ہفتہ, جولائی 14, 2012

سری لنکا نے ٹیسٹ سیریز جیت لی

پالی کیلے میں کھیلے جانے والا تیسرا اور آخری کرکٹ ٹیسٹ میچ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوگیا جبکہ اس سے قبل دوسرا ٹیسٹ بھی بے نتیجہ رہا تھا۔

پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کھیلا جانے والا تیسرا اور آخری کرکٹ ٹیسٹ میچ بغیر ہار جیت کے فیصلے کے ختم ہوگیا اور یوں میزبان ٹیم نے یہ سیریز ایک، صفر سے جیت لی۔

پالی کیلے میں جمعرات کو میچ کے آخری روز پاکستان نے اپنی دوسری اننگز 380 رنز آٹھ کھلاڑی آؤٹ پر ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے میزبان ٹیم کو 270 رنز کا ہدف دیا۔ اسد شفیق 100 اور عدنان اکمل 35 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔

سری لنکا کی ٹیم نے کھیل کے اختتام تک چار وکٹوں کے نقصان پر 195 رنز بنائے۔ سنگاکارا 74 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔

اسد شفیق کو میچ کا جب کہ سنگاکارا کو ٹیسٹ سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ سری لنکا نے جیتا تھا جب کہ باقی دونوں ٹیسٹ میچ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوگئے۔

اس دورے میں دو ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز ایک ، ایک سے برابر رہی جب کہ پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز بھی سری لنکا نے تین ، ایک سے جیتی تھی۔

سری لنکا نے ٹیسٹ سیریز جیت لی

مستقبل کی اہم سائنسی ایجاد

دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری روزمرہ زندگیوں میں جتنی تبدیلی پہلے سوبرس میں آتی تھی، اب وہ محض دس برسوں میں آرہی ہے اور بہت جلد تبدیلی کی رفتار اس سے بھی دگنی ہوجائے گی۔

اگلے پانچ سے دس سال میں بہت کچھ بدلنے جارہا ہے اور بہت ممکن ہے کہ آج پیدا ہونے والے بچے پانچ سال کے بعد جب سکول میں پہنچیں گے تو آج کی بہت سی مقبول سائنسی ایجادات انہیں تصویروں یا کباڑخانوں میں نظر آئیں گی۔

امریکہ سمیت بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر اب اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ڈیجیٹل الیکٹرانکس کے سٹوروں میں اب ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر اکا دکا ہی دکھائے دیتے ہیں اور ان کی جگہ لے لی ہے لیپ ٹاپ کمپوٹرز نے۔ لیپ ٹاپس کے اکثر نئے ماڈلز میں استعمال کیا جانے والا مائیکرو پراسسر ڈیسک ٹاپ کے مقابلے میں طاقت، ریم میموری اور ہارڈ ڈسک بھی نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ گرافک کارڈ بہتر ہیں اور انٹرنیٹ کے لیے زیادہ قوت کے وائی فائی استعمال کیے گئے ہیں۔ لیب ٹاپ کے اکثر نئے ماڈلز کو ڈیسک ٹاپ کے متبادل کا نام دیا جارہا ہے۔ قیمت بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ پانچ سو سے سات سو ڈالر میں آپ ایک ایسا لیپ ٹاپ لے سکتے ہیں جو آپ کو ڈیسک ٹاپ کی ضرورت سے بےنیاز کرسکتا ہے، اور آپ جس جگہ چاہیں، آرام سے بیٹھ کر اپنا کام کرسکتے ہیں۔ بجلی کے کنکشن کا جھنجھٹ اور نہ انٹرنیٹ کی تار لگانے کی ضرورت۔ نئے طاقت ور لیپ ٹاپ وزن میں ہلکے ہیں، ان کی بیٹری دیر تک چلتی ہے یعنی آپ چھ سے آٹھ گھنٹے تک بیٹری چارچ کیے بغیر کام کرسکتے ہیں۔ اب ایسے لیپ ٹاپ بھی دستیاب ہیں جن کی بیٹری 15 گھنٹوں تک چلتی ہے۔ 

ایک طرف جہاں ڈیسک ٹاپ کی جگہ لے رہا ہے لیپ ٹاپ تو دوسری طرف لیپ ٹاپ کی بقا بھی خطرے میں پڑی ہوئی ہے۔ چار پانچ سال پہلے لیپ ٹاپ کے مقابلے میں نیٹ بک متعارف ہوئی تھی۔ یہ ہلکا پھلکا لیپ ٹاپ ایسے لوگوں کے لیے تھا جو زیادہ تر انٹرنیٹ پر رہتے ہیں۔ نیٹ بک کے بعد کے ماڈلز کو لیپ ٹاپ کا متبادل بنانے کےلیے ان میں طاقت ور مائیکرو پراسیسر، زیادہ ریم میموری اور بڑی ہارڈ ڈیسک لگائی گئی۔ نیٹ بک ابھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہوہی رہی تھی کہ اس پر شب خون مارا ایپل نے آئی پیڈ کی شکل میں۔

