانی اخباری اطلاعات کے مطابق اس کے لئے 61 ہزار ڈالر کی رقم لے کر طبّی پیشے کی ذمّہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہو۔
لیکن، اخبار کے خیال میں دلچسپ سوال یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے لئے اکیسویں صدی کے بدنام ترین دہشت گرد کے بارے میں معلومات کیونکر حسّاس ہوسکتی ہیں، سوائے اس کے کہ یہ ادارہ یا اس کے عناصر اسے تحفظ فراہم کررہے ہونگے۔ اس سے بھی زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ یہ ادارہ اوسامہ بن لادن کو ہلاک کرنا پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے پاکستان کے ساتھ تعلّقات میں حال ہی میں گرمجوشی آئی ہےاور آئی ایس آئی کے ایک نئے سربراہ نے واشنگٹن کی طرف زیادہ تعمیری رویّہ اختیار کیا ہے۔ لیکن یہ مفاہمت اس وقت تک اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک ڈاکٹرآفریدی جیل میں بند ہے۔ بن لادن کو ٹھکانے لگانے والے امریکی افراد کو واپس گھر لایا جا چُکا ہے اور ڈاکٹر آفریدی اُنہیں میں سے ایک تھا۔ اور امریکہ کی امداد کرنے والوں کو یہ اطمینان ہونا چاہئیے کہ جس طرح ہم اپنے فوجیوں کو میدان جنگ میں نہیں چھوڑ آئے اُسی طرح ہم اپنے دوستوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑتے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ ڈاکٹر شکیل آفریدی شاید عرصہ دراز تک اپنا یہ میڈل حاصل نہ کرسکے، کیونکہ اس وقت وہ پشاور کے سنٹرل جیل میں 33 سال کی قید تنہائی کی سزا بُھگت رہا ہے۔ یہ سزا اُسے بغاوت کے الزام میں مئی میں سُنائی گئی تھی۔
پاکستان کی آئی ایس آئی کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں آفریدی کو ایک جہادی تنظیم کا رکن ہونے کا مجرم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نے 25 مرتبہ غیرملکی خفیہ ایجنٹوں سے ملاقات کی اور ان سے ہدایات حاصل کیں اور اُنہیں حسّاس نوعیت کی معلومات فراہم کیں یہ جانتے ہوئے کہ ایسا کرکے وہ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کررہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ شاید اس ڈاکٹر نے ٹیکے لگانے کا ایک جعلی پروگرام شروع کرکے اور پاکستانی اخباری اطلاعات کے مطابق اس کے لئے 61 ہزار ڈالر کی رقم لے کر طبّی پیشے کی ذمّہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہو۔
لیکن، اخبار کے خیال میں دلچسپ سوال یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے لئے اکیسویں صدی کے بدنام ترین دہشت گرد کے بارے میں معلومات کیونکر حسّاس ہوسکتی ہیں، سوائے اس کے کہ یہ ادارہ یا اس کے عناصر اسے تحفظ فراہم کررہے ہونگے۔ اس سے بھی زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ یہ ادارہ اوسامہ بن لادن کو ہلاک کرنا پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے پاکستان کے ساتھ تعلّقات میں حال ہی میں گرمجوشی آئی ہےاور آئی ایس آئی کے ایک نئے سربراہ نے واشنگٹن کی طرف زیادہ تعمیری رویّہ اختیار کیا ہے۔ لیکن یہ مفاہمت اس وقت تک اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک ڈاکٹرآفریدی جیل میں بند ہے۔ بن لادن کو ٹھکانے لگانے والے امریکی افراد کو واپس گھر لایا جا چُکا ہے اور ڈاکٹر آفریدی اُنہیں میں سے ایک تھا۔ اور امریکہ کی امداد کرنے والوں کو یہ اطمینان ہونا چاہئیے کہ جس طرح ہم اپنے فوجیوں کو میدان جنگ میں نہیں چھوڑ آئے اُسی طرح ہم اپنے دوستوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑتے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