دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری روزمرہ زندگیوں میں جتنی تبدیلی پہلے سوبرس میں آتی تھی، اب وہ محض دس برسوں میں آرہی ہے اور بہت جلد تبدیلی کی رفتار اس سے بھی دگنی ہوجائے گی۔
اگلے پانچ سے دس سال میں بہت کچھ بدلنے جارہا ہے اور بہت ممکن ہے کہ آج پیدا ہونے والے بچے پانچ سال کے بعد جب سکول میں پہنچیں گے تو آج کی بہت سی مقبول سائنسی ایجادات انہیں تصویروں یا کباڑخانوں میں نظر آئیں گی۔
امریکہ سمیت بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر اب اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ڈیجیٹل الیکٹرانکس کے سٹوروں میں اب ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر اکا دکا ہی دکھائے دیتے ہیں اور ان کی جگہ لے لی ہے لیپ ٹاپ کمپوٹرز نے۔ لیپ ٹاپس کے اکثر نئے ماڈلز میں استعمال کیا جانے والا مائیکرو پراسسر ڈیسک ٹاپ کے مقابلے میں طاقت، ریم میموری اور ہارڈ ڈسک بھی نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ گرافک کارڈ بہتر ہیں اور انٹرنیٹ کے لیے زیادہ قوت کے وائی فائی استعمال کیے گئے ہیں۔ لیب ٹاپ کے اکثر نئے ماڈلز کو ڈیسک ٹاپ کے متبادل کا نام دیا جارہا ہے۔ قیمت بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ پانچ سو سے سات سو ڈالر میں آپ ایک ایسا لیپ ٹاپ لے سکتے ہیں جو آپ کو ڈیسک ٹاپ کی ضرورت سے بےنیاز کرسکتا ہے، اور آپ جس جگہ چاہیں، آرام سے بیٹھ کر اپنا کام کرسکتے ہیں۔ بجلی کے کنکشن کا جھنجھٹ اور نہ انٹرنیٹ کی تار لگانے کی ضرورت۔ نئے طاقت ور لیپ ٹاپ وزن میں ہلکے ہیں، ان کی بیٹری دیر تک چلتی ہے یعنی آپ چھ سے آٹھ گھنٹے تک بیٹری چارچ کیے بغیر کام کرسکتے ہیں۔ اب ایسے لیپ ٹاپ بھی دستیاب ہیں جن کی بیٹری 15 گھنٹوں تک چلتی ہے۔
ایک طرف جہاں ڈیسک ٹاپ کی جگہ لے رہا ہے لیپ ٹاپ تو دوسری طرف لیپ ٹاپ کی بقا بھی خطرے میں پڑی ہوئی ہے۔ چار پانچ سال پہلے لیپ ٹاپ کے مقابلے میں نیٹ بک متعارف ہوئی تھی۔ یہ ہلکا پھلکا لیپ ٹاپ ایسے لوگوں کے لیے تھا جو زیادہ تر انٹرنیٹ پر رہتے ہیں۔ نیٹ بک کے بعد کے ماڈلز کو لیپ ٹاپ کا متبادل بنانے کےلیے ان میں طاقت ور مائیکرو پراسیسر، زیادہ ریم میموری اور بڑی ہارڈ ڈیسک لگائی گئی۔ نیٹ بک ابھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہوہی رہی تھی کہ اس پر شب خون مارا ایپل نے آئی پیڈ کی شکل میں۔
آئی پیڈ ایک طرح سے نیٹ بک ہی ہے، مگر اس کا وزن کم تھا، کارکردگی بہتر تھی، بیٹری زیادہ چلتی تھی اور دیکھنے میں کہیں زیادہ جاذب نظر تھی۔ آئی پیڈ کی نقل میں بہت سی ڈیجیٹل کمپنیاں بھی اسی طرح کے اپنے کمپیوٹر مارکیٹ میں لے آئیں۔ امریکی مارکیٹوں میں اب نیٹ بک ڈھونڈے سے ہی کہیں دکھائی دیتی ہے اور ہر جگہ اپنے جلوے دکھا رہے ہیں آئی پیڈ طرز کے منی کمپیوٹر۔