آئی پیڈ ایک طرح سے نیٹ بک ہی ہے، مگر اس کا وزن کم تھا، کارکردگی بہتر تھی، بیٹری زیادہ چلتی تھی اور دیکھنے میں کہیں زیادہ جاذب نظر تھی۔ آئی پیڈ کی نقل میں بہت سی ڈیجیٹل کمپنیاں بھی اسی طرح کے اپنے کمپیوٹر مارکیٹ میں لے آئیں۔ امریکی مارکیٹوں میں اب نیٹ بک ڈھونڈے سے ہی کہیں دکھائی دیتی ہے اور ہر جگہ اپنے جلوے دکھا رہے ہیں آئی پیڈ طرز کے منی کمپیوٹر۔

منی کمپیوٹرز کی اس نئی نسل نے صرف نیٹ بک اور روایتی لیپ ٹاپ کو ہی اپنا نشانہ نہیں بنایا بلکہ الیکٹرانک بک ریڈرز بھی اس کی زد میں آگئے کیونکہ وہ اپنی شکل وشہبات اور حجم میں بک ریڈرز سے بہت قریب ہیں، جس پر آپ ڈیجیٹل کتابیں پڑھنے کے ساتھ کمپیوٹر کی سہولت کا فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ ان منی کمپیوٹرز یا لیپ ٹاپس کی بہتات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ بک ریڈر جو چند سال پہلے تک چار پانچ سو ڈالر میں ملتا تھا، اب ایک سو ڈالر سے کم میں بھی دستیاب ہیں مگر کوئی خریدار نہیں ہے۔

ایک دوسرے کی جگہ لینے کا یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے۔ آئی پیڈ طرز کے کمپیوٹرز کو اب نگل رہاہے سمارٹ موبائل فون۔ گذشتہ دو برسوں کے دوران سمارٹ فونز کے سائز نمایاں طورپر بڑے ہوچکے ہیں۔ اور مارکیٹ میں پانچ سے سوا پانچ انچ سائز کے فونز عام فروخت ہورہے ہیں۔ ان میں طاقت ور مائیکرو پراسیسر نصب ہیں۔ نئی نسل کے کئی سمارٹ فونز اب ڈبل کور پراسیسر ز کے ساتھ آرہے ہیں اور ان ریم میموری دو جی بی ہے جب کہ قابل استعمال میموری 16 سے 32 جی بی ہے جب کہ ان میں 64 جی بی فلیش میموری کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ گویا ایک طرح سے آپ کے پاس 96 جی بی ہارڈ ڈسٹک موجود ہے جو نیٹ بک اور آئی پیڈ ٹائپ منی کمپیوٹرز سے کہیں زیادہ ہے۔ ان میں این ٹائپ طاقت ور وائی فائی انٹرنیٹ اور جی فور کی سہولت فراہم کی گئی ہے جس سے اس کی انٹرنیٹ کارکردگی ایک اچھے اور معیاری لیپ ٹاپ جیسی بن گئی ہے۔ ان سمارٹ فونز میں دو کیمرے فراہم کیے گئے ہیں۔ سامنے کے رخ ویڈیو چیٹنگ کے لیے تقریباً دو میگا پیکسلز کا کیمرہ لگایا گیا ہے جب کہ پیچھے کی جانب آٹھ میگا پیکسلز کا زوم کیمرہ ہے، جو نہ صرف معیاری تصویر اتار تا ہے بلکہ 1080 ایچ ڈی ویڈیو فلم بھی بناسکتاہے۔ بعض ماڈلز میں 16 میگا پیکسلز کے کیمرے نصب ہیں۔ نئے سمارٹ فونز کے کیمروں میں کئی ایسے فنگشنز بھی شامل کردیے گئے ہیں جو اس سے پہلے صرف اعلیٰ معیار کے پروفیشنلز کیمروں میں ہی ملتے تھے۔

نئے سمارٹ موبائل فونز اب لیپ ٹاپ کی ہائی ریزلوشن سکرین کے ساتھ آرہے ہیں۔ اس طرح سمارٹ فونز کی نئی نسل، صرف فون ہی نہیں ہے بلکہ وہ بیک وقت ایک طاقت ور منی کمپیوٹر بھی ہے، ایک معیاری سٹل اور ویڈیو کیمرہ بھی ہے، ایک ڈیجٹل بک ریڈر بھی ہے، ایک جدید جی پی ایس بھی ہے جس سے آپ راستے معلوم کرسکتے ہیں اور اس کے سیٹلائٹ لنک کے ذریعے سڑکوں پر ٹریفک کی تازہ ترین صورت حال سے بھی باخبر رہ سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ کلاک بھی ہے اور کلینڈر بھی۔​​

نئے سمارٹ فونز میں ٹی وی کی سہولت بھی موجود ہے اوران پر آپ اپنی پسند کے ٹی وی چینلزالائیو دیکھ سکتے ہیں۔ گویا ایک فون میں کئی ڈیجیٹل آلات کی خصوصیات کو اکٹھا کردیا گیا ہے۔

اکثر تجریہ کاروں کا کہناہے کہ آج ہمارے زیر استعمال بہت سے سائنسی آلات آئندہ پانچ سے دس برسوں میں روزمرہ زندگی سے نکل جائیں گے اور ان سب کی جگہ لے لے گا ایک سمارٹ فون، جو کمپیوٹر سے لے کر گھر کے الیکٹرانک آلات کو کنٹرول کرنے والے ریموٹ تک کی بجائے استعمال کیا جانے لگے گا۔
مستقبل کی اہم سائنسی ایجاد

پاکستانی گاؤں سے طالبان کی پسپائی

پاکستان کے شمال مغربی قبائلی خطے میں در اندازی کرکے ایک سرحدی گاؤں پر قبضہ کرنے والے درجنوں عسکریت پسند فوج کی کارروائی کے بعد دوبارہ افغانستان کی طرف فرار ہوگئے ہیں۔

باجوڑ ایجنسی میں سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے جمعہ اور جمعرات کی درمیانی شب تاریکی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پسپائی اختیار کی اور جھڑپوں میں مارے گئے کم از کم 15 ساتھیوں کی لاشیں بھی اپنے ساتھ لے گئے۔

یہ شدت پسند جمعرات کی دوپہر افغان صوبے کُنڑ سے سرحد عبور کرکے کٹ کوٹ نامی گاؤں پر حملہ آور ہوئے تھے جہاں وہ طالبان مخالف قبائلی لشکر کے ارکان کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔

مقامی ذرائع کے مطابق کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی لڑائی کے دوران طالبان مخالف لشکر کے دو ارکان ہلاک جب کہ دو سپاہی زخمی بھی ہوئے۔

افغان سرحد کی جانب سے پاکستان کے علاقوں بالخصوص وہاں قائم حفاظتی چوکیوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں حالیہ ہفتوں کے دوران تیزی آئی ہے اور ان میں لگ بھگ 20 فوجی اہلکار بھی مار جا چکے ہیں۔

پاکستان نے جنگجوؤں کی ان سرحد پار کارروائیوں پر کابل حکومت سے سخت احتجاج کرتے ہوئے اس سے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں سرگرم عسکریت پسندوں کے خلاف ضروری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

وزیراعظم سوئس حکام کو خط لکھنے کے پابند

عدالت عظمیٰ نے وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف کو حکم دیا ہے کہ وہ 25 جولائی تک صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط لکھیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس ’’این آر او‘‘ کو کالعدم قرار دینے کے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق مقدمے کی جمعرات کو سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل عرفان قادر نے وزیراعظم کی جانب سے عدالت کے سامنے موقف پیش کیا کہ وہ وفاقی کابینہ سے اور وزارت قانون سے مشاورت کے بعد حتمی نکتہ نظر سپریم کورٹ میں پیش کریں گے۔

لیکن عدالت نے وزیر اعظم کے موقف کو غیرتسلی بخش قرار دے کر مسترد کردیا اور انھیں خط لکھنے کی ایک اور مہلت دی۔

​​سپریم کورٹ میں اپنے حکم نامے میں کہا کہ وزیراعظم نے اگر عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد نا کیا تو ان کے خلاف مناسب کارروائی ہوگی۔
حکمران پیپلزپارٹی کے عہدیدار اور قانون دان فواد چودھری نے عدالتی احکامات پر اپنی جماعت کے اس موقف کو دہرایا کہ صدر مملکت کو آئین کے تحت عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔

’’آئین اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ملک کے صدر کو سوئیٹرزلینڈ کے مجسٹریٹ کے سامنے اس طرح پیش کریں۔‘‘

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر سپریم کورٹ توہین عدالت کے جرم میں نااہل قرار دے کر گھر واپس بھیج چکی ہے۔

مقدمے کی آئندہ سماعت اب 25 جولائی کو ہوگی۔

وزیراعظم سوئس حکام کو خط لکھنے کے پابند

بریٹ لی بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرڈ

بریٹ لی
آسٹریلیا کے فاسٹ باؤلر بریٹ لی نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا ہے۔

پینتیس سالہ لی نے میلبورن میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران یہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں گزشتہ تین چار راتوں سے سوچ رہے تھے اور ’’(میں) آج صبح اس خیال کے ساتھ جاگا کہ یہ (اعلان کرنے کے لیے) صحیح دن ہے‘‘۔