منی کمپیوٹرز کی اس نئی نسل نے صرف نیٹ بک اور روایتی لیپ ٹاپ کو ہی اپنا نشانہ نہیں بنایا بلکہ الیکٹرانک بک ریڈرز بھی اس کی زد میں آگئے کیونکہ وہ اپنی شکل وشہبات اور حجم میں بک ریڈرز سے بہت قریب ہیں، جس پر آپ ڈیجیٹل کتابیں پڑھنے کے ساتھ کمپیوٹر کی سہولت کا فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ ان منی کمپیوٹرز یا لیپ ٹاپس کی بہتات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ بک ریڈر جو چند سال پہلے تک چار پانچ سو ڈالر میں ملتا تھا، اب ایک سو ڈالر سے کم میں بھی دستیاب ہیں مگر کوئی خریدار نہیں ہے۔
ایک دوسرے کی جگہ لینے کا یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے۔ آئی پیڈ طرز کے کمپیوٹرز کو اب نگل رہاہے سمارٹ موبائل فون۔ گذشتہ دو برسوں کے دوران سمارٹ فونز کے سائز نمایاں طورپر بڑے ہوچکے ہیں۔ اور مارکیٹ میں پانچ سے سوا پانچ انچ سائز کے فونز عام فروخت ہورہے ہیں۔ ان میں طاقت ور مائیکرو پراسیسر نصب ہیں۔ نئی نسل کے کئی سمارٹ فونز اب ڈبل کور پراسیسر ز کے ساتھ آرہے ہیں اور ان ریم میموری دو جی بی ہے جب کہ قابل استعمال میموری 16 سے 32 جی بی ہے جب کہ ان میں 64 جی بی فلیش میموری کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ گویا ایک طرح سے آپ کے پاس 96 جی بی ہارڈ ڈسٹک موجود ہے جو نیٹ بک اور آئی پیڈ ٹائپ منی کمپیوٹرز سے کہیں زیادہ ہے۔ ان میں این ٹائپ طاقت ور وائی فائی انٹرنیٹ اور جی فور کی سہولت فراہم کی گئی ہے جس سے اس کی انٹرنیٹ کارکردگی ایک اچھے اور معیاری لیپ ٹاپ جیسی بن گئی ہے۔ ان سمارٹ فونز میں دو کیمرے فراہم کیے گئے ہیں۔ سامنے کے رخ ویڈیو چیٹنگ کے لیے تقریباً دو میگا پیکسلز کا کیمرہ لگایا گیا ہے جب کہ پیچھے کی جانب آٹھ میگا پیکسلز کا زوم کیمرہ ہے، جو نہ صرف معیاری تصویر اتار تا ہے بلکہ 1080 ایچ ڈی ویڈیو فلم بھی بناسکتاہے۔ بعض ماڈلز میں 16 میگا پیکسلز کے کیمرے نصب ہیں۔ نئے سمارٹ فونز کے کیمروں میں کئی ایسے فنگشنز بھی شامل کردیے گئے ہیں جو اس سے پہلے صرف اعلیٰ معیار کے پروفیشنلز کیمروں میں ہی ملتے تھے۔
نئے سمارٹ موبائل فونز اب لیپ ٹاپ کی ہائی ریزلوشن سکرین کے ساتھ آرہے ہیں۔
اس طرح سمارٹ فونز کی نئی نسل، صرف فون ہی نہیں ہے بلکہ وہ بیک وقت ایک
طاقت ور منی کمپیوٹر بھی ہے، ایک معیاری سٹل اور ویڈیو کیمرہ بھی ہے، ایک
ڈیجٹل بک ریڈر بھی ہے، ایک جدید جی پی ایس بھی ہے جس سے آپ راستے معلوم
کرسکتے ہیں اور اس کے سیٹلائٹ لنک کے ذریعے سڑکوں پر ٹریفک کی تازہ ترین
صورت حال سے بھی باخبر رہ سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ کلاک بھی ہے
اور کلینڈر بھی۔
نئے سمارٹ فونز میں ٹی وی کی سہولت بھی موجود
ہے اوران پر آپ اپنی پسند کے ٹی وی چینلزالائیو دیکھ سکتے ہیں۔ گویا ایک
فون میں کئی ڈیجیٹل آلات کی خصوصیات کو اکٹھا کردیا گیا ہے۔
اکثر
تجریہ کاروں کا کہناہے کہ آج ہمارے زیر استعمال بہت سے سائنسی آلات
آئندہ پانچ سے دس برسوں میں روزمرہ زندگی سے نکل جائیں گے اور ان سب کی جگہ
لے لے گا ایک سمارٹ فون، جو کمپیوٹر سے لے کر گھر کے الیکٹرانک آلات کو
کنٹرول کرنے والے ریموٹ تک کی بجائے استعمال کیا جانے لگے گا۔
مستقبل کی اہم سائنسی ایجاد