بریٹ لی انگلینڈ کے خلاف میچ کے دوران زخمی ہونے کے بعد وطن واپس آنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

ان کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ رواں سال سری لنکا میں ٹی ٹوئنٹی کے عالمی کپ کے بعد ریٹائر ہوجائیں گے۔ لی کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس سے متعلق سلیکٹر سے بھی بات کی تھی لیکن تازہ ترین زخم نے انھیں اپنا منصوبہ تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔

’’بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کے لیے آپ کو ذہنی اور جسمانی طور پر 100 فیصد فٹ ہونا چاہیئے، میرا نہیں خیال کہ یہ ٹیم اور خود میرے لیے صحیح ہوگا جب میں ایسا (فٹ) نہیں ہوں۔‘‘

بریٹ لی نے 2008ء میں آخری ٹیسٹ میچ کھیلا تھا لیکن اس کے بعد وہ ایک روزہ میچوں میں ٹیم کی نمائندگی کرتے رہے۔

انھوں نے 76 ٹیسٹ میچوں میں 310 اور 221 ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں 380 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔
 

جمعہ, جولائی 13, 2012

ولی کی اجازت کے بغیر نکاح غیر موثر نہیں ہوسکتا، اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد (خبرنگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اقبال حمید الرحمن نے پسند کی شادی کرنیوالے شخص کیخلاف درج اغواء کا پرچہ خارج کرنے کا حکم دیدیا۔ فاضل چیف جسٹس نے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر بالغ کا نکاح غیرموثر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ طاہر محمود نامی شخص نے 4 مارچ 2011ء کو تھانہ شہزاد ٹاﺅن میں پرچہ درج کرایا کہ یکم اور دو مارچ کی درمیانی شب محمد اکرام نامی شخص اس کے زیرکفالت یتیم بھتیجی صائمہ شاہین کو اغواء کرکے لے گیا جبکہ ا س موقع پر 7 تولے طلائی زیورات اور 50 ہزار روپے نقدی بھی غائب پائے گئے۔ صائمہ شاہین اور محمد اکرام نے مذکورہ ایف آئی آر کے اخراج کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ رجوع کیا۔ دوران سماعت صائمہ شاہین نے فاضل چیف جسٹس کو بتایا کہ اس نے اپنی مرضی سے محمد اکرام سے شادی کی ہے لہٰذا اس کیخلاف درج اغواء کا پرچہ خارج کرنے کا حکم دیا جائے۔ جمعہ کو عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے ایس ایچ او تھانہ شہزاد ٹاﺅن کو مذکورہ ایف آئی آرخارج کرنے کا حکم دیا ہے۔
 
روزنامہ جنگ 02-04-11

سائنسی سچائیاں جو سچ نہیں

جمیل اختر | واشنگٹن

دنیا بھر میں ایسے بہت سے نظریات ہیں، جنہیں ایک سائنسی حقیقت سمجھتے ہوئے ان پر یقین اور عمل کیا جاتا ہے۔ جب کہ ان کا عموماً سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اور اگر کچھ ہوتا بھی ہے تو اسے غلط سیاق و سباق میں پیش کیا گیا ہوتا ہے۔

ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بہت سی چیزوں پر انہیں سائنسی حقیقت یاطبی شعبے کی تحقیق سمجھ کر نہ صرف یقین کرلیتے ہیں بلکہ انہیں اپنے لیے فائدہ مند سمجھتے ہوئے عمل بھی کرتے رہتے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے ڈاکٹر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی ایسی کئی سائنسی غلط فہمیوں کو سچ مان کر ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

اس مضمون میں ہم چند ایسی سائنسی غلط فہمیوں کا ذکر کررہے ہیں جو ہماری روزمرہ زندگی میں شامل ہوچکی ہیں جنہیں لوگوں کی اکثریت ایک سائنسی حقیقت کے طورپر قبول کرچکی ہے۔

روزانہ پانی کے آٹھ گلاس پینے چاہیں:
آپ نے اکثر یہ پڑھا اور سنا ہوگا کہ اچھی صحت کے لیے روزانہ پانی کے آٹھ گلاس پینے چاہیں۔ جب کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک انسان کو روزانہ کتنا پانی درکار ہوتا ہے؟ اس کا انحصار کئی عوامل پر ہے۔ مثلاً اس کی رہائش سرد یا گرم علاقے میں ہے؟ اس کی عمر، وزن اور قد کاٹھ کتنا ہے؟ وغیرہ۔

آٹھ گلاس کے مفروضے کی بنیاد غالباً 1945ء میں نیوٹریشن کونسل کے تحت کی جانے والی ایک سائنسی تحقیق ہے۔ جس میں بتایا گیا تھ کہ ایک بالغ انسان روزانہ 64 اونس یا تقریباً آٹھ گلاس مائع استعمال کرتا ہے۔ مائع سے مراد پانی، چائے، شربت، کھانے، پھلوں، سبزیوں اورخوراک کی دیگر اشیاء میں قدرتی طور پرموجود پانی ہے۔

خیال یہ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ’مائع‘ کا لفظ پانی میں بدل گیا اور یہ جملہ کہ ایک بالغ انسان تقریباً آٹھ گلاس مائع روزانہ استعمال کرتا ہے، غلط العام ہوکر یہ بن گیا کہ ایک بالغ انسان کو روزانہ آٹھ گلاس پانی پینا چاہیے۔

کم روشنی میں پڑھنے سے نظر کمزور ہوجاتی ہے:
عموماً ہر گھر میں بچوں کو کم روشنی میں پڑھنے سے روکا جاتا ہے۔ خیال عام یہ ہے کہ کم روشنی میں پڑھنے سے نظر کمزور ہوجاتی ہے۔ یہ مفروضہ اس لیے بھی حقیقت سے قریب لگتا ہے کہ اگرآپ کچھ دیر تک کم روشنی میں مطالعہ کریں تو آپ کو اپنی آنکھوں پر بوجھ محسوس ہوگا اور ممکن ہے کہ الفاظ کچھ دھندلے سے بھی لگیں۔

طبی ماہرین اس مفروضے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہناہے کہ کم روشنی میں پڑھنے سے آنکھوں کے اعصاب پر دباؤ پڑسکتا ہے جس سے عارضی طور پر لفظ دھندلے دکھائی دے سکتے ہیں۔ لیکن آنکھوں کو کچھ دیر آرام دینے سے اس کے اعصاب اپنی جگہ پر واپس چلے جاتے ہیں اور بینائی اپنی اصل حالت میں لوٹ آتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق کم روشنی میں پڑھنے سے نظر پر کوئی مستقل اثر انہیں پڑتا۔ بینائی کی کمزوری کے اسباب کچھ اور ہوتے ہیں۔

شیو کرنے سے بال گھنے اور تیزی سے نکلتے ہیں:
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ شیو کرنے سے بال نہ صرف تیزی سے نکلتے ہیں، بلکہ وہ گھنے بھی ہوتے ہیں اور ان کی رنگت بھی گہری ہوتی ہے۔ جب کہ اس نظریے کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس مفروضے کی سچائی جاننے کے لیے 1928ء میں ایک سائنسی تحقیق کی گئی تھی، جس سے پتا چلا تھا کہ شیو کا بالوں کے بڑھنے کی رفتار، ان کی موٹائی اور رنگت کے گہرا ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف نظر کا دھوکہ ہے۔

ہوتا یوں ہے کہ شیو کرنے کے بعد بال ایک صاف جلد پر نکلتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں اور دیکھنے والے کو یہ لگتا ہے کہ بال پہلے سے گھنے ہوگئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ شیو کے دوران بلیڈ عموماً بالوں کو ترچھا کاٹتا ہے اور اپنے نوکیلے سروں کی بنا پر بال گھنے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اگر جلد پر پہلے سے بال موجود ہوں تو ان کے بڑھنے کا احساس ذرا کم ہوتا ہے۔ لیکن صاف جلد پر وہ نمایاں انداز میں بڑھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ماہرین نے جب شیو سے قبل اوراس کے بعد ایک مقررہ وقت کے دوران ان کی لمبائی میں اضافے کی پیمائش کی، تو وہ برابر نکلی۔

بالوں کی رنگت کا بھی شیو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ عرصے تک دن کی روشنی میں رہنے سے بالوں کی رنگت قدرے کم پڑ جاتی ہے کیونکہ سورج کی روشنی میں رنگ کاٹنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ جب کہ صاف جلد پر نئے بال ہمیں اپنے اصلی رنگ میں دکھائی دیتے ہیں، اس لیے ان کا رنگ گہرا لگتا ہے۔

ہم اپنے دماغ کا صرف دس فی صد حصہ استعمال کرتے ہیں:
عام طور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم اپنے دماغ کا بہت ہی کم حصہ استعمال کرتے ہیں، یعنی زیادہ سے زیادہ دس فی صد اور عام حالات میں محض تین سے پانچ فی صد تک۔ ایک سائنسی تخمینے کے مطابق انسانی دماغ میں ایک کھرب سے زیادہ نیوران ہوتے ہیں۔ نیوران وہ خلیے ہیں جو یاداشت اور دوسرے افعال کی انجام دہی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

دماغ کے سٹی سیکن اور اس کی کارکردگی جانچنے کی جدید ٹیکنالوجی کی دستیابی سے قبل ماہرین کا خیال تھا کہ دماغ میں موجود نیوران کی تعداد ہماری ضرورت سے کئی گنا زیادہ ہے اس لیے دماغ کا ایک بڑا حصہ استعمال میں ہی نہیں آتا۔ لیکن اب جدید تحقیق سے پتا چلا ہے کہ انسانی دماغ سو فی صد فعال ہے اور اس کا ہر حصہ مکمل طورپر کام کررہا ہے۔

انسان حواس خمسہ سے کام لیتا ہے:
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک مکمل انسان کے پاس پانچ قدرتی حواس ہوتے ہیں جن کے سہارے وہ اپنی زندگی گذارتا ہے۔ یعنی، دیکھنے، سننے، چھونے، چکھنے اورسونگھنے کی حس۔ پانچ حواس کا تصور قدیم یونانی مفکر ارسطو نے پیش کیا تھا، جسے ایک سائنسی حقیقت کے طورپر قبول کرلیا گیا۔ مگر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خدا نے انسان کو پانچ سے زیادہ حواس دیے ہیں اور مختلف جائزوں کے مطابق ان کی تعداد 9 سے 20 کے لگ بھگ ہے۔ دیگر حواس میں درد، بھوک، پیاس، دباؤ، توازن، رفتار اورحرارت وغیرہ محسوس کرنے کی صلاحیتیں شامل ہیں۔ یہ وہ حواس ہیں جن کے بغیر زندگی گذارنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے


کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے
کوئی ایک لفظ تو ایسا ہو کہ قرار ہو
کہیں ایسی رت بھی ملے ہمیں جو بہار ہو
کبھی ایسا وقت بھی آئے کہ ہمیں پیار ہو!

کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔
کہ چراغِ جاں اسے نور دے، اسے تاب دے، بنے کہکشاں
کوئی غم ہو جس كو كہا کریں غمِ جاوداں
کوئی یوں قدم کو ملائے کہ بنے کارواں

کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ قرار ہو
میری راہِ گزرِ خیال میں کوئی پھول ہو
میں سفر میں ہوں مرے پاؤں پہ کبھی دھول ہو
مجھے شوق ہے مجھ سے بھی کبھی کوئی بھول ہو
غمِ ہجر ہو، شبِ تار ہو، بڑا طول ہو۔۔۔

کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ قرار ہو
کہ جو عکسِ ذات ہو، ہو بہو میرا آئینہ، میرے رو برو
کوئی ربط کہ جس میں نا مَیں، نہ تُو
سرِ خامشی کوئی گفتگو ۔۔۔

کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے

امریکہ نے پاکستان سے کھل کر معافی نہیں مانگی

افغانستان میں متعین نیٹو فورسز کو پاکستان کے راستے سپلائی لائن کی بحالی میں امریکی وزیر ہلیری کلنٹن اور پاکستانی صدر آصف زرداری کی ملاقات نے اہم کر دار ادا کیا، جس دوران امریکی معذرت اور ٹرانزٹ فیس کے معاملات طے پائے۔

گزشتہ برس ایک امریکی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اسلام آباد حکومت نے سات ماہ سے بھی زائد عرصے تک نیٹو کی سپلائی لائن بند رکھی تھی۔ سپلائی کی بحالی کے لیے مئی میں پاکستانی صدر زرداری اور امریکی وزیرخارجہ کلنٹن کی شکاگو میں منعقدہ ملاقات فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اپنے 24 فوجیوں کی ہلاکت کے معاملے پر اسلام آباد حکومت نے خوب احتجاج کیا اور بالآخر امریکہ کو معذرت پر مجبور کیا تاہم واشنگٹن نے بھی براہ راست معافی مانگنے کے بجائے نہایت سلیقہ مندی سے معذرت کے الفاظ چُنے۔

اس ضمن میں یہ احتیاط برتی گئی کہ اسلام آباد کی خواہش بھی پوری ہو اور رواں سال ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات جیسے نازک مرحلے میں صدر باراک اوباما پر اندرون خانہ تنقید کے سلسلے کا آغاز بھی نہ ہو۔ ذرائع کے مطابق وزیردفاع لیون پنیٹا کے اس بیان نے بھی امریکی انتظامیہ کو معافی کے ردعمل سے کسی حد تک بچایا، جس میں انہوں نے متبادل سپلائی روٹ کے بدلے ہر ماہ واشنگٹن کو پہنچنے والے اضافی ایک سو ملین ڈالر کے اخراجات کا ذکر کیا۔ امریکی ذرائع کے مطابق وزیر دفاع پنیٹا اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی جیسے عہدیدار پاکستان سے معافی نہ مانگنے کے حق میں تھے۔

روئٹرز نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا کہ شکاگو میں صدر زرداری کے ہمراہ پاکستانی وزیرخزانہ عبد الحفیظ شیخ بھی امریکی عہدیداروں سے ملے اور بعد میں انہوں نے ہلیری کلنٹن کے ایک نائب تھومس نائڈس کے ساتھ طویل رابطہ کاری کے بعد ٹرانزٹ فیس اور معافی نامے کے معاملات طے کیے۔ امریکی ذرائع کے مطابق پاکستان نے نیٹو کو گزرگاہ فراہم کرنے کے لیے اضافی فیس کے مطالبے سے بھی دستبرداری اختیار کی۔

روئٹرز کے مطابق یہ دونوں اتحادی ممالک سپلائی لائن کی بحالی کو دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے خاصا اہم خیال کررہے تھے۔ امریکی ذرائع کے مطابق ایوان اقتدار سے منسلک بہت سے عہدیدار پاکستان سے معانگی مانگنے کی اس لیے مخالفت کررہے تھے کہ وہ اسے خطے کے ایسے ملک کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو وسیع امریکی امداد وصول کرکے بھی امریکی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان سے کھل کر معافی نہیں مانگی گئی، ’’یہ افسوس کے اظہار کا ایک بیان تھا، جس میں معافی سے منسلک الفاظ استعمال کیے گئے۔‘‘ ایسے امکانات موجود تھے کہ اگر سپلائی لائن کی بحالی سے متعلق پاکستان کے ساتھ تصفیہ نہ ہوپاتا تو امریکی قانون ساز اسلام آباد کی مالی معاونت میں بڑے پیمانے پر کمی کر دیتے۔

”امریکہ نے پاکستان سے کھل کر معافی نہیں مانگی“

جمعرات, جولائی 12, 2012

حقیقی پاکستانی ننجا سٹائل ۔۔۔۔۔ ضرور دیکھیں


دیکھیں تو بہت مزہ آئے گا

ٹی وی سکرین کے پیچھے کچھ مناظر کی جھلک دیکھیں

ہالینڈ: ”میتسوبیشی موٹرس“ کا کارخانہ ایک یورو میں فروخت ہوگیا

جاپانی موٹر ساز کمپنی ”میتسوبیشی“ نے ہالینڈ میں واقع اپنا اسبملنگ پلانٹ ایک یورو میں فروخت کردیا ہے۔ ہالینڈ کی کمپنی ”وی ڈی ایل“ نے یہ پلانٹ خرید لیا، اب وہاں لائسنس کے مطابق بی ایم ڈبلیو گاڑیاں بنائی جائیں گی۔ کمپنی ”میتسوبیشی“ کا منصوبہ ہے کہ یورپی یونین میں اپنے کارخانے بند کرکے روس سمیت دوسرے ملکوں میں اپنی سرگرمیوں میں تیزی لائے۔ ایک یورو میں پلانٹ کی فروخت کی شرط یہ تھی کہ ڈیڑھ سو مزدوروں میں سے ایک بھی مزدور کو نہ نکالا جائے۔ اس پلانٹ میں منی کاریں اور جیپیں اسمبل کی جاتی تھیں لیکن مالی بحران کے پیش نظر مغربی یورپ میں ایسی کاروں کی مانگ میں انتہائی کمی آ چکی ہے۔

ہالینڈ: "میتسوبیشی موٹرس" کا کارخانہ ایک یورو میں فروخت ہوگیا

دنیا کی آبادی سات ارب نفوس سے تجاوز کرگئی

اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب پانچ کروڑ چھہتر لاکھ آٹھ ہزار افراد ہے۔ اس بارے میں کل دنیا کی آبادی کی جرمن فاؤنڈیشن کے ترجمان اوٹے شٹال مائسٹر نے بتایا ہے۔ ان کے مطابق دنیا کی آبادی میں اضافے کا موجب ترقی پذیر ملک ہیں۔ اس صدی میں افریقہ کی آبادی میں ساڑھے تین ارب افراد کا اضافہ ہو چکا ہے، وہاں ابادی میں زیادہ اضافہ صحارا کے جنوب میں دیکھنے میں آیا ہے، جہاں اوسطا" ہر عورت پانچ بچوں کو جنم دیتی ہے۔ کلی طور پر دنیا کی آبادی میں ہر برس 8 کروڑ نفوس کا اضافہ ہو رہا ہے یعنی جتنی آج جرمنی کی آبادی ہے، شٹال مائسٹڑ نے کہا۔

دنیا کی آبادی سات ارب نفوس سے تجاوز کرگئی

کشمالہ طارق کا رپورٹر کے سوال پر روایتی سیاست دان کا انداز

کشمالہ طارق کا تعلق پاکستان کی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ ہم خیال گروپ سے ہے۔ کشمالہ طارق تعلیم یافتہ سیاست دان اور رکن قومی اسمبلی ہیں لیکن ٹی وی رپورٹر کے سوال پر ان کا انداز بھی پاکستان کے روایتی سیاست دانوں جیسا ہے

The Undertaker Vs Triple H (Hell in a cell) Wrestlemania 28 Full Match

One of the best match in history of WWE i ever had seen but Shawn vs Undertaker is still much better because that was a classic pure wrestling match no chairs, no sledge hammer, no tools.

پالیکیلے ٹیسٹ، اظہر علی کی عمدہ بیٹنگ ... پاکستان کی اٹھاسی رنز کی برتری

اظہر علی تیرہ چوکوں کی مدد سے ایک سو چھتیس رنز بنا کر آؤٹ ہوئے
سری لنکا کے شہر پالیکیلے میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کے چوتھے روز پاکستان کو سری لنکا پر ایک سو اٹھاسی رنز کی برتری حاصل ہوگئی ہے۔

پاکستان نے دن کے اختتام پر آٹھ وکٹوں کے نقصان پر دو سو ننانوے رنز مکمل کر لیے اور ابھی اس کی دو وکٹیں باقی ہیں۔

میچ کے اختتام پر اسد شفیق پچپن اور وکٹ کیپر عدنان اکمل صفر پر کھیل رہے تھے۔

اس سے پہلے پاکستان نے اپنی پہلی اننگز میں دو سو چھبیس رنز بنائے جبکہ سری لنکا نے تین سو سینتیس رنز بنائے تھے۔

بدھ کو میچ کے چوتھے روز پاکستان نے ایک وکٹ کے نقصان پر ستائیس رنز سے اپنی دوسری اننگز کا دوبارہ آغاز کیا۔

اظہر علی نے چھ اور محمد حفیظ آٹھ رنز پر اپنی اننگز دوبارہ شروع کی۔

محمد حفیظ 52 رنز اور اظہر علی ایک سو چھتیس رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ اس کے علاوہ یونس خان نے انیس، کپتان مصباالحق نے پانچ، محمد سمیع تین، عمر گل صفر اور سعید اجمل نے پانچ رنز بنائے۔

سری لنکا کی جانب سے ہیراتھ چار وکٹوں کے ساتھ نمایاں بالر رہے جب کہ فرنینڈو نے تین اور کالوسیکرا نے ایک وکٹ حاصل کی۔

ٹیسٹ میچ کے دوسرے روز بارش کی وجہ سے کھیل شروع نہیں ہوسکا تھا۔

تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں سری لنکا کو ایک صفر سے برتری حاصل ہے۔

گال میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں سری لنکا نے پاکستان کو دو سو نو رنز سے شکست دی تھی جبکہ کولمبو میں کھیلا جانے والا دوسرا ٹیسٹ میچ ڈرا ہوگیا تھا۔

اس سے پہلے پاکستان سری لنکا سے ایک روزہ میچوں کی سیریز تین ایک سے ہار چکا ہے۔



پالیکیلے ٹیسٹ، اظہر علی کی عمدہ بیٹنگ

’جینڈر ٹیسٹ کے دوران ہاتھ پیر باندھے گئے‘

پنکی پرمانک
بھارت کی خاتون ایتھلیٹ پنکی پرمانک کا کہنا ہے کہ پچیس دن بعد ضمانت پر رہائی ملنے پر وہ خوش ہیں اور ان پر ایک سازش کے تحت الزامات لگائے جارہے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی جنس کے تعین کا ٹیسٹ زبردستی ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر لیا گیا۔

عدالت نے منگل کو پنکی پرمانک کی رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔ پنکی پرمانک کو عصمت دری کے الزام میں پچیس دن قبل گرفتار کیا گیا تھا۔

بدھ کی صبح کولکاتہ کی دم دم جیل سے رہائی کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پنکی پرمانک نے اپنے اوپر لگے الزامات کو ایک سازش بتایا اور کہا کہ وہ معصوم ہیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار امیتابھ بھٹاسالی سے بات کرتے ہوئے پنکی پرمانک نے کہا: ’رہائی کے بعد میں خوش ہوں۔ بدقسمتی سے مجھے غلط الزام میں پھنسایا گیا ہے۔ اور اب بھی پھنسانے کی کوشش جاری ہے۔‘

ایک نجی ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی سے بات چیت میں پنکی نے بتایا کہ ’جینڈر ٹیسٹ کے دوران میں اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہی تھی۔ میرے ہاتھ پیر باندھ کر زبردستی ٹیسٹ لیا گیا۔‘

سنہ دو ہزار چھ کے ایشیائی کھیلوں میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والی بھارتی ایتھلیٹ پنکی پرمانک کو عصمت دری کے الزام میں گزشتہ ماہ ریاست مغربی بنگال سے گرفتار کیا گیا تھا۔ قید کے دوران پنکی پرمانک کا جینڈر ٹیسٹ کیا گیا جس سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ پنکی ایک مرد ہیں یا خاتون۔

’جینڈر ٹیسٹ کے دوران ہاتھ پیر باندھے گئے‘